تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     08-03-2023

الیکشن کمیشن متحرک

صدرِ مملکت کی طرف سے پنجاب میں اگلے عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد الیکشن کمیشن صوبے میں انتخابات کے انعقاد کی تیاریوں میں مصروف ہے اورآئین کے آرٹیکل 220 کے تحت اپنے وسائل بروئے کار لانے کا مجاز ہے۔الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریوں کی آئین اور قانون کے مطابق ادائیگی کے لیے آئین کے آرٹیکل 218 سے بھی معاونت حاصل کر سکتا ہے؛ تاہم الیکشن کمیشن میں اس وقت کئی سیاسی شخصیات کے کیسز زیر سماعت ہیں اور اس کی بنا پر الیکشن کمیشن کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے‘ لیکن امیدکی جاتی ہے کہ الیکشن کمیشن تحمل آئین و قانون کے مطابق اپنے فرائض اداکرے گا اور مقدمات کو بھی منطقی انجام تک پہنچائے گا۔ الیکشن کمیشن میں زیر سماعت مقدمات میں اہم ترین پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کا کیس ہے‘ جس کا گزشتہ سال اگست میں فیصلہ سنایا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے اپنی مرضی سے غیر ملکی باشندوں سے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی‘ عمران خان پاکستانی قوانین کے تحت اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہے اور یہ بات ثابت ہوگئی کہ تحریک انصاف نے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی۔ تحریک انصاف کی طرف سے اس فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا جبکہ گزشتہ مہینے کے اوائل میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی درخواست مسترد کردی تھی۔ اب اگر ممنوعہ فنڈنگ کیس کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رہتا ہے اور خان صاحب کسی سٹیج پر جا کر نااہل قرار پاتے ہیں تو اس سے پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ پارٹی کا نشان بھی واپس لیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح الیکشن کمیشن میں عمران خان‘ فواد چودھری اور اسد عمر کے خلاف الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 10کے تحت توہین الیکشن کمیشن کا کیس بھی زیر سماعت ہے‘جس میں مسلسل غیر حاضری پر الیکشن کمیشن نے عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے انہیں 14 مارچ کو پیش کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔اس سے قبل بھی توہین الیکشن کمیشن کیس میں عمران خان ‘ اسد عمر اور فواد چودھری کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں لیکن خان صاحب اس کیس میں تب بھی پیش نہیں ہوئے تھے جس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ خان صاحب اور تحریک انصاف کے دیگر رہنما الیکشن کمیشن کے اختیارات کسی خاطر میں نہیں لاتے۔اس کیس میں نامزدشخصیات نے مختلف ہائی کورٹس سے حکم امتناعی حاصل کیا ہوا تھا‘ جسے سپریم کورٹ نے خارج کر کے الیکشن کمیشن کو اپنے اختیارات بروئے کار لانے کی اجازت دی تھی۔ شنید ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس تقریباً دو سال کا وہ تمام ریکارڈ محفوظ ہے جس میں الیکشن کمیشن کے خلاف ایسی بیان بازی کی گئی جو ادارے کی ساکھ کو متاثر کرنے کا باعث بنی۔ الیکشن کمیشن کے پاس محفوظ ریکارڈ کی بنا پر سنائے گئے فیصلے کو گوکہ اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کرنے کا آئینی حق خان صاحب کے پاس محفوظ ہوگا لیکن خان صاحب اس ریکارڈ کو کیسے غلط ثابت کریں گے جس میں وہ الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کے خلاف سخت زبان استعمال کر رہے ہیں؟
میں سمجھتا ہوں کہ توشہ خانہ کیس میں بھی خان صاحب کی پوزیشن کمزور ہے اور خان صاحب کی موجودہ سیاسی جدوجہد دراصل اپنے خلاف توہین الیکشن کمیشن‘ ممنوعہ فنڈنگ کیس اور توشہ خانہ کیس ختم کرانے کے لیے ہی ہے۔الیکشن کے جلد انعقاد کے لیے ڈالے جانے والے دباؤ کے پیچھے بھی یہی عوامل کار فرما ہیں۔
اُدھر گورنر خیبر پختونخوا بھی صوبے میں انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کو مشاورت کا عندیہ دے چکے ہیں اور جلد یا بدیر وہاں بھی انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو جائے گا۔ دونوں صوبوں میں انتخابات کا بگل بجنے کے بعد الیکشن کمیشن ان دونوں صوبوں میں عام انتخابات‘ جو کہ پانچ سال کے لیے ہوں گے‘ کا الیکشن شیڈول جاری کرنے والا ہے۔ ممکن ہے کہ اگلے چند دنوں میں الیکشن شیڈول جاری ہو جائے۔ الیکشن شیڈول جاری ہونے کے بعد الیکشن کمیشن انتخابی اخراجات اور صوبوں میں انتخابات کے پُر امن انعقاد کے لیے تمام وفاقی اور صوبائی حکام کے ساتھ مشاورتی عمل شروع کرے گا ۔ شفاف اور آزادانہ الیکشن کے انعقاد کے لیے بھی الیکشن کمیشن کو روڈمیپ تیار کرنا ہو گا تاکہ کسی بھی جماعت کی طرف سے دھاندلی کا الزام لگا کر انتخابات کو متنازع نہ بنایا جا سکے۔ پنجاب میں الیکشن کمیشن کا پولنگ عملہ تقریباً سات لاکھ افراد پر مشتمل ہو گا جبکہ پولنگ سٹیشنوں کی تعداد 54 ہزار کے لگ بھگ ہو گی۔ الیکشن کمیشن کی واحد ذمہ داری شفاف اور آزادانہ انتخابات ہیں‘ جن کے انعقاد میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جانی چاہئیں۔
دوسری طرف ایسی افواہیں بھی سننے میں آ رہی ہیں کہ موجودہ معاشی حالات اور امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر انتخابات مؤخر بھی ہو سکتے ہیں‘ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایسی افواہوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ماضی کے تجربات کی روشنی میں میرا یہ ماننا ہے کہ ملک میں 1970ء سے 2018ء تک جتنے بھی عام انتخابات ہوئے ہیں‘ ان کے انعقاد سے پیشتر ایسی ہی افواہیں پھیلائی جاتی رہی ہیں اور بعد ازاں الیکشن اپنی مقررہ وقت پر ہی ہوئے۔ بعض صورتوں میں کسی سنگین صورتِ حال کے پیش نظر چند ہفتوں کے لیے الیکشن مؤخر ضرور ہوئے لیکن بالآخر ہو کر رہے جیسا کہ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد الیکشن 8 جنوری 2008ء کے بجائے 18 فروری کو کرائے گئے تھے۔
اس وقت ملک کو جس معاشی صورت حال اور دہشت گردی کے جن سنگین خطرات کا سامنا ہے‘ ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے سیاسی استحکام اولین شرط ہے مگر بدقسمتی سے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے اس حوالے سے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ حکمران اتحاد کی اہم جماعت پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری مسائل حل کرنے کے بجائے وفاقی کابینہ سے علیحدہ ہونے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ دیگر اتحادی جماعتیں بھی اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں اور مسلم لیگ (ن)‘ جو وزارتِ عظمیٰ سمیت اکثریتی حکومتی عہدوں پر براجمان ہے‘ حالات پر قابو پانے سے قاصر نظر آتی ہے۔ ایسی صورتِ حال میں نئے انتخابات کا انعقاد ہی مسائل کا حل دکھائی دیتا ہے۔ نئے انتخابات سے معاشی مسائل حل ہوتے ہیں یا یہ مزید دو چند ہو جائیں گے‘ یہ ایک الگ بحث ہے لیکن اس سے ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام میں کسی حد تک کمی ضرور واقع ہو گی۔ لازم ہے کہ سیاسی جماعتیں اس ضمن میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ ملکی حالات جس نہج تک پہنچ چکے ہیں اُس کے بعد ذاتی مفادات پس پشت ڈال دینے چاہئیں اور صرف ملکی مفادات ہی ہر جماعت کی اولین ترجیح ہونے چاہئیں۔ ملک مارچ 2022ء سے جس سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے‘ اب وہ ختم ہو جانا چاہیے کہ اس دوران ملکِ عزیز ناقابلِ تلافی نقصان اٹھا چکا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved