تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     06-03-2023

کاغذ پر روٹی

ماں نے سڑک پر چلتے ہوئے یک دم پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس کا چار سالہ بچہ سڑک پر پڑا ایک کاغذ اٹھا کر اسے منہ میں ڈال رہا تھا۔ ماں نے بھاگ کر بچے کو پکڑا اور اسے زور سے ڈانٹتے ہوئے وہ کاغذ بچے کے منہ سے نکال کر دور پھینکتے ہوئے پوچھا: بیٹا کاغذ کیوں کھا رہے ہو؟ بھوک سے کراہتے ہوئے بچے نے رونی صورت بنا کر ماں کو کہا کہ تمہیں تو پتا ہے کہ صبح سے بھوکا ہوں‘ اس کاغذ پر روٹی بنی ہوئی تھی‘ اس لیے اسے کھا رہا تھا۔
لاہور سے کراچی جانے والی ٹرین قصور کے علاقے کھڈیاں خاص سے گزر رہی تھی۔ ٹرین ڈرائیور کی توجہ اپنے فرائض کی انجام دہی کیلئے مسلسل ریل کی پٹڑی کی جانب تھی۔ جیسے ہی کھڈیاں کو کراس کرتے ہوئے ٹرین کچھ آگے بڑھی تو ڈرائیور کو دور‘ ریل کی پٹڑی پر غیر معمولی نقل و حرکت نظر آئی۔ اس کی نظریں پٹڑی پر جم کر رہ گئیں اور وہ غور سے دیکھنے لگا۔ سامنے کا منظر دیکھ کر اس کو ایک جھٹکا سا لگا کیونکہ آگے پٹڑی پر ایک شخص لیٹا ہوا تھا۔ اس نے جلدی سے ہارن بجانا شروع کر دیا لیکن وہ شخص اپنی جگہ سے جب بالکل بھی نہ ہلا تو ٹرین ڈرائیور نے انتہائی مہارت اور مستعدی سے ایمرجنسی بریک لگا دی۔ کچھ آگے جا کر ٹرین رک گئی اور ڈرائیور پٹڑی پر خودکشی کی غرض سے لیٹے ہوئے شخص کی جان بچانے میں کامیاب ہو گیا۔ جیسے ہی چیختی ہوئی آواز کے ساتھ ٹرین رکی تو اس کی آواز سن کر اردگرد کے کھیتوں میں کام کرنے والے لوگ ٹرین کے پاس پہنچ گئے۔ ٹرین سے بھی کچھ لوگ اترے اور اس شخص کو پکڑنے کے لیے آگے بڑھے۔ عملے نے جلد ہی اس شخص کو قابو کر لیا مگر اسے دیکھ کر حیران رہ گئے۔ فالج کی وجہ سے اس شخص کے دونوں بازو معذور ہو چکے تھے۔ اس سے سوالات وغیرہ پوچھے تو علم ہوا کہ اس کا نام غلام رسول‘ عمر پچاس کے لگ بھگ ہے اور وہ قریب ہی کی ایک بستی کا رہائشی ہے۔
جب مزید تفتیش کی گئی تو پتا چلا کہ اس کے گھر میں ایک بیوی‘ تین بیٹیاں اور ایک بیٹا رہتے ہیں۔ وہ دس ہزار روپے ماہانہ پر ایک کرایے کے مکان میں رہتا ہے۔ غلام رسول چند سال قبل تک سبزی منڈی میں ایک آڑھتی کے پاس بطور منشی کام کرتا تھا لیکن پھر ایک دن اس پر فالج کا حملہ ہوا اور اس کے دونوں بازو ناکارہ ہو کر رہ گئے۔ اپنی حیثیت کے مطا بق وہ جیسے تیسے اپنا علاج کراتا رہا لیکن اس کے ہاتھ کام کرنے سے معذور رہے۔ دو برس بعد اس کی آنکھوں کی بینائی بھی کم ہوتی چلی گئی۔ بیروزگاری اور بے رحم مہنگائی سے غلام رسول کے گھر میں دو روز سے فاقہ چل رہا تھا۔ کسی سے چند ہزار روپے ادھار لے رکھے تھے جو روزانہ اس سے مانگنے کے لیے اس کے گھر آ جاتا تھا۔ غلام رسول کے بچے ادھار مانگنے والے کی دھمکیوں اور زور زور سے بولنے پر دبک کر رہ جاتے۔ گزشتہ روز اس شخص نے جاتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ اگر پیسے کل تک واپس نہ کیے تو وہ گھر کی ہر چیز اٹھا کر لے جائے گا۔
وہ بستی جہاں غلام رسول رہتا ہے‘ ایک بہت بڑی تجارتی منڈی ہے۔ ارد گرد کے سینکڑوں دیہات کی خریداری کے لیے ایک بڑی مارکیٹ کے طور پر جانی جاتی ہے۔ اس وقت بھی نجانے کتنے ہی کروڑ پتی بلکہ ارب پتی لوگ وہاں رہ رہے ہیں۔ اس بستی کے تقریباً ہر دسویں گھر میں ایک گاڑی کھڑی نظر آتی ہے۔ وہ محلہ‘ جہاں غلام رسول رہ رہا ہے‘ وہاں متمول‘ خوشحال اور آسودہ حال لوگوں کی کمی نہیں۔ کیا ان میں سے آتے جاتے کسی کی بھی نظر فالج سے دونوں ہاتھوں سے معذور ہو جانے والے غلام رسول کی جانب نہیں پڑی تھی؟ کیا پانچ لاکھ سے زائد کی آبادی والے اس قصبے میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ پچاس سالہ معذور غلام رسول‘ جسے اب دکھائی بھی بہت کم دیتا ہے‘ اپنی تین بیٹیوں‘ بیوی اور ایک بچے کے ساتھ رہ رہا ہے‘ جس کا کوئی ذریعۂ معاش نہیں‘ جو بھیک مانگنے سے کتراتا ہے۔ کیا اس بستی کے کسی ایک شخص کو بھی غلام رسول کی حالت زار اور دلدل جیسی غربت اور بے چارگی کا علم نہیں تھا؟
چند روز قبل ہی فیصل آباد کا چالیس سالہ نعیم خان غربت‘ بیروزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہو کر پھندے سے جھول گیا۔ وہ فیصل آباد‘ جسے ٹیکسٹائل انڈسٹری کا گڑھ اور ایک بڑا برآمدی ضلع سمجھا جاتا ہے‘ وہاں ایک شخص کی خودکشی کیا محض ایک فرد کی خودکشی ہے؟ اگرچہ اس وقت ٹیکسٹائل انڈسٹری کے حالات زیادہ اچھے نہیں ہے اور دھڑا دھڑ یونٹس بند ہو رہے ہیں مگر فیصل آباد میں ایلیٹ کلاس کا تناسب شایدلاہور اور کراچی سے بھی زیادہ ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم سب اپنے حالات میں اس قدر مگن ہو گئے ہیں کہ اب ہمیں مستحق چہروں کی پہچان بھی نہیں رہی۔ اس وقت یقینا مہنگائی ہے اور تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے مگر حالات اتنے بھی خراب نہیں جتنے بتائے جا رہے ہیں۔ کیا مارکیٹوں اور بازاروں میں رش کم ہو گیا ہے‘ کیا ہوٹلوں، کیفوں اور ریسٹورنٹس میں ویرانی چھائی ہوئی ہے؟ کیا لوگ اپنی ضرورت کی اشیا بیچنے پر مجبور ہو گئے ہیں؟ نہیں‘ ہرگزنہیں! ابھی جیسے ہی الیکشن مہم شروع ہو گی تو امیدواران کی جانب سے بڑے بڑے ڈیرے کھلنا شروع ہو جائیں گے‘ جہاں اپنے حواریوں اور ووٹروں کے لیے چکن، مٹن اور بیف کی ڈشوں کے ڈھیر لگا دیے جائیں گے۔ اپنے حق میں نعرے لگانے والوں کو کبابوں کے تھال بھر بھر کر کھلائے جائیں گے لیکن غلام رسول، نعیم خان اور ان جیسے سینکڑوں غریب اور بدحال گھروں کا نہ کبھی ووٹ لینے کی مہم سے پہلے کوئی خیال آیا اور نہ ہی بعد میں آئے گا۔
آرٹیکل لکھتے ہوئے جب موبائل پر انگلیاں گھمائیں تو ایک افسوسناک خبر سامنے آ گئی۔ اس خبر کے مطابق معاشی ابتری، کم تر آمدنی، مہنگائی اور فاقہ کشی نے ایک ماں کو کمسن بچے سمیت جان دینے پر مجبور کر دیا۔ روبینہ دو بچوں کو روتا‘ بلکتا چھوڑ کر تیسرے شیر خوار کو اپنے ساتھ لے کر خدا کے دربار میں فریاد کے لیے پہنچ گئی۔ خاتون کے خاوند کے مطابق وہ ایک جوس کارنر پر ملازم ہے‘ کاروبار میں مندے کی وجہ سے اس کی آمدنی بہت کم ہے، کرائے کا مکان اور بیوی سمیت تین بچوں کا خرچ پورا نہیں ہو پاتا کیونکہ مہنگائی بہت ہو گئی ہے۔اس وجہ سے بسا اوقات گھر میں کھانا تک نہیں پکتا۔ اس پر ستم مکان کا کرایہ اور بچوں کا دودھ۔ گزشتہ روز مالک مکان نے عدم ادائیگی کے باعث سخت بے عزتی کی تھی جس پر روبینہ گھر سے شیر خوار کو ساتھ لے کر اپنی بہن سے قرض لینے نکلی لیکن راستے میں ایک گاڑی کے سامنے کود کر بچے سمیت جان دے دی۔ ایک اطلاع یہ ہے کہ بچے کے لیے دودھ نہیں تھا‘ وہ رو رہا تھا، یہ منظر دیکھ کر ماں برداشت نہ کر سکی۔ حقائق اس سے مختلف بھی ہو سکتے ہیں لیکن شواہد یہی ہیں کہ یہ بھوک ہی تھی جس نے روبینہ، نعیم خان اور غلام رسول کو جان دینے پر مجبور کیا۔ یہ حالات بہت دردناک ہیں۔ پہلے بھی غربت، بے روزگاری اور فاقہ کشی کے باعث خودکشی کے واقعات پیش آتے رہے ہیں مگر اب جتنے تواتر سے یہ واقعات پڑھنے اور سننے کو مل رہے ہیں‘ ماضی میں حالات ایسے ہرگز نہ تھے۔ ہمارے حکمرانوں، اشرافیہ، اس ملک کے منتظمین، اس کو چلانے والے یہاں تک کہ متمول طبقے کو بھی احساسِ ذمہ داری کرنا ہو گا۔
کسی نے وٹس ایپ پر دو تصاویر بھیجی ہیں۔ ویسے تو یہ دو الگ الگ مناظر ہیں مگر ان میں ایک ایسا ربط ہے جو معاشرے کی تفریق کو ظاہر کرتا ہے۔ دونوں تصاویر ایک ہی شہر کی ہیں۔ ایک تصویر لاہور میں کھلنے والی ایک مہنگی کافی شاپ کے باہر لگی لائن کی ہے۔ اس کافی شاپ کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہاں سے خریداری ایک عام آدمی کی پہنچ سے بھی باہر ہے۔ دوسری تصویر مایوس چہروں کے ساتھ آٹا، گھی اور دیگر سودا سلف لینے کے لیے یوٹیلیٹی سٹورز کے باہر کھڑے لوگوں کی لائن کی ہے۔ یہ قطاریں سستے آٹے کے ٹرکوں کے سامنے بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ صرف دو تصاویر نہیں ہیں۔ ایسی کئی تصاویر‘ کئی خبریں ہماری نظروں کے سامنے آتی رہتی ہیں۔ مثلاً ایک خبر ہے کہ گزشتہ چھ ماہ میں دو بلین ڈالر کی لگژری گاڑیاں درآمد کی گئیں‘‘۔ دوسری خبر ہے کہ ''بے ہوشی کی دوا، سرجری کے آلات اور ایکس ریز فلمیں ختم ہونے سے ہسپتالوں میں ضروری آپریشن بھی ملتوی ہونے لگے‘‘۔ ورلڈ بینک کہتا ہے کہ ہر وہ شخص جو ہر روز دس ڈالرز تک کماتا ہے‘یا جس کی ماہانہ آمدن تین سو ڈالر تک ہے‘ وہ مڈل کلاس میں شمار ہوتا ہے۔ 280 کے ریٹ سے دیکھا جائے تو یہ 84ہزار پاکستانی روپے بنتے ہیں۔ آج پاکستان میں عملاً مڈل کلاس ختم ہو چکی ہے۔ اب صرف دو ہی طبقات رہ گئے ہیں؛ ایک وہ جنہیں سب کچھ میسر ہیں‘ جنہیں پٹرول اور ڈالر کی قیمت 300 روپے کیا‘ ہزار روپے ہو جانے پر بھی فرق نہیں پڑتا اور دوسری جانب وہ ہیں جن کی زندگی کی شمع ہی ایسے فیصلوں سے گل ہو جاتی ہے۔
غلام رسول‘ نعیم خان اور روبینہ کی کم علمی کہہ لیں یا مایوسی کی انتہا‘ وہ یہ بات بھول گئے کہ جب انسان سمجھتا ہے کہ اس کیلئے سب دروازے بند ہو گئے ہیں تو اللہ نے اپنے بندے کیلئے اپنی رحمت کا ایک نیا دروازہ کھول رکھا ہوتا ہے۔ نعیم خان اور روبینہ تو نہیں رہے، مگر ہمارے اردگرد بہت سے نعیم خان اور روبینہ ہمارے منتظر ہیں، اپنے اس مضمون کے ذریعے میں ''نیا دروازہ‘‘ کھٹکھٹا دیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved