چیئرمین تحریک انصاف نے ملک کے حالات پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان حالات سے نکلنے کیلئے ہمیں متحد ہونا پڑے گا‘ ملک کی خاطر سب سے بات کرنے اور سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار ہوں۔ خان صاحب نے نیلسن منڈیلا کی 27 سالہ جیل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح انہوں نے اپنے مخالفین کو معاف کر دیا تھا اسی طرح وہ بھی قاتلانہ حملہ کرنے والوں کو معاف کرنے کیلئے تیار ہیں۔ خان صاحب نے ملک کی خاطر بات چیت اور سمجھوتہ کی پیشکش کی ہے مگر یہ واضح نہیں ہے کہ وہ کسے پیغام دینا چاہ رہے ہیں؟ ہماری تشویش کی وجہ خان صاحب کا ہی خطاب ہے جس میں انہوں نے حریف سیاسی جماعتوں کے قائدین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے‘ مفاہمت کرنی ہے تو پھر تنقید کیوں؟ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سمجھوتہ کرنے کے حوالے سے ان کا مخاطب اہلِ سیاست نہ تھے۔ اگر خان صاحب اقتدار کے تمام شراکت داروں بشمول سیاستدانوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار ہیں تو یہ خوش آئند ہے‘ ایک قومی سطح کے مقبول لیڈر کو یہی زیب دیتا ہے کہ وہ اپنی قوم کو مزید ابتلا میں نہ ڈالے۔ خان صاحب نے نیلسن منڈیلا کا ذکر کیا مگر وہ پورا سچ بیان نہ کر سکے۔ دراصل نیلسن منڈیلا جب قید و بند کی طویل صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد رہا ہوئے تو ان کا بیانیہ سر چڑھ کر بول رہا تھا‘ مخالفین نے مذاکرات کی پیشکش کی تو نیلسن منڈیلا نے فوری حامی بھر لی‘ نیلسن منڈیلا کے حامیوں نے کہا کہ اب مذاکرات کیوں؟ اب تو ہماری کامیابی نوشتۂ دیوار ہے۔ نیلسن منڈیلا نے تاریخی جملہ کہا کہ میری قوم کا مفاد اسی میں ہے کہ مذاکرات کئے جائیں انہیں مزید کسی آزمائش اور ابتلا میں نہ ڈالا جائے۔ نیلسن منڈیلا کو مذاکرات کا یہ صلہ ملا کہ وہ جنوبی افریقہ کے صدر بن گئے‘ عہدۂ صدارت سنبھالنے کے بعد بھی انہوں نے کوئی انتقامی کارروائی نہ کی‘ جب نیلسن منڈیلا نے اقتدار چھوڑا تو ان کی مقبولیت کا ڈنکا چار دانگ عالم میں بج رہا تھا۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اگر واقعی ملک و قوم کی خاطر مذاکرات کیلئے آمادہ ہیں تو پھر انہیں تلخ رویے کو ترک کرنا ہو گا۔ان کے لہجے میں اب بھی انتقام کو محسوس کیا جا سکتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ مخالفین ان کی بات کو سنجیدہ لینے کیلئے تیار نہیں ہیں‘ خان صاحب جب سمجھوتے کی بات کریں تو پرانی باتوں کو نہ دہرائیں۔ معاملات جہاں تک پہنچ چکے ہیں انہیں معمول پر لانے کیلئے ویڈیو لنک خطاب کافی نہیں ہے‘ بیک ڈور رابطے بروئے کار لانا ہوں گے‘ ایسی شخصیات جن کے قد کاٹھ کی وجہ سے انہیں تمام حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے‘ ان کے ذریعے معاملات کو مخفی انداز میں آگے بڑھانا ہو گا‘ اگر خان صاحب قوم کو ابتلا میں ڈالنے کے بجائے مذاکرات کو ترجیح دیتے ہیں تو ان کی مقبولیت میں اضافہ ہو جائے گا‘ سوال مگر یہ ہے کہ کیا خان صاحب نیلسن منڈیلا کے راستے کو اپنائیں گے یا جو وہ اپنی پہچان بنا چکے ہیں وہی برقرار رہے گی؟
حریف سیاسی جماعتیں خان صاحب کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کو سنجیدہ لینے کیلئے تیار ہیں نہ ہی اس پر عمل ہوتا نظر آ رہا ہے کیونکہ پچھلے پانچ برسوں میں جب تحریک انصاف کی مقبولیت کا جادو سرچڑھ کر بول رہا تھا تو خان صاحب نے کسی سیاسی جماعت کے ساتھ بات کرنا گوارا نہ کیا بلکہ احتساب کا سلسلہ شروع ہوا جسے مخالفین سیاسی انتقام سے تعبیر کرتے ہیں‘ اس دوران سیاسی حریفوں نے متعدد بار مذاکرات کی پیشکش کی‘ مگر خان صاحب نے اسے نخوت کے ساتھ مسترد کر دیا جیسے ان کا اقتدار ہمیشہ قائم رہے گا‘ حالات بدلتے ہوئے دیر نہیں لگی آج خان صاحب زیر عتاب ہیں‘ توشہ خانہ کیس میں ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہو چکے ہیں‘ اسلام آباد پولیس انہیں گرفتار کرنے لاہور زمان پارک بھی گئی‘ خان صاحب تاحال گرفتار تو نہیں ہو سکے ہیں‘ تاہم یہ واضح ہو گیا ہے کہ وہ ممکنہ گرفتاری سے راہِ فرار اختیار کر رہے ہیں۔ قانون سب کیلئے برابر اور عدالتوں کے احترام کا دعویٰ کرنے والے خان صاحب اسلام آباد پولیس سے بھاگتے ہوئے دکھائی دیے‘ ناقدین تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کارکنان کو جیل بھرو تحریک کیلئے تیار کیا مگر خود قید سے فرار اختیار کر رہے ہیں۔ گرفتاری سے بچ کر خان صاحب نے بظاہر اچھی مثال قائم نہیں کی ‘ نیلسن منڈیلا تو عظیم لیڈر تھے خان صاحب کے حریف رہنماؤں نے جیل و گرفتاری کو خوشی سے قبول کیا‘ خان صاحب نے اپنے عمل سے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے انصاف پر یقین رکھتے ہیں۔
ایسی صورتحال میں اگر خان صاحب مذاکرات کی پیشکش کر رہے ہیں تو برسراقتدار جماعتیں اسے قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ تاریخ کا جبر ہے‘ خان صاحب آج بات کرنے کیلئے آمادہ ہیں مگر کوئی سننے کیلئے تیار نہیں‘ اپنی پہچان انہوں نے خود بنائی ہے۔ داغ دہلوی نے شاید ایسے ہی مواقع کیلئے کہا ہے کہ بہت دیر کی مہرباں آتے آتے۔
سیاسی مفاہمت وقت کا اہم تقاضا ہے‘ مفاہمت کیلئے ضروری ہے کہ تمام فریق لچک کا مظاہرہ کریں‘ مگر زمینی حقائق تصادم کی عکاسی کر رہے ہیں‘ اتحادی جماعتوں کے تیور بتا رہے ہیں کہ وہ خان صاحب کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت نہیں کریں گی‘ خان صاحب پر ہی کیا موقوف دیگر سیاسی جماعتیں بھی اپنی بات پر قائم نہیں رہی ہیں‘ پی ڈی ایم کی قیادت نے پہلے کہا کہ اگر پی ٹی آئی نے صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دے دیے تو وہ فوری انتخابات کرا دیں گے‘ اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں مگر انتخابات کے انعقاد میں لیت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے‘ مولانا فضل الرحمان سکیورٹی کو جواز بنا کر الیکشن کے حق میں نہیں ہیں اسی طرح قومی اسمبلی سے استعفوں کے معاملے پر بھی اتحادی جماعتوں کا طرزِعمل مفاہمانہ نہیں رہا‘ سپیکر قومی اسمبلی پہلے کہتے رہے کہ پی ٹی آئی ارکان ایوان میں واپس آئیں‘ جب پی ٹی آئی نے واپسی کا عندیہ دیا تو فوری استعفے منظور کر لئے گئے‘ اس صورتحال کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ جب تک سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کی اسیر رہیں گی‘ تب تک مفاہمت یا مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ مروجہ نظام ناکام ہو گیا ہے‘ سوال مگر یہ ہے کہ کوئی تو بتائے کہ متبادل نظام کیا ہو سکتا ہے‘ اور کیسے معاشی و سیاسی مسائل کے سامنے بند باندھا جا سکتا ہے‘ اگر کوئی نہیں بولتا تو کم از کم خان صاحب کو ضرور بولنا چاہئے کہ مخالفین کو لتاڑنے کے علاوہ مسائل سے نجات کیلئے ان کے پاس کیا حل ہے؟ معاشی بحران جس نہج تک پہنچ چکا ہے اس سے نجات کیلئے سیاسی مفاہمت ہی واحد راستہ ہے‘ اقتدار کے تمام شراکت داروں کو سیاسی مفاہمت میں دیر نہیں کرنی چاہئے‘ خان صاحب نے سمجھوتے کا اشارہ دیا ہے تو انہیں یہ تاثر نہیں دینا چاہئے کہ وہ مقبول اور طاقتور لیڈر ہیں‘ خان صاحب کو اب مقبولیت کے سحر سے بالا ہو کر سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی مقبولیت سے ملک اور قوم کو کیسے فائدہ پہنچا سکتے ہیں‘ انہیں پیشگی شرائط عائد کرنے سے گریز کرنا چاہئے‘ کیونکہ فریفین جب تک اپنی اپنی شرائط پیش کرتے رہیں گے بات آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ سیاسی مفاہمت کے بغیر الیکشن میں جانے کا مطلب یہ ہو گا کہ کامیاب ہونے والی سیاسی جماعت نے اپنے لئے مشکلات کا انتخاب کر لیا ہے بالکل ویسے ہی جیسے مارچ 2022ء میں خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا کر اتحادی حکومت نے اپنے لئے مشکلات کا بندوبست کیا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved