تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     06-03-2023

چین کی بر وقت پُکار

پاکستان معاشی بحران کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے۔ کیا یہ جملہ درست ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان دھنس نہ رہا ہو بلکہ دھنسایا جارہا ہو؟ عام پاکستانی اس وقت بہت مایوس ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ ہمارے ہاں اب سبھی کچھ تلپٹ ہوچکا ہے۔ ذہنوں میں یہ تصور گھر کرگیا ہے کہ اب ملک میں کچھ بھی درست ہونے والا نہیں کیونکہ ہر شعبہ جواب دے گیا ہے، ہر معاملہ بگڑا ہوا ہے۔ اس حقیقت سے تو خیر کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ ہمارے ہاں خرابیاں اچھی خاصی ہیں۔ معاشی اور معاشرتی خرابیوں کا گراف وقت گزرنے کے ساتھ بلند ہوتا گیا ہے۔ یہ صورتِ حال انتہائی پریشان کن ثابت ہوتی رہی ہے۔ ایسے میں بہت سے شعبوں کا بگڑ جانا کسی بھی درجے میں حیرت انگیز بات نہیں۔
دو‘ ڈھائی عشروں کے دوران پاکستانی معاشرہ کچھ کا کچھ ہوگیا ہے۔ بڑی طاقتوں نے ہمیں میدانِ جنگ اور تختۂ مشق بنا رکھا ہے۔ امریکہ اور یورپ اپنی بیشتر لڑائیاں ہمارے آنگن میں اور اُس کے ارد گرد لڑتے آئے ہیں اور یہ سلسلہ رُکنے کا نام نہیں لے رہا۔ سابق سوویت یونین کو شکست سے دوچار کرنے کے لیے ہمیں استعمال کیا گیا۔ حالات ہی ایسے پیدا کردیے گئے کہ ہمارے پاس استعمال ہونے کے سوا چارہ نہ تھا۔ امریکہ اور یورپ نے بیسویں صدی کے اواخر میں اپنا راستہ تبدیل کیا۔ بہت کچھ بدلنا لازم ہوگیا تھا۔ چین کی ابھرتی ہوئی قوت کے مقابل کچھ نہ کچھ ایسا تو کیا ہی جانا تھا جس کی مدد سے دنیا بھر میں ایسی خرابیاں پیدا ہوں کہ چین اور دیگر ابھرتی ہوئی طاقتوں کے لیے حالات موافق نہ رہیں۔ چینی اور روسی قیادت بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ اُس کی راہ میں کہاں کہاں روڑے اٹکائے جارہے ہیں۔ امریکہ اب بھی ضد پر اڑا ہوا ہے کہ اپنے مقابل کسی کو کھڑا نہیں ہونے دے گا۔ یورپ سمجھ چکا ہے کہ اب اچھے دن زیادہ دن نہیں رہیں گے۔ بیشتر معاملات میں امریکہ کا ساتھ دینے کی پاداش میں اُسے بہت کچھ بھگتنا پڑا ہے۔ یورپ کے بڑے ذہن اب سمجھ چکے ہیں کہ ہر معاملے میں آنکھیں بند کرکے امریکہ کا ساتھ نہیں دیا جاسکتا۔
حالات بہت بدل چکے ہیں۔ وہ پہلی سی طاقت بھی نہیں رہی مگر اِس کے باوجود امریکہ اب بھی اس بات کا روادار نہیں کہ کوئی وفاداری بدلے۔ دنیا جان چکی ہے کہ امریکہ کا بھی محض بھرم رہ گیا ہے۔ اس کی حیثیت بوڑھے بدمعاش کی سی ہے۔ پھر بھی اسے سبق سکھانا اور اس سے کماحقہٗ گلو خلاصی یقینی بنانا ممکن نہیں ہو پارہا۔ اس وقت مسئلہ یہ نہیں کہ امریکہ کی طاقت زیادہ ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کے مقابل ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک کی طاقت بہت کم ہے۔ بہت سے ممالک غیر معمولی انسانی وسائل کے باوجود اپنی کمزوریاں دور کرنے میں ناکام ہیں۔ ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ امریکہ اور یورپ کے ہاتھوں کم و بیش تین عشروں سے پاکستان کو شدید مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ ان دونوں خطوں نے دوسرے بہت سے پس ماندہ اور کمزور ممالک کی طرح پاکستان کو بھی اپنے شکنجے میں کسا ہوا ہے۔ ہماری پالیسیوں اور ترجیحات پر یہ دونوں خطے تباہ کن حد تک اثر انداز ہوتے آئے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ اس کے نتائج ہم محض دیکھ نہیں رہے، بھگت بھی رہے ہیں۔
پاکستان کو چند برسوں کے دوران انتہائی نوعیت کے حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایک طرف تو انتہا پسندی کو فروغ دیا گیا اور دوسری طرف معاشی ابتری کو بھی خوب بڑھاوا دیا گیا۔ یہ سب کچھ منصوبے کے تحت کیا گیا ہے اور کیا جارہا ہے۔ ملک کل بھی گیا گزرا نہیں تھا اور آج بھی گیا گزرا نہیں ہے مگر پھر بھی معاملات کو اس طور بگاڑا گیا ہے کہ ہر طرف صرف خرابیاں دکھائی دے رہی ہیں۔ پاکستان اس وقت ایک ایسے وقت سے گزر رہا ہے کہ جب اس کے حق میں بولنے والے خال خال ہیں۔ ایک دنیا ہے کہ اسے دبوچے بیٹھی ہے۔ ایسے میں جو تھوڑے بہت خیرخواہ ہیں وہ بھی پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ وہ کچھ بھی بول کر کسی بڑی طاقت کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ ایسے میں چین کی طرف سے بہت حوصلہ افزا بات کی گئی ہے۔ چینی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے کہا ہے کہ پاکستان کے معاشی اور معاشرتی مسائل حل کرنے کے لیے تمام فریقین کو مل جل کر اقدامات کرنے چاہئیں۔ دو دن قبل یومیہ پریس بریفنگ میں ماؤ ننگ نے کہا کہ پاکستان کے 7 ارب ڈالر کے قرضے ادا کرنے میں معاونت کے حوالے سے کوئی حتمی بات تو چین کی متعلقہ وزارت کے حکام ہی کہہ سکتے ہیں۔ جون تک پاکستان پر 7 ارب ڈالر کے قرضے واجب الادا ہیں‘ ان میں چین کے قرضے بھی شامل ہیں۔ ماؤننگ کا کہنا تھا کہ چین اور پاکستان ہر موسم کے ساتھی اور مضبوط شراکت دار ہیں۔ ماؤ ننگ نے امریکہ کا نام لیے بغیر کہا کہ ایک ترقی یافتہ ملک کی بنیاد پرست مالی اور مالیاتی پالیسیاں اور ان کے سنگین اثرات پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کو درپیش مالی مشکلات کے بنیادی اسباب ہیں۔ ترقی پذیر ممالک پر قرضوں کا سب سے زیادہ بوجھ مغرب کے زیرِ اثر کام کرنے والے تجارتی قرض دہندگان اور کثیر جہتی مالیاتی اداروں کا ہے۔ پاکستان کے تمام پارٹنرز کو اس مشکل گھڑی میں مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ پاکستان کو مدد کی ضرورت ہے‘ اس کی مدد کی جانی چاہیے۔
چین کی پکار بروقت ہے۔ وہ ہر مشکل میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ اب بھی وہ ہماری خاطر بہت کچھ سن رہا ‘برداشت کر رہا ہے۔ امریکہ اور یورپ کو یہ بات پسند نہیں کہ پاکستان کا جھکاؤ چین کی طرف ہو۔ پاکستان کے لیے ناگزیر ہوچکا ہے کہ نئے پارٹنرز تلاش کرے کیونکہ امریکہ اور یورپ نے بہت سے مواقع پر ہماری مجبوریوں سے فائدہ تو اٹھایا ہے مگر مشکلات سے نکلنے میں ہماری مدد نہیں کی۔ اب آئی ایم ایف کو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان کو باندھ کر رکھنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ ایک طرف تو پاکستانی معاشرے کو دبوچا جاچکا ہے اور دوسری طرف معیشت کا بیڑا غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جارہی۔ یہ سب کچھ انتہائی ناقابلِ برداشت ہے۔ اس حوالے سے ہمیں بھی بہت کچھ سوچنا اور کرنا ہے۔ چین نے پاکستان کے نام نہاد پارٹنرز پر معاونت کے لیے زور دے کر اپنے حصے کا کام کردیا ہے۔ پاکستان کے معاملات ایسے بُرے نہیں جتنے بنائے اور دکھائے جارہے ہیں۔ ہمارے باصلاحیت نوجوان معقول تعلیم و تربیت پاکر دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوارہے ہیں۔ طب، انجینئرنگ، آئی ٹی اور دیگر اہم شعبوں میں ہمارے بہترین دماغ مغرب کی خدمت کر رہے ہیں۔ کاروباری معاملات میں بھی ہماری باصلاحیت افرادی قوت اپنے آپ کو منوارہی ہے۔ امریکہ اور یورپ کو اب پاکستان جیسے ممالک کی حالت مزید خراب کرنے کی روش ترک کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ کئی ممالک نہیں بلکہ خطوں کو امریکہ اور یورپ نے مل کر پامال کیا ہے، اس قابل بھی نہیں چھوڑا کہ ڈھنگ سے جی ہی سکیں۔ ان کے لیے زندہ رہنا بھی اتنا دشوار کردیا گیا ہے کہ وہ گزارے کی سطح سے بلند نہیں ہو پارہے۔ بڑی طاقتوں نے مل کر جو مشکلات پیدا کی ہیں ان کا تدارک سب سے بڑھ کر تو ہمیں کرنا ہے۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں بہت کچھ بدلنا ہے۔ سب سے بڑھ کر اپنے آپ کو بدلنا ہے۔ چین، ترکی اور سعودی عرب جیسے دوست ممالک ہماری مدد ضرور کرسکتے ہیں مگر ایک خاص حد تک! اپنی مشکلات کا بالکل درست اندازہ صرف ہمیں ہوسکتا ہے اور ہم ہی بہترین حل بھی سوچ سکتے ہیں۔
اب مزید تساہل کی گنجائش ہے نہ تاخیر کی۔ جو کچھ بھی کرنا ہے تیزی سے کرنا ہے۔ اس وقت مسلم دنیا کو ہمارے ساتھ ہونا چاہیے مگر متمول خلیجی ریاستیں بھی کھل کر ساتھ نہیں دے رہیں۔ سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کو پاکستان کی مدد کے لیے آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہمیں مالیاتی بحران سے نکالا جائے تو خلیج فارس کے خطے کے لیے یہ ایک اچھا معاملہ ہوگا۔ خلیج کے خطے کے علاوہ امریکہ اور یورپ میں بسے ہوئے نمایاں حیثیت کے حامل پاکستانیوں کو بھی اس معاملے میں اپنا کردار پوری دیانت اور سنجیدگی سے ادا کرنا چاہیے۔ جو جہاں اپنے ملک کے لیے کچھ کرسکتا ہے اُسے وہاں کچھ نہ کچھ کرنا ہی چاہیے۔ وقت، پاکستان دوستی اور حب الوطنی کا یہی تقاضا ہے۔ دیکھتے ہیں چین کی پکار کتنا کام کرتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved