لوگ زندگی بھر کسے تلاش کرتے رہتے ہیں؟ کوئی ہم خیال افراد کو تلاش کرتا پھرتا ہے۔ کوئی مال و دولت کی دھن میں بھٹکتا پھرتا ہے۔ کسی کو شہرت کی تلاش ہوتی ہے اور کوئی تکریم چاہتا ہے۔ یہ سب کیا ہے؟ در حقیقت کسے تلاش کیا جارہا ہے؟ انسان زندگی بھر جتنی بھی تگ و دَو کرتا ہے‘ اس کی جڑ میں کیا چیز ہوتی ہے؟ کسی بھی حوالے سے متحرک رکھنے والا معاملہ آخر ہے کیا؟ کیا سب کو اپنی اپنی تلاش ہے؟ لگتا تو کچھ ایسا ہی ہے۔
انسان بہت کچھ سیکھتا ہے‘ بہت کچھ کرتا ہے اور رشتوں‘ تعلقات کے نام پر بہت کچھ جھیلتا بھی ہے۔ کس لیے؟ صرف اور صرف اپنے آپ تک پہنچنے کے لیے۔ اس سے زیادہ کی طلب ہوتی ہی کہاں ہے؟ سب اپنی تلاش میں چلتے رہتے ہیں۔ ہر فرد کے لیے زندگی اس کے اپنے وجود سے شروع ہوکر اسی پر ختم ہوتی ہے۔ دنیا کا ہر انسان سب سے بڑھ کر اپنے مفاد کو ذہن نشین اور عزیز رکھتا ہے۔ یہ اس قدر فطری معاملہ ہے کہ اس پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ کون ہے جسے صرف اپنا مفاد عزیز نہیں؟ ہر انسان الف سے ی تک اولاً اپنے لیے جیتا ہے۔ دوسروں کی فکر بھی اسے لاحق رہتی ہے مگر یہ ظاہر ہے‘ ثانوی معاملہ ہے۔ حقیقی فکر تو ہر انسان کو اپنی ہی لاحق رہتی ہے۔
ہالی وُڈ کے معروف اداکار ایلن ایلڈا کہتے ہیں ''آپ کامیابی تک کسی بس یا ٹرین کے ذریعے نہیں بلکہ محنتِ شاقہ کے ساتھ ساتھ خطرات مول لے کر پہنچتے ہیں۔ اور آپ کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ آپ کر کیا رہے ہیں۔ جب انسان کامیابی کے حوالے سے طے کردہ ہدف تک پہنچتا ہے‘ تب اس پر کھلتا ہے کہ اس نے تو بہت کچھ کیا ہے اور بہت کچھ پا لیا ہے۔ بہر کیف‘ بھرپور کامیابی کے حصول کی صورت میں اپنے وجود سے ملاقات ہوتی ہے۔ تب انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں تو دنیا بھر کی صلاحیتیں پنہاں تھیں اور سکت بھی کم نہ تھی۔ جب تک انسان بھرپور کامیابی یقینی بنانے کی تگ و دو میں مصروف رہتا ہے‘ تب تک اسے کچھ بھی اندازہ نہیں ہو پاتا کہ اس میں کیا کیا چھپا ہوا ہے۔ یہ بھی قدرت کا نظام ہے۔ انسان کبھی کبھی ایسے کام بھی کر جاتا ہے کہ بعد میں یاد کرکے‘ سوچ کر وہ خود بھی حیران ہوتا رہتا ہے۔ اپنی بعض صلاحیتوں کا انسان کو اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ وقت آنے پر جب وہ صلاحیت بے نقاب ہوتی ہے تب صرف خوش گوار حیرت میں مبتلا ہونے کا آپشن رہ جاتا ہے۔
کون کس طور کامیاب ہو سکے گا‘ اس کے بارے میں پورے تیقن سے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا‘ خود متعلقہ فرد بھی نہیں۔ حالات کے بدلنے سے بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں نمایاں کامیابی یقینی بنانے کے لیے کی جانے والی جدوجہد پر بہت سے عوامل اور حالات اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ معاملہ سب کا ہے۔ انتہائی کامیاب افراد بھی کبھی کبھی حیران رہ جاتے ہیں کہ وہ کہاں کہاں سے گزر گئے‘ کیا کیا کر ڈالا اور کیا کیا پا لیا۔
کیا کسی لگے بندھے طریقے کے تحت کامیابی یقینی بنائی جا سکتی ہے؟ ایسا ممکن تو ہے مگر ایسی حالت میں ملنے والی کامیابی حقیقی معنوں میں وہ بھرپور لطف نہیں دے پائے گی جس کی تمنا کی گئی ہو۔ کامیابی کا لطف اس بات میں ہے کہ انسان زیادہ نہ سوچے اور اپنے آپ کو منوانے کی تگ و دو میں مصروف رہے۔ کسی بھی شعبے میں فقید المثال نوعیت کی کامیابی کا حقیقی لطف اسی وقت لیا جا سکتا ہے جب انسان کام میں بھرپور دلچسپی لینا سیکھے اور دکھاوے سے گریز کرے۔ دکھاوا کسی بھی معاملے میں لطف نہیں دے سکتا۔ شاندار کامیابی کا حصول یقینی بنانے کے سفر پر نکلنے والوں کو دیکھ کر آپ یہ سیکھ سکتے ہیں کہ سفر کے دوران مزاج کیسا رکھنا ہے‘ اپنے کام سے مطمئن کیسے رہنا ہے اور کس طور اپنی کامیابی سے لطف اندوز ہونا ہے۔
لگے بندھے طریقے سے کام کرنے سے انسان کو کچھ زیادہ لطف محسوس نہیں ہوتا۔ کام کرنے کا اصل مزا تبھی ہے کہ جب نتیجہ تھوڑا سا حیرت انگیز ہو۔ جو کچھ ہم نے سوچ رکھا ہو یعنی جس کی توقع کر رہے ہوں‘ اس سے ہٹ کر برآمد ہونے والا نتیجہ ہمیں خوش گوار حیرت سے ہم کنار کرتا ہے۔ میکانکی انداز سے کیے جانے والے کام سے انسان کو زیادہ سکون مل ہی نہیں سکتا۔ جب انسان لگے بندھے طریقے سے کام کرتا ہے تب زندگی سے خوش گوار حیرت کا پہلو ناپید ہو جاتا ہے۔ نظم و ضبط کی ہماری زندگی میں بہت اہمیت ہے تاہم زندگی صرف نظم و ضبط کا نام نہیں۔ اقبالؔ نے خوب کہا ہے ؎
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اِسے تنہا بھی چھوڑ دے
اگر سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہو تو کام کرنے کا لطف جاتا رہتا ہے اور انسان لگی بندھی زندگی کا اسیر سا ہوکر رہ جاتا ہے۔ جینے کا حقیقی لطف اس وقت ہے جب انسان اپنی ڈگر سے تھوڑا سا ہٹ کر بھی چلے‘ معمولات میں وہ سب کچھ شامل کرے جس کی مدد سے یکسانیت کا خاتمہ ہو اور زندگی میں تھوڑی سی نیرنگی کا سامان ہو۔زندگی قدم قدم پر کچھ ایسا چاہتی ہے جس کی مدد سے معمولات اور معاملات کی رنگینی بڑھے۔ زندگی کی ساری رنگینی اس بات میں ہے کہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ نہ ہو۔ انسان کو کامیابی کا حصول یقینی بنانے کے نام پر اپنی تلاش میں نکلنا چاہیے۔ اپنی تلاش کا سفر بہت رنگین ہوا کرتا ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ جب خود کو عمل کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں تب اُنہیں خود بھی یقین نہیں آتا کہ وہ کہاں کہاں سے گزر گئے ہیں‘ کیا کیا کر ڈالا ہے اور کیا کیا پا لیا ہے۔ جب انسان اپنے وجود کو بے نقاب کرتا جاتا ہے‘ تب اسے بہت خوش گوار حیرت ہوتی ہے اور اپنے آپ پر فخر کرنے کو جی چاہتا ہے۔
بہت سوں کا یہ حال ہے کہ کامیابی ممکن بنالینے کے بعد بھی کچھ زیادہ خوش دکھائی نہیں دیتے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ اپنی کامیابی سے محظوظ ہونے پر توجہ نہیں دیتے۔ ہر کامیابی کسی نہ کسی مقصد کے تحت ہوتی ہے اور ہونی ہی چاہیے۔ انسان کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کیوں کامیاب ہونا چاہتا ہے اور کامیابی کا حصول یقینی بنانے کے بعد وہ اس کا کرے گا کیا۔ اگر کوئی محض دولت مند ہونے کے لیے کامیاب ہونا چاہتا ہے تو طے کرنا پڑے گا کہ دولت حاصل کرنے کے بعد وہ کیا کیا چیزیں اور سہولتیں خریدے گا‘ کس طرزِ زندگی کی طرف جائے گا۔ دولت کا محض کمانا کافی نہیں ہوتا۔ حاصل شدہ دولت سے انسان کو اشیا و خدمات کا حصول یقینی بنانا چاہیے تاکہ زندگی کی رنگینی بڑھے۔
کسی بھی انسان کے لیے حقیقی کامیابی یہ ہے کہ اپنے وجود کو پروان چڑھانے میں کامیاب ہو۔ وجود کو پروان چڑھانے کے کئی مفاہیم ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان دن رات ایک کرکے بہت سی دولت تو کما لیتا ہے تاہم شخصیت پنپنے کا نام نہیں لیتی۔ شخصیت کا پنپنا لازم ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو اچھی خاصی کمائی ہوئی دولت بھی انسان کے لیے سوہانِ روح ثابت ہوتی ہے۔
کسی بھی شعبے میں آگے بڑھ کر انسان دراصل اپنے آپ کو ثابت کرنا چاہتا ہے۔ وہ دنیا کو بتانا چاہتا ہے کہ اُس میں صلاحیتوں کا خزانہ چھپا ہوا ہے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت بارآور ثابت ہوتا ہے جب انسان اپنی شخصیت کو نظر انداز کرنے کی حماقت نہ کرے۔ کسی بھی انسان کے لیے کامیابی اُسی وقت معنی خیز اور بارآور ثابت ہوتی ہے جب وہ دولت، نیک نامی اور شہرت کے حصول کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی پروان چڑھاتا جائے۔ اُس کی شخصیت پیچھے نہیں رہنی چاہیے۔ اگر اِتنا نہ ہوسکے تو پھر اپنی تلاش میں نکلنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں۔اگر آپ کامیابی کے لیے سنجیدہ ہیں تو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ جب کامیابی ممکن بنالی جائے گی تب زندگی کیسی ہونی چاہیے۔ اگر کامیابی محض دولت دے اور دل کو سُکون عطا نہ کرے تو شدید الجھنیں پیدا کرتی ہے۔ کامیابی کے لیے سنجیدہ ہونا جتنا ضروری ہے اُتنا ہی ضروری ہے اُس سے مستفید ہونے کے لیے تیار رہنا۔ کامیابی ایسی ہونی چاہیے کہ آپ کی شخصیت کُھل کر، کِھل کر، نکھر کر سامنے آئے یعنی آپ کی تلاش ختم ہو۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved