تحریر : زاہد اعوان تاریخ اشاعت     06-03-2023

توانائی بچت: اب کیا رکاوٹ ہے؟

پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے توانائی بحران نے کاروبارِ زندگی کو مفلوج اور عوام کا جینا محال کر رکھا ہے۔ ابھی گرمیوں کا آغاز بھی نہیں ہوا کہ گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ شروع ہو گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے لوڈشیڈنگ کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ اداروں کو پابند کیا جا رہا ہے کہ رمضان المبارک میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نہ کی جائے۔ ایک طرف بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی‘ دوسری جانب اس کے باوجود عوام ضرورت سے زیادہ نمائشی بتیاں جلاتے ہیں۔ دنیا میں متعدد ایسے ممالک ہیں جن کے وسائل ہم سے کہیں کم ہیں لیکن وہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا تصور بھی نہیں ہے۔ سرزمین پاک ہر قسم کے قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے اور اتنے دریا رکھنے کے باوجود توانائی کے سنگین بحران سے دوچار ہے۔ وطن عزیز میں تیل و گیس کے وسیع ذخائر کے باوجود ہم نہ صرف پٹرولیم مصنوعات باہر سے منگوانے پر مجبور ہیں بلکہ گیس بھی ہمیں دوسروں سے خرید کر اپنی ضروریات پوری کرنا پڑتی ہیں۔ قدرتی وسائل سے مالامال ملک میں توانائی بحران روز بروز بڑھتا ہی جا رہاہے اور بظاہراس پر قابو پانا آسان دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے لیے مؤثر حکمت عملی اپنانے اور سورج کی روشنی کا صحیح استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ وفاقی حکومت نے چند ماہ قبل توانائی بچت پالیسی کا اعلان کیا تھا لیکن پنجاب اورخیبر پختونخوا میں اُس وقت پی ٹی آئی کی صوبائی حکومتیں تھیں جنہوں نے اس قومی پالیسی پر اعتراضات اٹھائے تھے۔ حالانکہ اس سے قبل بھی بجلی شارٹ فال کے فوری اور آسان حل کے لیے حکومت نے کئی بار سورج کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے اور رات کو 70 فیصد غیر ضروری لائٹنگ کی بچت کے لیے کاروباری مراکز جلد بند کرنے کے احکامات جاری کیے تھے، کئی بار اس پالیسی پر کامیابی سے عملدرآمد بھی شروع ہوا لیکن پھر اس پالیسی پر عملدرآمد روک دیا گیا، حالانکہ یہ واحد ایسی پالیسی ہے جس سے نہ صرف بجلی کی نمایاں بچت ہو سکتی ہے بلکہ قوم میں نظم و ضبط بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ اس وقت ہماری 80 فیصد مارکیٹیں دوپہر سے پہلے کھلتی ہی نہیں‘ نیز یہ کہ تمام بازار اور شاپنگ مالز کم ازکم نصف شب تک کھلے رہتے ہیں جس سے 70 فیصد تک بجلی کا لوڈ بڑھ جاتا ہے۔ وفاقی حکومت نے بجلی کی بچت کے لیے دسمبر 2022ء میں ملک بھر میں توانائی بچت پروگرام کے تحت شادی ہالز رات 10 اور مارکیٹیں رات 8 بجے بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ کفایت شعاری کیلئے بھی پلان دیا گیا تھا لیکن ابھی تک اس پر عملدرآمد دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس وقت حکومت کا کہنا تھا کہ دنیا میں واحد پاکستان ہی ایسا ملک ہے جس میں رات دیر تک مارکیٹیں کھلی رہتی ہیں، توانائی کی بچت کے قومی پروگرام کے ذریعے سنگین معاشی صورتحال میں ہمیں اپنی عادتوں میں تبدیلی لانا ہو گی۔ توانائی کی بچت اور کفایت شعاری پروگرام میں ملک کی معاشی نجات ہے، اس وقت توانائی کی بچت کے سوا ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں، ہمیں اپنے وسائل کے ضیاع کو روکنا ہو گا۔ حکومت کا کہنا تھا کہ سرکاری اداروں میں 20 فیصد افرادی قوت گھر سے کام کرے تو 56 ارب روپے کی بچت ہو گی۔
کوئی بھی قومی پالیسی اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک عوام کا مکمل تعاون شامل نہ ہو۔ شہریوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ قومی مفاد کی حامل پالیسیوں پر از خود عمل کریں۔ ہمارا دین اسلام بھی ہمیں صبح سویرے کاروبار کیلئے نکلنے اور دن کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کی تلقین کرتا ہے لیکن ہم ان اصولوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور یہ رویہ بے برکتی کا بھی سبب ہے۔ ہمارے ملک میں دوپہر بارہ بجے سے پہلے تو کوئی مارکیٹ کھلتی ہی نہیں‘ یہی وجہ ہے کہ اب شہریوں کی اکثریت بھی دن کے بجائے رات کو خریداری کے لیے بازاروں کا رخ کرتی ہے کیونکہ اس وقت تک وہ دن بھر کے کاموں سے فارغ ہو چکے ہوتے ہیں نیز، رات کو ان کے پاس تسلی سے خریداری کا وقت ہوتا ہے‘ جبکہ رات کو رنگ برنگی روشنیاں اپنے دلکش نظاروں سے گاہکوں کی توجہ کا مرکز بنتی ہیں۔ گزشتہ دنوں حکومت نے سندھ میں دکانیں رات ساڑھے آٹھ بجے اور ریسٹورنٹس رات دس بجے بند کرنے کے احکامات جاری کیے تو تاجروں نے اس فیصلے کو یکسر مسترد کر دیا۔ ریسٹورنٹس ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ حکومت ریسٹورنٹس کو رات 12 بجے تک کام کرنے کی اجازت دے۔ انہوں نے عجیب منطق پیش کی کہ ریسٹورنٹس شام چھ بجے اپنے کام کا آغاز کرتے ہیں‘ لہٰذا حکومت انہیں 10 کے بجائے رات 12 بجے تک کام کرنے دے۔
دنیا کے وہ تمام ممالک‘ جو دنیاوی ترقی کے زینے چڑھتے چلے جا رہے ہیں‘ ان کے حالات کا جائزہ لیں تو ایک چیز ان سب ممالک میں مشترک ملے گی‘ وہ یہ کہ ان ممالک کے افراد دن کی روشنی کا استعمال خوب جانتے ہیں۔ وہ شاید فجر کی نماز کے بارے تو نہیں جانتے لیکن سحری کے وقت اٹھنا ان کا معمول ہے۔ منہ اندھیرے ہی وہ لوگ کام و کاروبار کے لیے گھروں سے نکل پڑتے ہیں اور سورج نکلنے سے پہلے اپنے کام کا آغاز کر دیتے ہیں۔ اسی طرح نوکری پیشہ مرد و خواتین بھی صبح سات‘ آٹھ بجے اپنی ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں۔ صبح تازہ دم ہونے کی وجہ سے نہ صرف ان کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے بلکہ ہشاش بشاش چہرے خوش اخلاقی کا تاثر بھی دیتے ہیں۔ تمام ترقی یافتہ ممالک‘ خواہ وہ جاپان اور کوریا ہوں یا امریکہ و برطانیہ‘ وہاں طلوعِ آفتاب کے ساتھ شروع ہونے والا کاروبارِ سورج کے غروب ہونے سے پہلے ختم ہی ہو جاتا ہے اور شام سے پہلے تمام لوگ اپنا اپناکام ختم کرکے گھروں میں پہنچ جاتے ہیں۔ شام کے بعد کوئی بازار یا شاپنگ مال کھلا نہیں ملتا۔ اس لیے جس نے کوئی خریداری وغیرہ کرنی ہو تو وہ دن کو ہی مطلوبہ چیزیں خرید لیتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ شام کے بعد صرف کلب وغیرہ ہی کھلے مل سکتے ہیں۔ اس طرح وہ ممالک نہ صرف اضافی بجلی کی بچت کر لیتے ہیں بلکہ دن کی روشنی کو بھی پوری طرح بروئے کار لاتے ہیں۔ اس کے برعکس جب سے ہم نے دن کی روشنی کا صحیح استعمال ترک کیا ہے‘ ہماری کل بجلی کی پیداوار کا 70 فیصد رات کو کمرشل لائٹوں پر ضائع ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری بجلی کی طلب‘ پیداوار سے کہیں زیادہ ہے اور اسی کے نتیجے میں ہمیں طویل لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پنجاب اور کے پی میں نگران حکومتوں نے توانائی بچت کی خاطر مارکیٹیں اور کاروباری مراکز جلد بند کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں مگر ان احکامات پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا۔ جیساکہ اوپر کہاگیا کہ کوئی بھی پالیسی عوام کے تعاون کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی‘ اس کے لیے اولین شرط یہ ہے کہ حکومت خود بھی اس پالیسی کو نافذ کرنے اور اسے کامیاب بنانے میں سنجیدہ ہو اور عوام بھی از خود ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ کوئی شک نہیں کہ وفاقی حکومت کی توانائی بچت پالیسی ایک مثبت اقدام ہے اور اس سے ہم بجلی کی بچت بھی کر سکتے ہیں اور اگر ہم بحیثیت قوم اپنی روٹین ٹھیک کر لیں‘ صبح سویرے کاروبارِ زندگی کا آغاز کریں اور دن کی روشنی کا مکمل فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے کام کاج مغرب سے پہلے ختم کر لیں تو اس سے نہ صرف بجلی کی بچت ہو گی اور توانائی بحران سے نجات ملے گی بلکہ ہماری سماجی و معاشرتی زندگی پر بھی انتہائی اچھے و مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ہم اپنی فیملی کے لیے وقت نکال سکیں گے، عزیز و اقارب اور دوستوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا موقع مل سکے گا، ماضی کی طرح بیٹھک کا رواج دوبارہ شروع ہو گا جس سے خاندانی نظام میں بڑھتی ہوئی دوریاں ختم ہوں گی اور لوگوں کو ایک دوسرے کے مسائل سمجھنے میں مدد ملے گی۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ توانائی بچت پالیسی پر عملدرآمد میں اب رکاوٹ کیا ہے؟ اب تو پنجاب اور خیبر پختونخوا کی نگران حکومتوں سے وفاق کا کوئی اختلاف بھی نہیں ہے۔ کوئی حکمرانوں کو یاد دلائے کہ انہوں نے توانائی بچت پالیسی شروع کی تھی جو نہ صرف ملک کو ایک سنگین بحران سے نکالنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے بلکہ اس سے عام آدمی کو بھی سہولت میسر آئے گی۔ اس پالیسی پر صحیح معنوں میں عمل درآمد ہو جائے تو بہت جلد کاروباری نظام الاوقات سیٹ ہو جائے گا اور معاشرے میں نظم وضبط بھی پیدا ہو گا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved