فتحِ مکہ کے بعد لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔ داعی اعظمؐ اور آپ کے صحابہ مختلف علاقوں میں عرب قبائل کو اسلام کی دعوت دیتے تھے۔ اب خود قبائل کے وفود مدینہ آنے لگے۔ 9ہجری کو عام الوفود کہا جاتا ہے۔ عرب کے طاقت ور قبیلوں میں بنو تمیم بہت معروف تھا‘ جوبڑی شان وشوکت کے ساتھ مدینہ آیا۔ اس بدوی قبیلے کی خاصیت یہ تھی کہ یہ جنگجو بھی تھے‘ خطیبانہ فصاحت وبلاغت میں بھی کسی کو خاطر ِمیں نہیں لاتے تھے اور شعروشاعری میں بھی ان کا سکہ چلتا تھا۔ اس کے ساتھ عمومی طور پر اس قبیلے میں مال ودولت کی ہوس اور دنیاداری کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کے کئی لوگ اسلام میں داخل ہوکر تبدیل ہو چکے تھے مگر اکثریت اپنے جاہلی تفاخر کے نشے میں مبتلا تھی۔ ان لوگوں کی مدینہ آمد اس لحاظ سے بھی بہت اہم ہے کہ ان کی آمد پر قرآن نے سورۃ الحجرات میں تبصرہ کیا ہے۔
اس قبیلے کے بڑے بڑے روسا اقرع بن حابس‘ زبرقان بن بدر‘ عمرو بن الاہتم اور نعیم بن یزید بڑے اہتمام سے مدینہ آئے۔ نعیم بن یزید کا نام طبقات ابن سعد میں نعیم بن زید لکھا ہے۔ ان سرداروں کے ساتھ ایک اور سردار بھی شامل تھا جو اس سے قبل کئی مرتبہ مال ودولت کے لالچ میں مدینہ پر حملہ آور ہوچکا تھا۔ جنگ خندق میں بھی وہ قریش کے ساتھ محاصرے میں شریک تھا۔ یہ تھا عُیَیْنَہ بن حِصن فزاری۔ اس کی زندگی میں بڑے نشیب وفراز ملتے ہیں۔ امام ابن کثیرؒ نے البدایۃ والنہایۃ میں اوپر بیان کردہ ارکینِ وفد کے علاوہ کچھ مزید نام لکھے ہیں۔ ان میں حبحاب بن یزید‘ قیس بن الحارث‘ قیس بن عاصم اور عطارد بن حاجب بن زرارہ شامل ہیں۔ (البدایۃ والنھایۃ، ج۱، ص۹۲۷، ابن ہشام، ص۵۶۰)
جب یہ لوگ مدینہ منورہ میں پہنچے تو سیدھے مسجد نبوی کا رخ کیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کے وقت استراحت فرما رہے تھے۔ تربیت یافتہ لوگوں کو تو معلوم تھا کہ آنحضوؐر سے ملاقات کے کون سے مناسب اوقات ہیں اور اس میں کیا آداب ملحوظ رکھنا ضروری ہیں۔ البتہ یہ بدوی قبائل ان عادات سے نابلد تھے۔انہوں نے مسجد میں پہنچتے ہی شور کی کیفیت پیدا کردی اور بآوازِ بلند آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر پکارنے لگے۔ علامہ حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں:'فَلَمَّا دَخَلُوْا الْمَسْجِدَ ۔۔۔۔ فَخَرَجَ اِلَیْھِمْ۔ جب یہ لوگ مسجد نبویؐ میں داخل ہوئے تو بلند آواز سے پکارنے لگے کہ اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)! ہم ملاقات کے لیے آئے ہیں، باہر آئیے۔ ان کا شور سن کر آنحضوؐر کو ایذا پہنچی، آپؐ بے آرام ہوئے، پھر بھی حجرے سے نکل کر ان کے پاس تشریف لائے۔ (البدایۃ والنھایۃ، ص۹۲۷)
قرآن مجید کی سورۂ الحجرات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس موضوع کو اس کی تمام باریکیوں‘ نزاکتوں اور آداب کے ساتھ وحی ربانی کے ذریعے قیامت تک کے لیے ثبت کردیا۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کا مقام بھی واضح کیا اور نبی اکرمؐ کے ادب واحترام کے حدود بھی متعین کردیے۔ جاہلی انداز میں آپ کو پکارنے پر وعید سنائی اور اہلِ ایمان کو تا قیامت حرمت رسولؐ کا درس بھی دیا۔ بارگاہِ نبوتؐ میں ذرا سی بے ادبی انسان کے تمام اعمال کو غارت کردیتی ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
ادب گاہیست زیرآسمان از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جُنید و بایزید اینجا!
حکم ربانی ہے: ''اے لوگو! جو ایمان لائے ہو‘ اللہ اور اس کے رسولؐ کے آگے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو‘ اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اپنی آواز نبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ نبیؐ کے ساتھ اونچی آواز سے بات کرو‘ جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہوجائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔ جو لوگ رسولِؐ خدا کے حضور بات کرتے ہوئے اپنی آواز پست رکھتے ہیں وہ درحقیقت وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے جانچ لیا ہے۔ ان کے لیے مغفرت اور اجرعظیم ہے۔ اے نبیؐ! جو لوگ آپ کے حجروں سے باہر سے آپؐ کو پکارتے ہیں ان میں سے اکثر بے عقل ہیں۔‘‘(الحجرات۴۹:۱-۴)
جب آپؐ حجرۂ مبارک سے باہر نکلے تو ان لوگوں نے گفتگو کا آغاز ہی یوں کیا: ''اے محمدؐ! ہم آپ کے پاس آئے ہیں کہ اپنے قبیلے کے مفاخر بیان کریں۔ پس آپ ہمیں اس کی اجازت دیجیے۔ ہمارے شاعر اور ہمارے خطیب اپنی شاعری اور خطابت کے جوہر دکھائیں گے اور بتائیں گے کہ ہمارا قبیلہ کن عالی شان اوصاف کا مالک ہے‘‘۔ ان کی بات سن کر آپؐ نے فرمایا: اچھا تو تمہارا خطیب جو کچھ کہنا چاہتا ہے وہ کہے۔ پس قبیلے کا خطیب اور فصاحت وبلاغت کا شاہسوار عطارد بن حاجب کھڑا ہوا اور اس نے ایک دھواں دھار تقریر کی۔ چونکہ یہ لوگ اسلام قبول کرنے کے لیے آئے تھے‘ اس لیے اس نے بات کا آغاز اللہ کے ذکر ہی سے کیا: اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ لَہٗ عَلَیْنَا الْفَضْلُ وَالْمَنُّ وَھُوَ اَھْلُہٗ۔ حمد وتعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہم پر فضل اور احسان کیا ہے اور حمد وتعریف کا وہی اہل ومستحق ہے۔ (البدایۃ والنھایۃ، ص۹۲۷، ابن ہشام، ص۵۶۲)
عطارد کے خطاب کا خلاصہ یہ ہے: ''اس اللہ نے ہمیں قیادت وبادشاہت عطا فرمائی اور ہمیں مال ودولت کی فراوانی بخشی۔ ہم اپنے مال ودولت کو کارِ خیر میں صرف کرتے ہیں۔ ہمارا شعار ہے کہ معروف کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اللہ نے ہمیں اہلِ مشرق پر غلبہ عطا فرمایا۔ کیا ہم لوگوں کے قائد اور سردار نہیں ہیں‘ ہم سے زیادہ سازوسامان کس کے پاس ہے اور ہم جیسی خوبیاں کس میں پائی جاتی ہیں؟ جو ہمارے ساتھ ان معاملات میں مقابلہ کرنا چاہے تو خوب سوچ لے اور پوری تیاری کرلے۔ ہم اگر اپنے فضائل بیان کرنے پہ آئیں تو کرتے ہی چلے جائیں۔ لیکن اللہ نے ہمیں جو کچھ عطا کیا ہے اس کے بارے میں زیادہ باتیں کرنے کو مناسب نہیں سمجھتے۔ میں چیلنج کرتا ہوں کہ ہماری خطابت جیسی کوئی خطابت پیش کرے اور ہمارے اوصاف سے بہتر کوئی اپنے اوصاف بیان کرے۔ یہ کہہ کر وہ بیٹھ گیا‘‘۔ (ایضاً،ص۹۲۷، سیرۃ ابن ہشام، ص۵۶۲-۵۶۳)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے اس کی باتیں غور سے سنیں۔ اگرچہ یہ قبیلہ اسلام کی طرف مائل ہوگیا تھا مگر ابھی تک جاہلیت ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وہ جاہلی تفاخر میں کسی کو اپنا ثانی نہ سمجھتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہؓ کی طرف دیکھا اور انصاری صحابی حضرت ثابت بن قیس بن شماسؓ کو حکم دیا کہ وہ کھڑے ہوکر بنوتمیم کے خطیب کا جواب دیں۔ انہوں نے بہت ایمان افروز‘ جامع اور بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا:
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِی السَّمٰوَاتُ وَالْاَرْضُ خَلْقُہٗ، قَضٰی فِیْہِنَّ اَمْرَہٗ، وَوَسِعَ کُرْسِیُّہٗ وَعِلْمُہٗ، وَلَمْ یَکُ شَیْئٌ قَطُّ اِلَّا مِنْ فَضْلِہٖ، ثُمَّ کَانَ مِنْ قُدْرَتِہٖ اَنْ جَعَلَنَا مُلُوْکًا، وَاصْطَفٰی مِنْ خَیْرِ خَلْقِہٖ، رَسُْوْلًا، اَکْرَمَہٗ نَسَبًا وَاَصْدَقَہٗ حَدِیْثًا وَاَفْضَلَہٗ حَسَبًا، فَاَنْزَلَ عَلَیْہِ کِتَابًا، ۔۔۔۔ وَاسْتَغْفِرُاللّٰہَ لِیْ وَلَکُمْ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ، وَالسَّلَامُ عَلَیکُمْ۔
حمد اور تعریف اس اللہ کی ہے جس کی عظیم تخلیق آسمانوں اور زمین کی صورت میں موجود ہے۔ آسمان وزمین کے درمیان اس (وحدہٗ لاشریک) نے اپنے احکام جاری فرمائے ہیں۔ اس کی کرسیٔ( اقتدار) اور اس کے عظیم علم کی وسعتیں زمین وآسمان کو محیط ہیں۔ دنیا میں کوئی چیز بھی‘ اس کے فضل وکرم کے بغیر‘ کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی۔ پھر اس قادر مطلق کا فیصلہ ہے کہ اس نے ہمیں صاحب اقتدار اور حاکم بنایا اور اپنی ساری مخلوق میں سے ہمیں اپنے انعامات وامانات کے لیے چن لیا اور اپنی مخلوق میں سب سے افضل واعلیٰ ہستی کو رسولؐ بنایا۔ اس کا نسب سب انسانوں سے افضل اور اس کا قول سب سے سچا ہے۔ اس کے کارہائے نمایاں کا کوئی بدل نہیں۔
پھر اللہ نے آپ پر اپنی کتاب نازل فرمائی اور اپنی مخلوق کی قیادت(کی امانت) ان کے سپرد کی۔ سارے جہانوں میں وہ اللہ کی جملہ مخلوق سے افضل اور بہتر ہیں۔ پھر رب کریم نے تمام انسانوں کو حکم دیا کہ وہ ان پر ایمان لائیں۔ پس آپؐ کی قوم اور قریبی رشتہ داروں میں سے بہترین حسب ونسب والے اور ازحد خوب صورت چہروں والے اور سب سے اچھے اعمال والے مہاجرین ان پر ایمان لائے ۔ ان کے بعد تمام انسانوں میں سے سب سے پہلے اللہ کے رسولؐ کی دعوت پر لبیک کہنے کاشرف ہمیں حاصل ہوا۔ آپ کے انصار ومددگار اور مشیر ووزیر ہونے کا اعزاز بھی ہم (اہلِ مدینہ) کو حاصل ہے۔
ہم لوگوں سے قتال کریں گے‘ اگر وہ اسلام کی راہ میں مزاحم ہوں گے یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں۔ پس جو بھی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے‘ اس کا مال وجان‘ ہرچیز محفوظ ومامون ہوجائے گی۔ جس نے کفر کا راستہ اپنایا‘ ہم ہمیشہ اس سے نبردآزما رہیں گے اور ہر مدمقابل کا قتل ہمارے لیے آسان ہے۔ میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے‘ تم سب کے لیے اور تمام اہلِ ایمان مردوخواتین کے لیے مغفرت طلب کرتا ہوں۔ تم سب پر اللہ کی سلامتی ہو‘‘۔(سیرۃ ابن ہشام، قسم الثانی، ص۵۶۲)
اس کے بعد قبیلہ بنو تمیم کا مشہور شاعر زبرقان بن بدر کھڑا ہوا اور اس نے اپنے قبیلے کی مدح میں قصیدہ پڑھا جس کا تذکرہ اگلی قسط میں آئے گا۔(جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved