جیت آخر ہوئی کس کی؟ یا یوں کہہ لیجئے کہ اب تک کون جیتتا دکھائی دیتا ہے؟ نہیں بھئی‘ میں پی ایس ایل کی ٹیموں کی بات نہیں کر رہا‘ بڑی ٹیموں کی بات کر رہا ہوں‘ جن کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ کچھ ٹیمیں کھیلتی نظر آرہی ہیں اور کچھ کھیلتی دکھائی نہیں دیتیں لیکن کھیل سبھی رہے ہیں۔ عمران خان‘ پی ڈی ایم‘ جماعت اسلامی۔ وہ جماعتیں بھی جو بس ایک علاقے اور ایک صوبے تک محدود ہیں۔ اور اب تو یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ ایک دور کی بہت بڑی جماعت اے این پی بھی انہی میں شمار ہونے لگی ہے۔ بدلتے وقت نے انہیں ایک چھوٹی سی چادر کے اندر پاؤں سمیٹنے پر مجبور کردیا ہے۔ ویسے تو یہ حال بتدریج پیپلز پارٹی کا بھی ہورہا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ محض سندھ تک محدود ہورہی ہے لیکن قومی معاملات میں اس کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ بلاول بھٹو بطور وزیر خارجہ اپنی شناخت اور تعلقات بنا رہے ہیں اور پیپلز پارٹی انہیں اگلے ملکی سربراہ کے طور پر لانے کی خواہش مند ہے۔
خیر یہ تو جملۂ معترضہ تھا‘ اصل سوال وہیں ہے کہ گزشتہ دو سال کی اکھاڑ پچھاڑ میں اب تک جیت کس کی ہوئی؟ جب وزیراعظم عمران خان کو ہٹانا طے ہوگیا‘ بٹیرے ایک فصل سے اڑ کر دوسری فصلوں کی طرف جانے لگے اور آصف زرداری‘ مولانا فضل الرحمن اور شہباز شریف وغیرہ نے عدم اعتمادکی تحریک پیش کردی تو ایسا لگ رہا تھا کہ اس دھوبی پٹخے کی تاب لانا پی ٹی آئی کے لیے مشکل ترین ہو جائے گا۔ ویسے بھی کم و بیش پونے چار سال کی حکومت کے بعد پی ٹی آئی غیر مقبولیت کی بلندیوں پر تھی۔ ضمنی انتخابات میں نشستیں مخالفین کے پاس جارہی تھیں اور ان کے لیے مہنگائی‘ افراطِ زر‘ بری حکومتی کارکردگی اور دیگر مسائل پر شور مچانا بہت آسان ہورہا تھا۔ اس وقت بھی اس کالم نگار اور بہت سے ہم خیال افراد کی رائے یہی تھی کہ عمران خان کو پانچ سال مکمل کرنے کا وقت دینا چاہیے‘ ورنہ سیاسی شہادت انہیں بڑا فائدہ پہنچائے گی۔ یہ اکھاڑ پچھاڑ‘ منتظمین کے حق میں تو بری ہوگی ہی‘ ملک کے لیے بھی بہت بری ہوگی۔ اس وقت بھی بہت سے تجزیہ کاروں کی رائے یہ تھی کہ ایک یا ڈیڑھ سال کے لیے حکومت سنبھالنا ان سب سیاسی جماعتوں کا بہت برا نقصان کر جائے گی‘ جو پی ڈی ایم کا حصہ ہیں۔ اس وقت لیکن کسی کو بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ پی ڈی ایم کے دور حکومت میں حالات اور مہنگائی ایسے بے قابو ہو جائیں گے کہ لوگ کل کی بات یعنی عمران خان کے دور حکومت کو بھول جائیں گے۔ میرے خیال میں پی ڈی ایم کے فیصلہ سازوں اور دیگر سہولت کاروں کو بھی ایسا گمان نہیں تھا۔ شہباز شریف کے بارے میں اچھے منتظم اور اچھے سربراہ کی شہرت تھی اور یہی خیال تھا کہ وہ جس طرح پنجاب کے وزارتِ اعلیٰ کے زمانوں میں اپنے جوہر دکھا چکے ہیں‘ وہی کارکردگی وفاق میں بھی دہرائیں گے۔
یہ سوال بہت اہم ہے کہ حالات اور سیاسی موسم پہچاننے والے پی ڈی ایم کے سربراہ جانتے بوجھتے اس نقصان پر راضی کیسے ہوئے جو بہت سے لوگوں کو نظر آرہا تھا۔ اس سوال کے دو تین جواب تو سامنے کے ہیں۔ ایک تو یہ کہ سہولت کاروں کی منشا یہی تھی اور انہیں انکار کرنا ان جماعتوں کے لیے ممکن نہیں تھا۔ ایک اور بڑا جواب جو میری دانست میں اصل وجہ تھی‘ عمران خان کا سیاسی انتقام پر تلے ہونا تھا۔ عمران خان نے ہر جماعت کے سرکردہ افراد کو اپنے سیاسی انتقام کا ہدف بنالیا۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی بڑے اہداف تھے۔ مقدموں‘ پکڑ دھکڑ‘ احتساب کا سلسلہ جو عمران حکومت کے آغاز ہی کے ساتھ شروع ہوا تھا‘ کہیں تھمتا نظر نہیں آرہا تھا۔ ان سب پر لیبل احتساب ہی کا تھا۔ میاں نواز شریف تو پلیٹ لیٹس کی آڑ میں لندن پہنچ گئے لیکن باقی لوگوں کو تو یہیں رہنا تھا۔ سو انہوں نے ان سب کا سامنا کیا۔ یہاں تک کہ رانا ثنا اللہ کو منشیات کیس میں دھر لیا گیا۔ مخالفین کو زیادہ سے زیادہ رگیدنے کی خواہش کی حد یہاں تک پہنچی کہ وزیر برائے انسدادِ منشیات نے ٹی وی پر بیٹھ کر اس کی تفصیلات مشتہر کیں۔ یہ کیس شروع ہی میں مشکوک تھا اور ایک عام آدمی کو بھی اس پر یقین نہیں آسکتا تھا۔ شہباز شریف کے قریبی افسران کو جس طرح جیلوں میں اور تفتیش کے عذابوں سے گزارا گیا‘ اس کی تکلیف بھی ہر اس آدمی نے محسوس کی جو انصاف پر یقین رکھتا ہے‘ انتقام پر نہیں۔ دوسری طرف ان مقدمات اور تفتیش کا کوئی نتیجہ برآمد ہوتا دکھائی نہیں دیا۔ روز بروز یہ تفتیش‘ معاملات اور مقدمات سامنے آتے گئے اور ان سے اعتماد اٹھتا چلا گیا۔ کوئی نتیجہ کیوں نہیں نکلا؟ اس کا جواب عمران خان اب یہ دیتے ہیں کہ نیب میرے ماتحت نہیں تھا بلکہ کسی اور کے پاس اس کا کنٹرول تھا۔
ایسی صورتحال میں یہ نظر آتا تھا کہ عمران خان کو مزید وقت ملا تو وہ مخالفین کو مزید ٹف ٹائم دیں گے۔ بالآخر جب پی ڈی ایم کو‘ جس کی جماعتیں خود ایک دوسرے سے لڑ رہی تھیں‘ اپنے مشترکہ مخالف نے ایک کردیا تھا‘ عمران خان سے نجات کا موقع ملا تو ان کے سامنے بڑا سوال یہی تھا کہ اپنے آپ کو بچایا جائے یا سیاسی نقصان کو دیکھا جائے؟ پی ڈی ایم نے خود کو بچانے کا فیصلہ کیا اور ان کے حکومت میں آتے ہی وہ سب مقدمات سلسلہ وارختم ہونے لگے جن کے شکنجے میں ان کی جانیں جکڑی ہوئی تھیں۔ پی ڈی ایم کا خیال تھا کہ خود کو محفوظ کرکے‘ عمران خان کی غیر مقبولیت کا فائدہ اٹھا کر‘ ملکی حالات تھورے بہتر کرکے‘ اگلے انتخابات کو زیادہ سے زیادہ ملتوی کرکے وہ مشترکہ حکمت عملی سے انتخابات جیتنے کی پوزیشن میں ہوگی۔ ان کے خیال میں جو دھوبی پٹخا انہوں نے مارا تھا‘ اس کے بعد پی ٹی آئی کھڑے ہونے کی پوزیشن میں نہیں رہے گی۔ وہ اس میں اپنی جیت دیکھ رہے تھے۔
اور وہی کیا‘ اکثر لوگ اس فیصلے کو انہی کی جیت مان رہے تھے۔ خان صاحب غیرمقبول ہونے‘ ناقص کارکردگی دکھانے اور مخالفین پر الزامات کی بوچھاڑ کر دینے کے بعد بظاہر آئندہ سیاسی مستقبل ختم کر بیٹھے تھے۔ لگتا تھا کہ اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے اور اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد ان کے حامی اراکین اور الیکٹ ایبل بھی ان کا ساتھ چھوڑنا شروع کردیں گے۔ لگتا تھا کہ خان صاحب ہار چکے ہیں لیکن حیرت اور بہت بڑی حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسا ہوا نہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پی ڈی ایم انتخابات سے مسلسل فرار کی راہ پر ہے۔ ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی نے انہیں پچھاڑا ہے۔ سپریم کورٹ نے پنجاب اور کے پی میں نوے دن کے اندر انتخابات کرانے کا حکم دیا ہے اور الیکشن کمیشن نے اس پر عملدرآمد کا فیصلہ کیا ہے۔ انتخابات بنیادی طور پر دو یا کئی فریقوں کے درمیان ہار جیت کے نتیجے کا نام ہے لیکن اس وقت تو یوں لگ رہا ہے کہ یہ انتخابات نہیں نتائج کا اعلان ہے‘ جن میں پی ٹی آئی جیت چکی ہے۔ مسلسل بدلتے حالات اور داؤ پیچ میں عمران خان کی اِس وقت تک جیت نظر آرہی ہے۔ اس کی وجہ پی ٹی آئی کی سیاسی شہادت کا رتبہ بھی ہے‘ کمر توڑ مہنگائی بھی اور خوفناک معاشی حالات بھی۔ پی ڈی ایم کو انتخابات کی طرف چار و ناچار جانا ہی پڑے گا۔ وہ جتنی دیر لیت و لعل میں گزاریں گے‘ اپنا مزید سیاسی نقصان کرتے جائیں گے۔ بہتر ہوگا کہ وہ مل کر ایک مضبوط سیاسی بیانیہ تشکیل دیں اور الیکشن کے اکھاڑے کا رخ کریں۔ کُشتی سے پہلے ہی ہارے ہوئے پہلوان کی طرح نہیں‘ ایک برابر کے جوڑ کی طرح۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved