تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     08-03-2023

یوکرین کی جنگ: مستقبل کے تناظر میں … (2)

حال ہی میں پہلے بھارت کے شہر بنگلور اور پھر نئی دہلی میں G-20 کے وزرائے خارجہ کی کانفرنسوں کے انعقاد کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری نہ کیا جا سکا‘ کیونکہ چین اور بھارت نے یوکرین کے مسئلے پر امریکی مؤقف سے اتفاق کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس سے پہلے 23 فروری کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایک سیشن میں پیش کردہ ایک قرار داد پر‘ جس میں روس کی یوکرین میں مداخلت کو اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیا گیا تھا‘ ووٹنگ کے دوران بھارت نے غیر حاضر رہ کر امریکہ کو مایوس کیا تھا۔ اس قرار داد پر‘ جس کے حق میں اقوام متحدہ کے 141رکن ممالک نے ووٹ دیا ‘ ووٹ نہ دینے والے دیگر (32) ممالک میں پاکستان اور چین بھی شامل تھے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اسی اجلاس کے موقع پر امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن نے چین پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ یوکرین کی جنگ میں استعمال کے لیے روس کو ہتھیار سپلائی کرنے پر غور کر رہا ہے۔ مسٹر بلنکن نے چین کو خبردار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ چین اس اقدام سے باز رہے‘ بصورت دیگر اس کا خمیازہ بھگتنے کیلئے تیار ہو جائے۔
اس کے ساتھ ہی امریکہ کی طرف سے تائیوان کو جدید ترین ہتھیار سپلائی کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ ان ہتھیاروں میں ایف 16 لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں۔ چین کی طرف سے امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ کی دھمکی اور تائیوان کے لیے امریکی ہتھیاروں کی سپلائی دونوں پر سخت رد عمل آیا۔ چینی وزارتِ خارجہ کی طرف سے ایک بیان میں چین نے امریکہ پر واضح کیا کہ وہ روس کے ساتھ سٹریٹجک پارٹنر شپ کی بنیاد پر اپنے تعلقات کو امریکی دباؤ کے تحت تبدیل نہیں کرے گا اور یہ کہ امریکہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ تائیوان چین کا حصہ ہے اور اسے امریکی ہتھیاروں کی فراہمی ایک ایسی اشتعال انگیزی ہے جس کا جواب دینے کے لیے چین کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ یوکرین کے مسئلے پر چین اور روس کے اتحاد کو امریکہ کمزور کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکا؛ البتہ نئی دہلی میں جی 20 وزرائے خارجہ کی کانفرنس کے فوراً بعد امریکہ‘ جاپان‘ آسٹریلیا اور بھارت کی مشترکہ تنظیم Quadکے ایک اجلاس میں امریکہ نہ صرف روس کے خلاف یوکرین کے بارے میں بلکہ بحیرہ جنوبی چین کے مسئلے پر بھی چین کے خلاف اپنی مرضی کا مشترکہ بیان حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ مشترکہ بیان جو کہ امریکی‘ جاپانی‘ آسٹریلوی اور بھارتی وزرائے خارجہ کی طرف سے جاری کیا گیا ہے‘ اس میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق یوکرین میں ''منصفانہ اور مستقل امن‘‘ کے قیام پر زور دیا گیا ہے۔ اسی طرح بحیرہ جنوبی چین میں بین الاقوامی قانون کے مطابق جہاز رانی کی حمایت کرکے مشترکہ بیان میں چین کے مؤقف کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ یوکرین کے مسئلے پر روس کے خلاف امریکی سفارتی سرگرمیاں انہی اقدامات تک محدود نہیں بلکہ ایک عرصے کے بعد امریکہ نے وسطی ایشیا کے دو اہم ممالک قازقستان اور ازبکستان سے رابطہ کیا ہے۔
نئی دہلی میں G-20 وزرائے خارجہ کانفرنس میں شرکت سے پہلے امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ نے قازقستان اور ازبکستان کا دورہ کیا اور ان دو ملکوں کی قیادت کو یوکرین میں روس کی مسلح مداخلت سے علاقے میں امن اور استحکام کو لاحق خطرات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی۔ اگرچہ امریکہ اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے درمیان تجارتی اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں اہم تعلقات ہیں مگر آستانہ اور تاشقند میں مسٹر بلنکن کی میزبان ملکوں کے وزرائے خارجہ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں بیانات سے پتا چلتا ہے کہ امریکہ قازقستان اور ازبکستان کو یوکرین میں روس کی فوجی مداخلت سے مبینہ طور پر لاحق خطرات پر قائل نہیں کر سکا۔ لیکن وسطی ایشیا پر ایک امریکی ماہر کی رائے میں امریکہ کو یقین ہے کہ مستقبل قریب میں امریکہ وسطی ایشیائی ریاستوں کی یوکرین کے مسئلے پر حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ اگر اس کا اس وقت امکان نظر نہیں آتا تو اس کی وجہ سکیورٹی‘ تجارت اور مواصلاتی رابطوں کے شعبوں میں وسطی ایشیائی ریاستوں کا روس پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ یوکرین کی جنگ کی وجہ سے ایک طرف تو روس اور نیٹو ممالک کے درمیان تصادم کا خطرہ اور کشیدگی بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف امریکہ روس پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کے لیے عالمی سفارت کاری میں مصروف ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جنگ کا ایک سال مکمل ہونے کے بعد فریقین ایک بڑی اور وسیع تر جنگ کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ نئی دہلی میں G-20 وزرائے خارجہ کی کانفرنس میں شرکت کرنے والے ڈچ وزیر خارجہ نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ دنیا کا کوئی حصہ اور کوئی ملک خوراک‘ توانائی‘ صحت اور موسمی تغیرات کے لحاظ سے یوکرین کی جنگ کے اثرات سے محفوط نہیں رہا۔ بعض ممالک کی معیشت پر اس جنگ کا اثر زیادہ پڑا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے جہاں بیرونی زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی‘ بیرونی ادائیگیوں میں عدم توازن‘ کرنسی کی قدر میں کمی‘ برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ ہوا ہے اور ان سب عوامل کے مجموعی اثرات کے نتیجے میں آسمان کو چھوتی اشیائے خور و نوش اور تیل اور گیس کی قیمتیں‘ صنعتی پیداوار میں کمی اور بے روزگاری جیسے مسائل پورے ملک کو گھیرے ہوئے ہیں۔
پاکستان کی معاشی حالت کی خرابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ دنوں ڈالر مہنگا ہو کر ریکارڈ 285 روپے کی سطح پر پہنچ گیا تھا۔ اگر ایک سال کی تباہ کن جنگ آئندہ بھی جاری رہتی ہے تو دنیا کے ان متاثرہ ملکوں کا کیا حال ہو گا‘ یہ سوچ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کیونکہ عوام کے لیے موجودہ صورتحال بھی ناقابلِ برداشت ہوتی جا رہی ہے کیونکہ عالمی اقتصادی ادارے سے قرض کے حصول کے لیے تیل اور گیس کے نرخوں میں حال ہی میں بے تحاشا اضافہ کیا گیا تھا جس کے اثرات مہنگائی کے بے لگام ہونے کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔ اگر یوکرین کی جنگ جاری رہی تو یہ اثرات مزید شدت اختیار کر جائیں گے۔
سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ یوکرین کی جنگ نے ایسے بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں کو بھی متاثر کرنا شروع کر دیا ہے‘ جن کے قیام کا مقصد دنیا میں غربت کا خاتمہ‘ موسمیاتی تبدیلیوں سے بنی نوع انسان کو محفوظ رکھنا اور خوشحالی کے فروغ کے لیے پائیدار اقتصادی ترقی میں مدد فراہم کرنا تھا۔ G-20 ایک ایسا ہی ادارہ ہے۔ یوکرین کی جنگ سے پہلے اس کے سالانہ اجلاسوں کے ایجنڈے میں مندرجہ بالا مسائل کے حل کے لیے متفقہ فیصلے کیے جاتے تھے۔ مگر اب یوکرین کی جنگ نے ان مقاصد کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ اس کی وجہ امریکہ کی طرف سے اس پلیٹ فارم سے یوکرین میں روس فوجی مداخلت کی مذمت کا حصول ہے‘ جس کی روس اور چین اجازت دینے کے لیے تیار نہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ ایسے اداروں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔
بھارت میں G-20 کی دو اہم کانفرنسوں میں پیدا ہونے والے ڈیڈ لاک کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ حالات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں‘ اس کے بارے میں ابھی واضح طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ واضح ہے کہ روس یوکرین جنگ نے اگر طوالت اختیار کی یا اس میں شدت پیدا ہوئی تو اس کے عالمی سیاست اور معیشت پر منفی اثرات سے بچنا کسی ملک کے لیے بھی ممکن نہیں رہے گا۔ اس لیے میرے خیال میں اس جنگ کو ہوا دینے کے بجائے اسے بجھانے کی کوششوں میں تیزی لانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved