تادمِ تحریر صوبہ پنجاب کی حد تک انتخابات کا بگل بج چکا ہے۔ صدرِ پاکستان الیکشن کمیشن کی مشاورت سے عدالتِ عظمیٰ کے حکم پر پنجاب میں 30اپریل کو الیکشن کرانے کا اعلان کر چکے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ عمران خان کی سیاسی فتح ہے کہ انہوں نے صوبائی اسمبلیاں توڑ کر جو مقصد حاصل کرنا چاہا‘ وہ وفاقی حکومت کی سر توڑ کوششوں کے باوجود اس مقصد کے قریب جا پہنچے ہیں۔ پنجاب کے الیکشن میں جو جماعت واضح اکثریت حاصل کرے گی‘ وہی پاکستان پر بھی حکومت کرے گی۔ اس وقت عمران خان اپنی مقبولیت کے عروج پر ہیں‘ پنجاب میں انہوں نے اپنے قدم جما لیے ہیں اور اس بات کے واضح امکانات ہیں کہ ان کی جماعت اس صوبے میں اکثریتی جماعت بن کر ابھر سکتی ہے۔ دوسری جانب (ن) لیگ کا حال یہ ہے کہ وہ ابھی تک نیا بیانیہ بنانے کی جستجو میں ہے۔ اپنے بھائی کے وزیراعظم ہونے کے باوجود نواز شریف وطن واپس نہیں آپا رہے‘ ان کی اور مریم نواز کی نااہلی ویسے ہی برقرار ہے‘ اس صورتحال میں اگر صرف پنجاب کی حد تک الیکشن ہوتے ہیں تو اس میں سراسر نقصان مسلم لیگ (ن) کا ہو گا۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ پنجاب کے حلقوں میں جب پی ٹی آئی کے ایم پی ایز ایک بڑی تعداد میں بیٹھے ہوں گے اور صوبائی حکومت ممکنہ طور پر پرویز الٰہی کی ہوگی تو قومی اسمبلی کے انتخابات میں یہاں سے مکمل جھاڑو پھرنے کا امکان ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ کہیں نہ کہیں مسلم لیگ (ن) میں یہ سوچ جڑ پکڑ رہی ہے کہ وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن بیک وقت ہی کرائے جائیں‘ کیونکہ پی ڈی ایم میں شامل پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کے مقابلے میں اقتدار کا شوق پورا کرنے کا سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ (ن) کو ہی اٹھانا پڑا ہے۔ 'سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘ کے نعرے میں اپنی سیاست صرف (ن) لیگ نے ہی قربان کی کیونکہ آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن کی سیاست وہیں کھڑی ہے جہاں اقتدار لینے سے قبل کھڑی تھی لیکن مسلم لیگ (ن) کے لیے پنجاب اب وہ مضبوط گڑھ نہیں رہا جو 2018ء تک تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی سیاسی تباہی میں مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں کا اپنا بھی بہت کردار رہا ہے۔ سب سے پہلے تو وہ عمران خان کے جارحانہ بیانیے کا مقابلہ ہی نہیں کر سکے کیونکہ ان کے پاس نہ تو سوشل میڈیا کی کوئی ماہر ٹیم تھی اور نہ ہی پی ٹی آئی جیسے متحرک رہنما اور کارکن‘ جو اپنے لیڈر کے کہنے پر کسی بھی حد تک جانے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ دوسری جانب پی ڈی ایم حکومت کے مرکزی چہرے دیکھیں تو تمام اہم عہدوں پر (ن) لیگ کے رہنما نظر آتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف ہیں‘ وزیرخزانہ اسحاق ڈار ہیں اور وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب ہیں‘ اس سے یہی لگتا ہے کہ حکومت پی ڈی ایم نہیں بلکہ (ن) لیگ کی ہے۔ اگر (ن) لیگ صرف وزارتِ اطلاعات کا عہدہ ہی پیپلزپارٹی کو دے دیتی تو اپنی ناکامیوں میں وہ کم از کم پیپلز پارٹی کو شامل کر سکتی تھی یا پھر عوام کو یہ پیغام ضرور جاتا کہ یہ حکومت پی ڈی ایم کی ہے۔ اب حال یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی کارکردگی بڑی حد تک تحریک انصاف کی حکومت جیسی ہی بدترین ہے اور اسحاق ڈار کی پالیسیوں نے ملکی معیشت پر جھاڑو پھیر دیا ہے۔ ملک مسلسل دیوالیہ ہونے کے خطرے کا شکار ہے اور یہ تمام تر ناکامیاں (ن) لیگ کی سیاست کو لے ڈوبی ہیں۔ اوپر سے اسحاق ڈار‘ جو بہت سے دعووں اور وعدوں کے ساتھ اپنی خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے وطن واپس لوٹے تھے‘ کی غلط پالیسیوں نے ملکی معیشت کو ڈبو دیا۔ مفتاح اسماعیل پر وہ یہ کہہ کر پھبتیاں کسا کرتے تھے کہ میں آئی ایم ایف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کروں گا اور مجھ سے بہتر آئی ایم ایف کو کوئی نہیں جانتا۔ لیکن جب وہ پورے طمطراق سے واپس آئے تو انہوں نے معیشت کو سنبھالا دینے کے نام پر چار ماہ تک آئی ایم ایف سے معاہدہ معطل رکھا اور وہ تمام اصلاحات جو انہوں نے چار ماہ کے دوران لاگو کرنا تھیں‘ ان کو مؤخر کیے رکھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جب آئی ایم ایف نے آنکھیں دکھائیں تو اسحاق ڈار صاحب نے پھرتی سے وہ تمام اصلاحات چار دنوں میں نافذ کردیں‘ جس سے ملک میں مہنگائی دوچند ہو گئی۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کی سیاست کو آج جتنا نقصان اسحاق ڈار کی معاشی پالیسیوں نے پہنچایا ہے‘ اس کا اندازہ میاں صاحب کو لندن بیٹھ کر نہیں ہو سکتا۔ ان تمام تر مشکلات میں میاں شہباز شریف بھی بطور وزیراعظم ابھی تک کوئی مثبت کارکردگی دکھانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ وہ چاہ کر بھی عوام کو نہ تو کوئی ریلیف دے سکے‘ نہ ہی پاکستان کو مشکلات سے نکال سکے۔
اب مریم نواز میدان میں اتری ہیں کہ وہ عمران خان کے بیانیے کا توڑ کر سکیں لیکن ان سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں رکھنی چاہئیں۔ مسلم لیگ (ن) میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں حمزہ شہباز کی ایک کلیدی حیثیت ہے۔ اٹک سے لے کر صادق آباد تک ممبرانِ اسمبلی اور عام کارکن ان کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی ہوم گراؤنڈ پنجاب کی سیاست کو حمزہ شہباز بخوبی سمجھتے ہیں۔ اس لیے مریم نواز اور حمزہ شہباز مل کر جماعت کو اس مشکل وقت سے نکال سکتے ہیں۔ اس وقت ملک میں مہنگائی 48سال کی بلند ترین سطح کو چھورہی ہے‘ رمضان شریف بھی قریب ہے‘ اندازہ کریں تب کیا ہوگا۔ شرحِ سود 20 فیصد کردی گئی ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ کاروبار کو وسعت ملے گی اور نہ ہی لوگ نئے کاروبار شروع کریں گے‘ جس سے روزگارکے نئے مواقع بھی نہیں ملیں گے۔ گیلپ سروے پہلے ہی نشاندہی کر چکا ہے کہ ملک میں قریباً 2کروڑ نوجوان بے روزگار ہیں۔ شرحِ سود بڑھنے سے ملکی معاشی نشوونما کو بریک لگ جائے گی۔ اس تمام صورتحال میں پی ڈی ایم کی واحد امید کسی کیس میں عمران خان کی نااہلی ہے۔ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے بقول انہیں وہ انصاف نہیں مل رہا جو عمران خان کو ملا۔ مریم نواز بھی مسلسل اپنے والد کی سزائیں ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ بلاول بھٹو بھی پیپلز پارٹی اور (ن)لیگ کے وزرائے اعظم کو ملے انصاف پر شکوہ کناں نظر آتے ہیں‘ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ پی ڈی ایم کی عمران خان کے کیسز کو لے کر نظام جو امیدیں تھیں‘ وہ پوری نہیں ہورہیں۔ مریم نواز تو کہہ رہی ہیں کہ عمران خان انجام کو پہنچ چکے‘ اب بھی کیوں ان کی حمایت جاری ہے؟ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ معاملات پی ڈی ایم کے لیے اتنے سادہ نہیں۔ دوسری جانب عمران خان بھی شکوہ کناں ہیں کہ دیگر سٹیک ہولڈرز ان سے کوئی بات کرنے کو تیار نہیں۔ عمران خان‘ جو اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد مقتدرہ مخالف رویہ اپنائے ہوئے ہیں‘ کی جانب سے یہ خواہش سمجھ سے بالاتر ہے۔ دوسری جانب وہ عوامی طاقت پر بھروسہ کرنے کے بجائے مسلسل طاقتور مراکز کی جانب دیکھ رہے ہیں‘ جو یہ بھی باور کراتا ہے کہ ان کی سیاست عوام سے نہیں بلکہ کسی اور مرکز سے جڑی ہے۔ یوں اگر تحریک انصاف پھر سے اقتدار میں آ بھی گئی تو اسی ہائبرڈ نظام سے حکومت چلانے کی کوشش کرے گی‘ جس میں وہ پہلے بھی ناکام رہی ہے۔ اس ساری صورتحال میں بنیادی طور پر پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کیلئے یہ وہی دائرے کا چکر ہے جس میں آگے بڑھنے کی کوئی سمت نہیں‘ اور اس سب میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو اٹھانا پڑ رہا ہے اور عوام اس نقصان کے بوجھ تلے دبتے چلے جارہے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved