راولپنڈی میں گزرے ہوئے ماہ و سال کو یاد کرتا ہوں تو یوں لگتا جیسے وہ سب ایک خواب تھا۔اس وقت مجھے ایسا لگتا تھا یہ خواب کبھی ختم نہیں ہو گا۔ کالج کے بعد رات گئے تک میں دوستوں کے ہمراہ کبھی کالج روڈ کے زم زم کیفے‘ کبھی صدر کی کتابوں کی دکانوں ‘ کبھی برلاس ہوٹل اور کبھی کامران ہوٹل میں چائے کی محفلوں میں وقت گزارتا۔ ان محفلوں میں ہماری گفتگو کا محور کتابیں اور ادیب ہوتے یا پھر سیروز ‘ او ڈین اور پلازہ سینما پر آنے والی نئی انگریزی فلموں پر گفتگو ہوتی۔ گھر کا ماحول بھی کتابوں کے ذکر سے آباد تھا۔ انگریزی‘ اردو اور پنجابی کی نثر اور شاعری کی کتابیں ہمارے گھر کی لائبریری میں تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مختلف شہروں میں نیشنل سنٹرز تھے جہاں ہر روز کوئی نہ کوئی تقریب ہوتی؛ کبھی مشاعرہ ‘ کبھی مباحثہ‘ کبھی سیمینار ۔ انہیں دنوں میر ی شناسائی پنجابی کی ایک ایسی کتاب سے ہوئی جس نے مجھے چونکا دیا تھا۔ یہ پنجابی کے معروف شاعر موہن سنگھ کی شاعری کی کتاب ''ساوے پتر‘‘ (ہرے پتے )تھی۔ مختصر سائز کی اس کتاب میں چھوٹی بڑی بیالیس نظمیں تھیں‘ جو اپنے اسلوب‘ صوتی اور بصری امیجز‘ جذبوں سے چھلکتے ہوئے لفظوں ‘ اپنی مٹی کی مہک میں سانس لیتے منظروں اور گہرے سماجی شور میں گندھی شاعری تھی۔ اسی کتاب میں موہن سنگھ کی ایک خوب صورت نظم ''بچہ ـ‘‘ تھی۔ اس نظم کی دو سطریں ملاحظہ کریں اور استعارے کی تہہ داری پر داد دیں۔
بچے جیہا نہ میوہ ڈٹھا
جتنا کچا اتنا مٹھا
(میں نے آج تک بچے جیسا پھل نہیں دیکھا، یہ جتنا کچا ہو اتنا ہی میٹھا ہوتا ہے)
پنجابی شاعری میں شاہ حسین‘ وارث شاہ‘ بابا فرید‘ بلھے شاہ‘ سلطان باہو‘ میاں محمد بخش جیسے بلند قامت شاعروں نے پنجابی کو باثروت بنایا۔ یہ پنجابی شاعری کا کلاسیکی شاعری کا دور تھا لیکن موہن سنگھ کی شاعری کا آہنگ جدید تھا۔ میں اس کتاب کو جوں جوں پڑھتا گیا مجھ پر موہن سنگھ کی تخلیقی صلاحیتوں کے د رو ا ہوتے گئے۔ میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ یہ کون شاعر ہے جس کی شاعری میں اپنی مٹی کی خوشبو مہکتی ہے۔ ذرا تحقیق پر پتا چلا کہ موہن سنگھ کا آبائی گھر تو دھمیال میں تھا جو میرے دلبر شہرراولپنڈی سے متصل ہے اور جہاں میرے میٹرک کے اردو کے استاد بھی رہتے تھے‘ جن سے ملنے میں کئی بار دھمیال گیا۔ اسی دھمیال میں پنجابی شاعری کو نیا آہنگ دینے والا موہن سنگھ پیدا ہوا جس نے مقدار اور معیار کے حوالے سے پنجابی شاعری میں اہم کردار ادا کیا۔
موہن سنگھ کے والد جو دھ سنگھ پیشے کے حوالے سے ڈاکٹر تھے ان کا آبائی گھر تو دھمیال میں تھا لیکن ملازمت کے حوالے سے وہ مختلف شہروں میں رہتے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ مردان میں پریکٹس کر رہے تھے۔ 1905ء میں ان کے گھر ایک بچے نے جنم لیا جس کا نام موہن سنگھ رکھا گیا۔ جلد ہی جودھ سنگھ دھمیال میں واقع اپنے آبائی گھر آگئے۔ پھر دھمیال کی انہیں گلیوں اور کھلی فضاؤں میں موہن سنگھ پلا بڑھا ۔ اس نے پانچویں جماعت تک تعلیم دھمیال کے پرائمری سکول میں حاصل کی۔ چھٹی سے آٹھویں کلاس تک تعلیم راولپنڈی کے ایک قدیمی محلے کرتار پورہ کے سکول اور پھر نویں دسویں کی تعلیم لدھیانہ کے سکول میں حاصل کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بچوں کی شادیاں جلدی کر دی جاتی تھیں۔ موہن سنگھ کی شادی بھی اٹھارہ سال کی عمر میں کر دی گئی۔ اس کی بیوی کا نام بسنت تھا۔ بسنت اپنے نام کی طرح خوبصورت تھی۔ اس سے پیشترموہن سنگھ کی شاعری میں دلچسپی کا آغاز ہو چکا تھا۔اب اس کی زندگی میں بسنت آئی تو زندگی اور حسین ہو گئی لیکن خوشیوں کا یہ عرصہ مختصر تھا۔ شادی کے چار سال بعد ہی بسنت کا انتقال ہو گیا۔ یہ حادثہ موہن سنگھ کی زندگی میں ایک گہرا خلا چھوڑ گیا جس کا اثر آخر دم تک رہا۔ چھ سال گزر گئے پھر دوستوں کے کہنے پر اس نے سرجیت کور سے شادی کر لی۔ اب اس نے منشی فاضل کا امتحان پاس کر لیا تھا اور پنجاب کے ایک قصبے خانیوال کے ایک سکول میں پڑھانا شروع کر دیا تھا۔ لیکن یہ موہن سنگھ کی منزل نہیں تھی وہ آگے اور آگے پڑھنا چاہتا تھا۔ اس نے اورینٹل کالج سے فارسی میں ایم اے کیا اور امرتسر کے خالصہ کالج میں ملازمت کا آغاز کیا۔ یہ عرصہ موہن سنگھ کے لیے فنی زندگی کا اہم موڑ تھا یہیں پر اسے سنت سنگھ سیکھوں ‘تیجا سنگھ اور گوربچن سنگھ کی محفلیں میسر آئیں۔ ان محفلوں میں کتنے ہی ادبی موضوعات زیرِ بحث آتے۔ مختلف زبانوں میں ادبی رجحا نات پر بحث ہوتی‘ یہیں پر اسے مغربی ادب کو پڑھنے کا موقع ملا جس کے اثرات اس کی شاعری میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ موہن سنگھ کی شاعری کا آغاز ایک رومانوی شاعر کے طور پر ہوا جس میں جذبوں کی شدت اور ٹوٹ کر چاہنے کی کیفیت ہے‘ لیکن جوں جوں اس کا فنی سفر آگے بڑھا اس کی شاعری میں ترقی پسندی کا رنگ غالب آنے لگا۔ موہن سنگھ بجا طور پر جدید پنجابی شاعری کا ایک اہم نام تصور کیا جا تا ہے۔ اس کی نظمیں پڑھتے ہوئے کبھی افسانے اور کبھی ڈرامے کا گمان ہوتا ہے۔ موہن سنگھ کی ایسی ہی نظم ''امبی دے بوٹے تھلے‘‘ (آم کے درخت کے نیچے)ہے۔
اک بوٹا امبی دا/گھر ساڈے لگا نی/ جس تھلے بہنا نی/ سرگاں وچ رہنا نی/ کی اس دا کہنا نی/ ویڑے دا گہنا نی/ پرماہی باجوں نی/ پردیسی باجوں نی/ ایہ مینوں وڈدا اے/ تے کھٹا لگدا اے
( آم کا ایک درخت ہمارے گھر میں ہے۔ جس کے نیچے بیٹھنا جنت میں بیٹھنے کے مترادف ہے۔ اس کے بارے میں کیا کہوں یہ تو ہمارے صحن کا زیور ہے لیکں میرا محبوب پردیس میں ہے اور اس کے بغیر یہ درخت مجھے کاٹتا بھی ہے اور کھٹا بھی لگتا ہے)
یہ ایک طویل نظم ہے جس میں گیت کا آہنگ اور معصوم جذبوں کی خوبصورت عکاسی ہے۔ موہن سنگھ کی نظم ''رب‘‘ کا شمار اس کی چند بہترین نظموں میں ہوتا ہے۔ یہ ایک طویل نظم ہے جس میں کھوج اور اس کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کا ذکر ہے۔ اس کی چند سطریں ملاحظہ کریں:
رب اک گنجھل دار بجھارت/ رب اک گورکھ دھندہ/ کھولن لگیاں پیچ ایس دے/ کافر ہو جائے بندہ/ کافر ہونوں ڈر کے جیویںکھوجوں مول نہ کھنجیں/ لائی لگ مومن کو لوں/ کھوجی کافر چنگا
اب موہن سنگھ بطور شاعر مشہور ہو چکا تھا لیکن پنجابی زبان کی ترویج کے لیے کچھ مختلف کرنا چاہتا تھا۔ تب اس نے پنجابی کے معروف رسالے ''پنج دریا‘‘ کا آغاز کیا جس کا پنجابی ادبی رسالوں میں ایک اہم مقام ہے۔ موہن سنگھ کی بے قرار روح اب بھی مطمئن نہ ہوئی تو اس نے 1939ء میں نوکری چھوڑ کر لاہور میں اپنے اشاعتی ادارے کا آغاز کیا۔ یہ ادارہ کامیابی سے چلتا رہا حتیٰ کہ 1947ء کی تقسیم کا سال آ گیا۔ سرحد کے دونوںطرف فسادات شروع ہو گئے۔ موہن سنگھ سوچنے لگا ''تو کیا وہ لاہور اور راولپنڈی سے جدا ہو جائے گا۔ وہ گلی کوچے اس کے لیے پرائے ہو جائیں گے جہاں اس نے اپنے بچپن اور لڑکپن کے دن رات گزارے تھے۔ جہاں اسے بسنت پہلی بار ملی تھی جس نے اس کی زندگی میں رنگ بکھیر دیے تھے۔ پھر وہ دن آ ہی گیا جب وہ سرحد کی لکیر پار کر رہا تھا۔ اپنے دلبر شہر کو چھوڑ کر ہندوستان جا رہا تھا۔ اس کے دل کا عجیب عالم تھا۔ وہ بار بار پیچھے مڑ کر دیکھ رہا تھا۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ اپنی ذات کا ایک حصہ یہیں چھوڑ کر جا رہا ہے۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved