انسانی زندگی میں مختلف طرح کے لمحات آتے رہتے ہیں۔ زندگی میں کہیں خوشیاں ہیں تو کہیں غم، کہیں مسرتیں ہیں تو کہیں ابتلائیں۔ انسانی زندگی مختلف طرح کے ادوار سے گزرتے ہوئے بالآخر خاتمے پر منتج ہوتی ہے۔ دنیا میں چند عشرے زندگی گزارنے کے بعدہر شخص دنیا کو خیرباد کہہ دیتا ہے۔ انسانی زندگی میں نہایت برق رفتاری سے تغیر رونما ہوتا رہتا ہے‘ انسان اس کے بارے میں گمان بھی نہیں کر سکتا۔بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے کا دور نہایت تیزی سے انسانی زندگی میں داخل ہوتا ہے۔ جو انسان گزرتے ہوئے وقت سے صحیح طور پر استفادہ کرتا ہے وہ کامیاب اور کامران ٹھہرتا ہے اور جو شخص وقت کو گنوا بیٹھتا ہے یقینا وہ ناکام اور نامراد رہتا ہے۔ انسان اگر اپنے ماضی پر غور کرے تو اس کو یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اس کی زندگی کے بہت سے عشرے آناً فاناً گزر گئے۔
جب میں اپنے ماضی پر نظر دوڑاتاہوں تو مجھے بھی اپنی زندگی کا سفر نہایت برق رفتاری سے گزرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ سکول کے ایام ہوں یا کالج‘ یونیورسٹی کے دن، یوں محسوس ہوتا ہے کہ وقت انتہائی تیز رفتار ی سے گزر گیا۔ میری عمر 23 برس کے قریب تھی جب میں رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مجھے اولاد کی نعمت سے نوازا اور وہ بچے دیکھتے ہی دیکھتے جوانی کی سرحدوں میں داخل ہو گئے۔ چندماہ قبل میرے دوسرے بیٹے موذن الٰہی نے انجینئرنگ کی ڈگری نمایاں گریڈ کے ساتھ حاصل کی تو اس کی شادی کے حوالے سے غور وخوض کرنا شروع کیا۔ محمد عمران میرے بچپن کے دوست ہیں اور گزشتہ چار عشروں کے دوران تقریباً ہر ہفتے ہم ایک دوسرے کے ساتھ ملاقات کرتے رہے ہیں۔ میری اور محمد عمران کی دوستی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی اور بالآخر ہمارا یہ دوستانہ تعلق باہم رشتہ داری میں تبدیل ہو گیا اور موذن الٰہی کی شادی محمد عمران کی صاحبزادی کے ساتھ طے پا گئی۔ 24 فروری کو موذن بیٹے کا نکاح تھا۔ نکاح پڑھانے کے لیے بعض جید علماء کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر وہ اپنی مصروفیات کی وجہ سے ٹائم دینے سے قاصر رہے تو موذن بیٹے نے اس بات کی فرمائش کی کہ میں خود اس کا نکاح پڑھاؤں۔ اسی طرح 4 مارچ کو میری ہمشیرہ کی صاحبزادی بھی رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں اور اس موقع پر بھی مجھے ہی نکاح پڑھانے کے لیے کہا گیا۔ میں نے ان دونوں تقریبات میں نکاح پڑھانے کے دوران عجیب کیفیت کو محسوس کیا۔ دوست احباب کے نکاح کی تقریبات میں شرکت کرنا الگ بات ہے لیکن اپنے بیٹے یا اپنی بھانجی کانکاح خود پڑھانا ایک الگ ذمہ داری ہے۔ اس کیفیت کے دوران جہاں میں نے خوشی کو اپنے دل میں اُمڈتا ہوا محسوس کیا‘ وہیں نکاح کے حوالے سے جو اہم ذمہ داریاں ہیں ان کے بارے میں بھی غور وخوض کرتا رہا اوران ذمہ داریوں کو میں نے نکاح کے موقع پر دیے جانے والے خطبات میں بھی بیان کیا۔ جن گزارشات کو اپنے خطبے میں سامعین کے سامنے رکھا‘ ان کو میں قارئین کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں:
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نباء کی آیت نمبر8 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور ہم نے پیدا کیا تمہیں جوڑا جوڑا‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ یٰسین میں بھی اس حقیقت کو واضح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے نباتات، انسان اور بہت سی نامعلوم مخلوقات کو جوڑوں میں پیدا کیا ہے۔ سورہ یٰسین کی آیت نمبر 36 میں ارشاد ہوا: ''پاک ہے وہ (ذات ) جس نے جوڑے پیدا کیے وہ سب کے سب‘ ان میں سے (بھی) جواگاتی ہے زمین اور خود ان سے اور ان چیزوں سے‘ جنہیں وہ نہیں جانتے۔‘‘ ان آیات مبارکہ میں مخلوقات کے جوڑوں کا ذکر کیا گیا اور انہی جوڑوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ روم میں اپنی نشانیاں قرار دیا اور یہ بات بھی ارشاد فرمائی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان جوڑوں اور شرکائے زندگی کو انسانوں کے لیے سکون کا ذریعہ بنایا اور انسانی جوڑوں میں باہم مودّت اور رحمت کو پیدا کیا۔ سورۂ روم کی آیت نمبر21 میں ارشاد ہوا: ''اور اُس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اُس نے پیدا کیا تمہارے لیے تمہارے نفسوں (یعنی تمہاری جنس) سے بیویوں کو تاکہ تم سکون حاصل کرو اُن کی طرف (جا کر) اور اُس نے بنادی تمہارے درمیان محبت اور مہربانی‘ بے شک اس میں یقینا نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے (جو) غوروفکر کرتے ہیں‘‘۔
شوہر اور بیوی کی زندگی اور تعلقات کے حوالے سے قرآن وسنت میں بہت ہی خوبصورت اور اہم باتیں مذکور ہیں اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ نساء کی آیت نمبر19 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور زندگی بسر کرو اُن کے ساتھ اچھے طریقے سے‘ پھر اگر تم نا پسند کرو اُن کو تو ہوسکتا ہے کہ تم ناپسند کرو کسی چیز کو اور رکھ دی ہو اللہ نے اُس میں بہت بھلائی‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ بقرہ میں اس حقیقت کو واضح فرما دیا کہ عورتوں کے بھی مردوں ہی کی مانند حقوق ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر228 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور اُن (عورتوں) کے لیے (ویسے ہی حقوق ہیں) جس طرح ان پر (مردوں کے حقوق ہیں) دستور کے مطابق‘‘۔
نبی کریمﷺ کے احکامات اور آپﷺ کی زندگی ہمارے لیے ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپﷺ نے جہاں بھرپور سیاسی، مذہبی اور سماجی زندگی گزاری‘ وہیں آپﷺ نے مثالی عائلی زندگی بھی گزاری۔ آپﷺنے اپنے اہلِ خانہ سے بہترین سلوک کیا اور جملہ گھریلو کاموں میں اُن کی معاونت کرکے مسلمانوں کو اس بات کا سبق دیا کہ اہلِ خانہ کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا چاہیے۔آپﷺ نے اس شخص کو بہترین قرار دیا جو اپنے اہلِ خانہ سے اچھا سلوک کرتا ہے۔ آپﷺ نے اس بات کا بھی ذکر فرمایا کہ میں اپنے اہلِ خانہ سے بہترین سلوک کرنے والا ہوں۔ نبی کریمﷺ کی حیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ شوہر اور بیوی کا محبت اور مودت کا تعلق ہونا چاہیے اور انہیں کسی بھی طور پر ایک دوسرے کو حقیر نہیں جاننا چاہیے۔آپﷺ نے ہمیں سبق دیا کہ ازدواجی تعلق اُنسیت، شفقت، ایثار اور خلوص کا تعلق ہے۔ اگر ہم ان تعلیمات پر کاربند رہیں تو ہمارے گھرانے مثالی گھرانوں کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔
اس مہینے میں جہاں مجھے خوشی کی تقریبات میں شرکت کا موقع ملا‘ وہیں کئی دُکھ بھری باتوں کو بھی سننے کا موقع ملا۔انہی ایام میں معروف قاری نوید الحسن لکھوی اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں ان کو قرآنِ مجید پڑھنے کا بہترین ملکہ عطا فرمایا تھا وہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو خوش اخلاقی سے بھی نوازا تھا۔ وہ لوگوں کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے اور ہر کسی کی بات کو نہایت تحمل اور بردباری سے سنتے۔ وہ ایک بہترین اُستاد تھے۔ تلاوتِ قرآنِ مجید کی مجالس میں وہ اکثروبیشتر تلاوت کیا کرتے اور سننے والے ان کی پُراثر تلاوت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا کرتے تھے۔ قاری نوید الحسن لکھوی کا انتقال ملک بھر کے لیے بالعموم اور فیصل آباد کے لیے بالخصوص ایک بہت بڑے صدمے کی خبر تھی۔ قاری صاحب کے جنازے میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے۔ ان کا غائبانہ جنازہ میں نے مرکزِ قرآن وسنہ لارنس روڈ‘ لاہور پر بھی ادا کیا اور اللہ تبارک وتعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ قاری نوید الحسن کی خطاؤں کو معاف کرکے ان کے درجات کو بلند فرمائے۔ انہی ایام میں ڈی آئی جی طیب حفیظ چیمہ‘ جو میرے کلاس فیلو بھی ہیں‘ کے بھائی طاہر چیمہ کا انتقال ہو گیا۔ اس انتقال کی خبر نے میرے ذہن کی سکرین پر ماضی کے بہت سے واقعات کو چلانا شروع کر دیا اور وہ ایام یاد آنا شروع ہو گئے جب ہم پچپن میں طیب بھائی کو ملنے جاتے تو طاہر بھائی سے بھی ملاقات ہو جایا کرتی تھی۔ ان کا انتقال یقینا بہت بڑی صدے کی خبر تھی۔
قریبی دوست اور ساتھی مولانا عبدالمنان شورش کے والد گرامی کا انتقال بھی بہت بڑی صدمے کی خبر تھی۔ کہیں خوشی اور کہیں صدمے کی یہ خبریں درحقیقت زندگی کی حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ زندگی کا کوئی ایک رُخ نہیں بلکہ زندگی مختلف انداز سے گزرتی رہتی ہے۔ حقیقی کامیابی اسی شخص کو حاصل ہو گی جو دکھ اور سکھ، رنج اور خوشی میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرے گا۔ خوشی کے موقع پر شکر اور غم کے موقع پر صبر کے دامن کو ہاتھ سے نہ چھوڑنے والے لوگ درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو خوشی اور غم کا سامنا اس انداز میں کرنے کی توفیق دے جس انداز میں کتاب وسنت میں ان چیزوں کا سامنا کرنے کی ہدایت جاری کی گئی ہیں، آمین !
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved