پی ڈی ایم حکومت کی طرف سے 15فروری 2023ء کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں جو منی بجٹ پیش کیا گیا‘ وہ 23فروری سے لاگو ہو گیا ہے کیونکہ صدر پاکستان نے‘ قومی اسمبلی سے منظوری ملنے کے بعد اس پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس بجٹ میں عوام پر 170ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کیے گئے جبکہ اس منی بجٹ کے بعد وفاقی حکومت کی طرف سے بجلی‘ گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اس کے علاوہ ہے۔ درآمدات کے لیے لیٹرز آف کریڈٹ روک دیے گئے ہیں۔ دو مارچ کو سٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود 20فیصد کرنے کا اعلان کردیا ہے؛ چنانچہ نئے بزنس اور صنعتی سرمایہ کاری کی لاگت میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔
وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں پی ڈی ایم حکومت کی طرف سے اتنا سخت بجٹ اس لیے متعارف کرایا گیا تاکہ آئی ایم ایف مطمئن ہو کر 1.1ارب ڈالرز قرض کی قسط جاری کر دے۔ آئی ایم ایف پاکستان سے مزید مؤثر اقدامات کرنے کا بھی مطالبہ کررہا ہے تاکہ بجٹ خسارے‘ جاری اکائونٹ خسارے اور تجارتی عدم توازن کوکنٹرول کیا جا سکے۔ مزید یہ کہ داخلی سطح پر ریونیو میں اضافہ کرنے کے لیے بھی سرتوڑ کوششیں کی جائیں۔ اس کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ بہت سی سبسڈیز ختم کی جائیں‘ پٹرولیم مصنوعات‘ گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھائی جائیں۔ حکومت پاکستان آئی ایم ایف کی ہدایات پر بتدریج عمل کررہی ہے؛ چنانچہ عام آدمی کے روزمرہ معاشی مسائل میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے جس کے نتیجے میں پی ڈی ایم حکومت عوام کی نظر بری طرح ناکام ہو چکی ہے اور مسلم لیگ (ن) کو شدید عوامی تنقید کا سامنا ہے۔ اکنامک ری سٹرکچرنگ کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ قرضے کے اصل معاہدے پر جولائی 2019ء میں دستخط کیے گئے تھے مگر اس معاہدے کی شرائط پر پوری طرح عمل نہیں کیا گیا تھا۔ اب پی ڈی ایم کی حکومت اکتوبر 2022ء سے اس قرضے کی قسط لینے کی سرتوڑ کوشش کررہی ہے۔ آئی ایم ایف نے سخت رویہ اپنایا ہوا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ معاہدے میں توسیع کرتے وقت آئی ایم ایف کے ساتھ وفاقی حکومت کی طرف سے کیے گئے تمام وعدوں کی تکمیل کو یقینی بنایا جا سکے۔
وفاقی حکومت کو توقع ہے کہ اس مہینے کے دوران آئی ایم ایف کیساتھ مذاکرات مکمل ہو جائیں گے جس کے بعد پاکستان کو قرض کی قسط مل جائے گی۔ وفاقی حکومت کو یہ بھی امید ہے کہ جب اس کا آئی ایم ایف کیساتھ معاہدہ پایۂ تکمیل کو پہنچ جائے گا تو اس کے نتیجے میں اسے کچھ بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے نئے قرض اور دوست عرب ممالک اور چین سے مزید فنڈنگ بھی مل جائے گی اور جون تک وہ اپنے بعض عالمی قرض واپس کرنے کے قابل ہو جائے گی۔ پاکستان کو رواں سال جون تک گیارہ ارب ڈالرز قرضوں کی ادائیگی کرنا ہے۔ وہ اپنے داخلی ذرائع سے اتنی بھاری رقم کا بندوبست کرنے سے قاصر ہے؛ چنانچہ اب وہ اپنے واجب الادا قرضوں کی واپسی کیلئے عالمی مالیاتی اداروں سے مزید قرض اور سپورٹ کا محتاج ہے۔
اگر پاکستان کا یہ مسئلہ حل ہو بھی جائے تو یکم جولائی سے شروع ہونے والے نئے مالی سال میں اسے پھر سے نئے بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی کا مسئلہ درپیش ہوگا۔ چونکہ پاکستان کو آئندہ برس بھی قرضوں کی مد میں بھاری رقم کی ادائیگی کرنا ہے؛ چنانچہ اسے آئی ایم ایف سے ملنے والے اس قرض سے ایک عارضی ریلیف ہی ملے گا۔ آئندہ برس اسے مزید قرضوں کی بھیک مانگنا پڑے گی۔ ممکن ہے کہ اگلے مالی سال کے خاتمے سے قبل ہی پاکستان آئی ایم ایف سے قرضوں کے ایک کثیر مدتی پیکیج کی درخواست کردے۔پاکستان اس وقت تک قرضوں کے اس مضبوط جال سے نجات نہیں پا سکتا جب تک وہ اپنی جاری معاشی اور تجارتی پالیسیوں میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں نہیں کرتا‘ اپنے مالی وسائل کے اندر رہتے ہوئے زندگی گزارنے کا خوگر نہیں ہو جاتا‘ جب تک اپنے صنعتی ڈھانچے کو مستحکم اور اَپ گریڈ کرنے کیساتھ توانائی کے سستے ذرائع اختیار نہیں کر لیتا۔ اس کے دیگر مسائل میں فارن کرنسی کے غیرمستحکم ریزروز‘ تجارتی خسارہ اور بجٹ کا مجموعی خسارہ شامل ہیں۔ حکومت عوام کو مسلسل طفل تسلیاں دے رہی ہے کہ رفتہ رفتہ ان تمام مسائل پر قابو پا لیا جائے گا مگر حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے پاس کوئی باوثوق منصوبہ بندی موجود نہیں کہ وہ موجودہ معاشی بحران سے گلو خلاصی کیلئے درست سمت میں کوئی قدم اٹھا سکے۔
وزیراعظم نے حال ہی میں ریاستی اخراجات میں جس کٹوتی کا اعلان کیا ہے‘ اس سے شاید ہی پاکستان کے سنگین معاشی بحران کا کوئی حل نکل سکے۔ حکومت کو مالیاتی خسارے کا سبب بننے والی بعض ریاستی انٹرپرائزز سے متعلق انتہائی سخت فیصلے کرنا پڑیں گے جن میں سٹیل مل‘ پی آئی اے اور ریلویز وغیر ہ شامل ہیں۔ ایک اور ایشو ملک میں تجارتی سرگرمیوں‘ صنعت اور خاص طور پر ایکسپورٹ ہونے والی مصنوعات تیار کرنے والی صنعتوں کو فروغ دینا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ غیر ضروری درآمدات کا سلسلہ بھی محدود کرنا ہوگا۔ ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ ریونیو اکٹھا کرنے کے ہدف میں اضافہ کیا جائے۔ اس مقصدکے لیے نئے ٹیکس دہندگان ڈھونڈے جائیں اور ایسے انتہائی متمول لوگوں پر ٹیکسز میں اضافہ کیا جائے جنہوں نے پاکستان اور بیرون ملک دولت کے انبار جمع کررکھے ہیں۔ جن دیگر شعبوں میں فوری اصلاحات کی ضرورت ہے‘ ان میں اعلیٰ حکومتی حلقوں میں پائی جانے والی کرپشن‘ ریاستی عہدوں کا غلط استعمال‘ اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز حکام کے فیملی ممبرز‘ قریبی حواریوں اور دیگر من پسند افراد پر مالی نوازشات اور اربوں روپے کے بڑے حکومتی کنٹریکٹس میں کمیشن جیسی لعنت شامل ہیں۔ ان تمام بدعنوانیوں میں ملوث اکثر لوگ اعلیٰ حکام سے جڑے ہوتے ہیں‘ ان کے ساتھ اعلانیہ یا درپردہ شریک جرم ہوتے ہیں اور ان عناصر سے چھٹکارا پانا اتنا آسان نہیں ہے۔ کئی دیگر مسائل بھی سخت کنٹرول کے متقاضی ہیں جن میں بجلی اور گیس کی چوری کے علاوہ بجلی کے لائن لاسز شامل ہیں۔ کبھی کبھی حکومت سیاسی وجوہات کی بنا پر ان غلط پریکٹسز پر قابو پانے سے قاصر نظر آتی ہے یا اس لیے دانستہ گریز کرتی ہے کیونکہ اسے ان لوگوں یا گروپس سے ہی سیاسی اور مالی سپورٹ درکار ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہمیں ایک ایسی مضبوط اور پرعزم حکومت کی ضرورت ہے جو سخت فیصلے کر سکے اور اس کے اہم کَل پرزے اپنی سرکاری حیثیت سے پیسہ بنانے میں ملوث نہ ہوں۔پاکستان کو درپیش معاشی بحران کا ایک دوسرا پہلو عام آدمی سے متعلق ہے۔ پی ٹی آئی دورِ حکومت (اگست 2018ء سے اپریل 2022ء) میں عوام کو افراطِ زر اور روز افزوں قیمتوں کی وجہ سے شدید معاشی دبائو کا سامنا تھا۔ پی ڈی ایم کی موجودہ حکومت کے دس مہینوں میں اس دبائو میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ خوراک اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اتنا اضافہ ہو چکا ہے کہ مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے لیے جاری مہنگائی کا مقابلہ کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ فروری میں منی بجٹ آنے کے بعد ملک بھر میں قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ بزنس کمیونٹی خاص طور پر دکان دار حضرات کو کھلی چھٹی ہے کہ وہ بلا خوف و خطر اشیائے خورو نوش کی منہ مانگی قیمتیں مانگ رہے ہیں۔ مہنگائی اپنی جگہ‘ عوام کو بار بار ان اشیائے ضروریہ کی شدید قلت کا بھی سامنا رہتا ہے۔
ایسی تشویشناک معاشی صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ اس معاشی بحران سے نکلنے کیلئے حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کیساتھ تعاون کریں مگر اس کے بالکل برعکس وہ اقتدار کی کرسی کیلئے ایک دوسرے سے دست و گریبان نظر آتے ہیں اور سیاسی میدان میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ جب اس طرح کی منفی سیاست ہو رہی ہو تو مستقبل قریب میں معاشی بحالی کے امکانات مزید مفقود ہو جاتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved