تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     05-03-2023

سیاسی جبریت اور توہینِ عوام

حالات کچھ اس طرح کے ہیں کہ روٹی کا ایک ٹکڑا کھانا بھی عیاشی کے زمرے میں آتا ہے۔ پٹرول؟ وہ تو خیر بجٹ کی حدود ہی سے باہر ہے۔ یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی کسی ڈرائونی فلم سے کم نہیں۔ گرانی تاریخ کے اُونچے ترین درجے پر ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے، لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں، چوریاں‘ ڈکیتیاں بڑھ رہی ہیں۔ اس دوران حکومت وضاحتوں میں لگی ہوئی ہے کہ خزانہ خالی ہے، زرِمبادلہ کے ذخائر انتہائی نچلی سطح پر ہیں اور آئی ایم ایف کی طرف سے کوئی رقم نہیں مل رہی۔ عملی طور پر تو دیوالیہ ہو چکے، لیکن دوسری طرف حکومت کابینہ میں مزید وزرا، مشیروں اور معاونینِ خصوصی کا اضافہ کیے چلی جا رہی ہے۔اس وقت کابینہ کی تعداد پچاسی ہے۔ اصرار ہے کہ تنخواہیں نہیں لے رہے ہیں، لیکن تنخواہیں تو برائے نام ہوتی ہیں۔ آپ ذرا اُنہیں ملنے والے دفاتر، عملے، گاڑیوں، بیرونی دوروں، پی ایس ایل میچوں کی مفت ٹکٹوں، سہولتوں اور دیگر چیزوں کا جائزہ لیں۔ یہ کابینہ کی تعداد میں محض عددی اضافہ نہیں‘ یہ وہ ذہنیت ہے جو دوسروں کے بارے میں حقارت آمیز سوچ رکھتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کسی کو اُن کی چالبازیوں کی خبر نہیں۔ یہ وہ سوچ ہے جس کے قول و فعل میں قطعی تضاد پایا جاتا ہے۔ نہ صرف اس بے حسی کا کھلے عام مظاہرہ کرتے ہیں، اُنہیں یہ بھی یقین ہے کہ لوگ اُن کے سیاسی جبر کے خلاف کوئی ردِعمل نہیں دیں گے۔
حکومتیں آسانی سے تبدیل ہو جاتی ہیں، قوانین میں بھی ترمیم کی جا سکتی ہے، پروگرام ختم اور تبدیل کیے جا سکتے ہیں، پالیسیوں کو قلم زد کیا جا سکتا ہے، لیکن سب سے مشکل چیز اس ذہنیت کو بدلنا ہے۔ برس ہا برس تک انہی حرکتوں کے ارتکاب کی وجہ سے یہ ذہنیت راسخ ہو چکی ہے۔ بدعنوانی کے خاتمے کا نعرہ بھی مگر زبان پر رہے گا۔ مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کی بدعنوانی کی قسمیں کھائے گی، جبکہ پیپلز پارٹی حقائق و شواہد سے بتائے گی کہ بی بی کی حکومت کو گرانے کے لیے اسامہ بن لادن نے کتنی مرتبہ مسلم لیگی قیادت کو رقم دی۔ مرکز میں تو وہ باریاں لیتے رہے، لیکن پنجاب اور سندھ عشروں سے ان کے کنٹرول میں ہیں۔ گھوم پھر کر دو بارہ اقتدار سنبھالنے والی حکومت غریب عوام کی اُس وقت بات کرے گی جب اُ ن سے ووٹ لینا ہو۔ جیسے ہی انتخابی عمل تمام ہوتا ہے، حکمران جماعت کی ضیافت شروع ہو جاتی ہے۔ اب عوام کی کسے پروا؟ وعدوں کے پروں پر اُڑان بھر کر اقتدار کی مسند پر فائز ہونے، اور پھر اُن سے مکر جانے اور اس دوران مخالفین کی کردار کشی کرنے والی ذہنیت نے اب تک خوب گل کھلائے ہیں۔ عوام کی کم علمی، بہتر مواقع کے فقدان اور کسی ردِعمل کی غیر موجودگی نے خود سر قیادت کی رعونت میں مزید اضافہ کیا ہے۔ دنیا اس طرزِ حکمرانی کو آمریت کے مترداف سمجھ کر مسترد کر چکی لیکن ہمارے ہاں سیاست اور بوسیدہ نظام میں اسی کا سکہ چلتا ہے۔ لیکن پاکستان میں پہلی مرتبہ اس ماڈل کو چیلنج کیا جا رہا ہے کیونکہ یہ جبریت اور توہین آمیز سیاست اب عوام کی برداشت سے باہر ہو چکی ہے۔
1۔ قانون کی توہین: سیاسی جبریت اور مافیاز کے تسلط والے معاشروں میں قوانین زبانی جمع خرچ اور محض دکھاوے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ ملک چلانے والوں کے ذہنوں میں اسی حقارت کی حکمرانی ہوتی ہے۔ قوانین طاقت کے تابع ہوتے ہیں اور طاقتور عہدے اور حیثیت رکھنے والوں کے لیے لچک دار بن جاتے ہیں۔ قوانین اور ان کی تشریحات اس بات پر منحصر ہوتی ہیں کہ سامنے کون ہے۔ اشرافیہ اور طاقتور قانون سے بالاتر گردانے جاتے ہیں۔ لاچار‘ بے اختیار لوگوں کو پھنسانے کے لیے قوانین بنائے جاتے ہیں۔ قانون کا یہ توہین آمیز سلوک بنیادی طور پر ان لوگوں کی تذلیل ہوتی ہے جو مافیاز اور طاقت کے مراکز کے تابع ہیں۔ یہ توہین آمیز رویہ دولت، طاقت یا اونچے روابط کے بل بوتے پر ہوتا ہے۔ ان پر ہاتھ ڈالنے کی کسی بھی کوشش کو طنزیہ انداز میں جھٹک دیا جاتا ہے۔ ان کے بازو لمبے اور جیبیں گہری ہوتی ہیں۔ وہ ڈیل بروکرز، ہارس ٹریڈرز اور لانڈرر ہوتے ہیں۔ اپنے ملک کی مثال لے لیں جہاں نیب قوانین میں تبدیلی کی وجہ سے جس آسانی سے تمام کیسز کو بند کر دیا گیا وہ اپنی مثال آپ ہے کہ کس طرح ایک مخصوص طبقے کے تحفظ کے مطابق قوانین بنائے جاتے اور ان میں من پسند ترامیم کی جاتی ہیں۔ موجودہ نگراں سیٹ اَپ میں ہر محکمے میں جو تقرریاں کی جا رہی ہیں‘ وہ انتخابی ضابطے کی مکمل توہین ہے جو نگران حکومت کے اختیارات کو محدود تر کر کے تقرریوں میں ہر قسم کی تبدیلی پر پابندی لگاتا ہے۔ گویا نگران سیٹ اَپ کی جانب سے آئینی ذمہ داریوں سے کھلے عام انحراف کیا جا رہا ہے۔ آئین و قانون کی یہ توہین وقت کے ساتھ ساتھ بڑھی ہے۔ یہ بے توقیری قابلِ سزا ہے لیکن صرف ان لوگوں کے لیے جن کو سزا دی جا سکتی ہے۔ بڑے لوگوں کو ان کے پیسے، اقتدار کی نشستوں یا روابط و تعلقات کی وجہ سے استثنا حاصل ہوتا ہے۔
2۔ اداروں کی توہین: سیاسی جبریت زدہ معاشروں میں ادارے کمزور ہوتے اور طے شدہ سکرپٹ پر عمل کرتے ہیں۔ سکرپٹ رائٹر وہ ہوتے ہیں جو اداروں کو اپنی قیادت میں ترتیب دیتے ہیں۔ بیک جنبش قلم فرمانبردار افراد کو اداروں کا سربراہ مقرر کیا جاتا ہے۔ ان سربراہوں کو پھر کوئی اور کنٹرول کرتا ہے اور وہی اصل حاکم ہوتا ہے۔ جب وہ اقتدار کی اس کرسی پر بیٹھتا ہے تو اس کی انگلی کا اشارہ کام کرتا ہے۔ ایسے معاشروں میں کوئی طاقتور وزیراعظم سے اجازت لیے بغیر جنگ کا حکم دے سکتا ہے (جیسے کارگل)۔ مرضی ہو تو حکومت میں تبدیلی کا حکم بھی جاری ہو سکتا ہے۔ تصور کریں کہ ان افراد کی رعونت کا کیا عالم ہو گا جو جنگ چھیڑ سکتے اور حکومتوں کو ہٹا سکتے ہیں۔ وہ مختلف اداروں میں اپنی پسند کے سربراہوں کا تقرر کرکے ان کو اپنا آلہ کار بناتے ہیں۔ ایک ریٹائرڈ شخصیت نے ایک کالم نگار کو دیے گئے انٹرویو میں خود اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ حکومت میں تبدیلی اس لیے لائی گئی کیونکہ ان کی دانست میں اکثریتی پارٹی ملک کے لیے خطرناک تھی۔ موصوف نے بعض سیاسی تقرریوں پر بھی برہمی کا اظہار کیا۔ خود کو طاقت کا اصل مرکز سمجھنے والے آئین اور قانون کے مطابق ہر آزاد سوچ کو مسترد کر دیتے ہیں۔
3۔ اقدار کی توہین: تقاریر کی حد تک اقدار کی پاسداری کی باتیں کی جاتی ہیں جو کانوں کو بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں۔ دکھاوے کے حوالے دینے کے لیے بھی ان کا جواب نہیں۔ لیکن عملی بات نہ کریں‘ یہ محض علمی خانہ پری کے لیے ہیں۔ اس طرح کی حکومتیں سب سے اہم عنصر کے ساتھ یہ سلوک کرتی ہیں جو کسی قوم کی کردار سازی کے لیے انتہائی اہم ہوتا ہے۔ بدعنوان ہونا بری بات ہے لیکن پاکستان جیسے معاشرے میں آپ اس کلچر کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ معاف کیجیے‘ یہ سوچ عقیدے کا درجہ رکھتی ہے۔ اس تصور کے ساتھ کام کرانے، نوکریاں حاصل کرنے، ٹھیکے حاصل کرنے، الیکشن جیتنے، قوانین کی خلاف ورزی کے لیے ہر طرح کے شارٹ کٹ بنائے جاتے ہیں۔ سب اس بات پر متفق ہیں کہ دیانتداری اور دیانت بہترین اقدار ہیں لیکن ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کی عملی نوبت نہ آئے۔ ہمارے ملک کے آئین کے آرٹیکل 63 (ذیلی شق اے سے لے کر ایف تک) کا احترام! لیکن اس آرٹیکل کو عملی طور پر سیاستدان کی اہلیت کا اندازہ لگانے کے لیے غیر موزوں سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح احتساب ایک بہت بڑی قدر ہے لیکن جب بات طاقتور کے احتساب کی آتی ہے تو ان تلوں میں تیل باقی نہیں رہتا۔ وہ جانتے ہیں کہ دولت و طاقت ہر سیاہ نامہ صاف کر سکتی ہے۔ تو پھر ڈر کس بات کا؟ یہ ذہنیت ان لوگوں کی توہین کرتی ہے جو اقدار کے مطابق زندگی گزارنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ جب اپنی نظروں سے دیکھتے ہیں کہ قانون و اصول اور اقدار کی خلاف ورزی کرنے والوں کو شہرت ملتی ہے، ہار پہنائے جاتے ہیں اور ان کی تعریف کی جاتی ہے‘ تو ان کے سینوں میں نظام کے خلاف نفرت مزید بڑھتی ہے۔
4۔ عوام کی توہین: عوام کو غریب اور جاہل رکھو۔ ان کی جدوجہد محض زندہ رہنے کے لیے ہی ہو اور وہ انسانی وقار سے محروم رہیں۔ ان کی سوچنے، چننے، جانچنے، تخلیق کرنے اور ترقی کرنے کی صلاحیت کو کچل دیا جاتا ہے۔ وہ صرف خودکار ایکشن سے گزرتے ہوئے کوتاہ بیں بونے بن جاتے ہیں۔ ان طاقتوروں کی طرف سے یہ سب سے بڑی عوام کی توہین ہے۔ وہ عوام کو احمق قرار دیتے ہیں۔ عوام ان کے نزدیک ایسی چیزیں ہیں جنہیں استعمال کے بعد پھینک دیا جاتا ہے۔ ہاں! اُنہیں زندہ رہنے کے لیے بے چین رکھتے ہیں اور پھر انہیں بہتر مستقبل کی امیدیں کھلاتے ہیں۔ عوام ان کے لیے ''شناختی کارڈ‘‘ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ لیکن انتخابات والے دن ووٹ ملتے ہی وہ ان کے لیے بے کار ہو جاتے ہیں۔ شناختی کارڈ پیسوں یا فوائد کے عوض بیچے جاتے ہیں اور پھر حقارت کے ساتھ واپس پھینک دیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دہائیوں تک حکومتیں اور ادارے صرف ناقص کارکردگی اور خوفناک طرزِ حکمرانی کی مثال بنتے گئے ہیں۔ یہ پہلی بار ہے کہ اب یہ ''شناختی کارڈ‘‘ ان کے سامنے اپنا دائو کھیل رہے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ گولی مار کر بھی ان شناختی کارڈوں کو خاموش نہیں کیا جا سکتا (ارشد شریف)۔ یہ پہلی بار ہے کہ یہ شناختی کارڈ اپنے اپنے کارڈ کھیل رہے ہیں۔ اس نے بڑے بڑوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اس سے پاور ہاؤسز مشتعل ہو گئے ہیں۔ وہ سب امید کر رہے ہیں کہ یہ عارضی ہے اور جلد ہی یہ غبار بیٹھ جائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوگا!
احتسابی اداروں یا قانون سے کہیں زیادہ اب نوجوان بچوں نے ان کی زندگی کو برہم کر رکھا ہے۔ سوال پوچھنے والے یہ نوجوان اب صرف پریشان کن نہیں بلکہ سوہان روح بن چکے ہیں۔ ملک میں اقتدار میں آنے، اقتدار اور پیسے کے مزے لوٹنے اور پھر مشکل پڑنے پر بیرونِ ملک محفوظ پناہ گاہوں کی طرف بھاگ کھڑے ہونے کا آزمودہ فارمولا اب شاید مستعمل نہیں رہا۔ نیویارک، لندن، اٹلی وغیرہ سب ایسی جگہیں ہیں جہاں اب توہین آمیز سلوک کیا جا رہا ہے۔ کچھ شخصیات کو دبئی کی سڑک پہ بھی دیکھا گیا، چاہے کہیں بھی ہوں، اب وہ ہر جگہ چوکنے رہیں گے۔ حقارت‘ حقارت کو جنم دیتی ہے۔ جب ملک میں آوازیں دبائیں گے تو باہر کی آوازیں بلند ہوں گی۔ جب آپ حقارت سے رہنمائی کرتے ہیں توعوام کے پاس بھی آپ کے لیے حقارت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved