کچھ لوگ یا کچھ حلقے ہیں جو کسی نہ کسی طور پاکستان کو ناکامی سے دوچار کرنے پر تُلے ہوئے ہیں اور بات بات پر بالاصرار کہتے ہیں یہ ملک ایک ناکام ریاست ہے۔ ایسی کوئی بھی بات کہتے وقت انسان کو تھوڑا سوچنا پڑتا ہے مگر ہمارے ہاں اب یہ تکلف بھی روا نہیں رکھا جارہا۔ ملک سے محبت کا تقاضا ہے کہ انسان اِس کے بارے میں برا سوچے نہ برا کہے۔ ناکام ریاستیں بہت سی ہیں مگر اُن کے حالات اور ہمارے حالات میں بہت واضح فرق ہے۔ کسی بھی ریاست میں جب سسٹم مکمل طور پر ناکام ہو جائے اور اُس کا نام و نشان بھی مٹ جائے تب معاملات درست کرنے کی کوئی صورت نہیں بچتی اور یوں اُس ریاست کو ناکام قرار دینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی۔ پاکستان ناکام ہے یا نہیں‘ ناکام ہے تو کس حد تک‘ یہ معاملات کسی فرد یا چند افراد کے کھاتے میں نہیں ڈالے جاسکتے۔ کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے کہ کچھ بھی کہے اور لکھ مارے۔ میڈیا کو اس حوالے سے اپنا کردار پورے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔حساس ترین معاملات ہم سے تھوڑی بہت حساسیت کے متقاضی ضرور ہیں۔ ریاست کو چلانے کے لیے نظام ہوا کرتا ہے‘ مشینری ہوا کرتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ مشینری اب تک موجود ہے اور بہت حد تک کام بھی کر رہی ہے۔ کسی سسٹم میں خرابیوں کے پائے جانے اور سسٹم کے مکمل ناکارہ ہوجانے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ جب سسٹم مکمل ناکام ہو جائے تب کوئی امید باقی نہیں رہتی۔ کرپشن جب انتہا کو پہنچ جاتی ہے تب ریاست اپنے آپ کو سنبھال نہیں پاتی ۔ ہمارے ہاں کرپشن کا دائرہ وسعت اختیار کرتا گیا ہے۔ اِس کے نتیجے میں حکومتی اور ریاستی مشینری کے پُرزوں میں خرابیاں بڑھتی گئی ہیں۔ کیا لازم ہے کہ ہر خرابی پر انتہائی نوعیت کی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے خود بھی پریشان ہوا جائے اور دوسروں کو بھی پریشانی سے دوچار کیا جائے؟ پریشان ہونا فطری امر ہے مگر ایک خاص حد کے ساتھ۔ ملک کے حالات ایسے نہیں کہ بے فکری کی چادر تان کر سویا جائے۔ جو اپنے وجود کے ساتھ ساتھ وطن کے لیے بھی فکر مند ہو اُس کا حالات کی نوعیت اور شدت دیکھتے ہوئے پریشان ہو اُٹھنا فطری امر ہے۔ ہاں‘ اس معاملے کو ایک خاص حد میں رکھنے پر جتنی توجہ دی جانی چاہیے اُتنی توجہ نہیں دی جارہی۔ یہی سبب ہے کہ ہم بات بات پر جذباتی ہو اُٹھتے ہیں یا پھر مایوسی کی راہ پر گامزن ہو جاتے ہیں۔
پاکستان گوناگوں مسائل میں الجھا ہوا ہے۔ بعض معاملات میں قدم قدم پر الجھنیں ہیں۔ عام آدمی بہت زیادہ الجھا ہوا ہے۔ اُس کی زندگی کا مقصد اب صرف یہ رہ گیا ہے کہ دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے میں اپنے آپ کو کھپادے۔ پاکستان اُن چند ممالک میں شامل رہا ہے جن کا متوسط طبقہ معقول حجم کے ساتھ متحرک ہے۔ اب متوسط طبقے کی بساط لپیٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایسی پالیسیاں مرتب کی جارہی ہیں کہ ملک میں ایک طرف انتہائی مالدار لوگ ہوں اور دوسری طرف انتہائی عسرت زدہ۔ علاقائی ممالک پر طائرانہ سی نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ حالات ویسے نہیں جیسے دکھائی دیتے ہیں یا دکھائے جا رہے ہیں۔ اِس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان کے معاشی حالات بہت خراب ہیں۔ اس کے نتیجے میں معاشرتی مسائل بھی بڑھے ہیں مگر یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ہمارے پڑوس میں بھی بہت کچھ غلط سلط چل رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جن ممالک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر مستحکم ہیں اُنہیں مسائل کا سامنا ہی نہیں۔ بھارت ہی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہاں چند شعبے غیر معمولی استحکام سے ہم کنار ہیں۔ اِن شعبوں کی مدد سے بھارت دنیا بھر میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ بیرونِ ملک مقیم بھارتی باشندے کماکر جو کچھ وطن بھیجتے ہیں اُس کے نتیجے میں زرِ مبادلہ کے ذخائر مستحکم تر ہوتے جاتے ہیں مگر کیا اِسے ترقی کہا جاسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب صرف نفی میں ہے۔
بھارت میں آج بھی کم و بیش 90 کروڑ افراد انتہائی نوعیت کے افلاس کے زیرِ سایہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ چند بڑے اور درمیانے حجم کے شہروں کو چھوڑ کر مجموعی طور پر پورا ملک انتہائی غربت کا شکار ہے۔ بھارت میں صرف افلاس کا ایشو نہیں بلکہ دہشت گردی بھی ہے، ذات پات کے نام پر نچلی ذات کے ہندوؤں پر مظالم بھی ڈھائے جارہے ہیں اور انتہا پسند ہندو مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں پر جبر ڈھارہے ہیں۔ طبقاتی فرق بھی اپنی جگہ ہے۔ اس کے باوجود دنیا بھر میں بھارت کا امیج بہت اچھا رکھا گیا ہے۔ دنیا کے لیے ''سب اچھا ہے‘‘ کا انتظام کیا جارہا ہے۔ مغرب سمیت تمام بدخواہوں کے نشانے پر ہے تو صرف پاکستان۔ ہماری اندرونی خامیاں اور خرابیاں اپنی جگہ مگر اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ ہمیں مختلف جہتوں سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بڑی طاقتیں اپنی مرضی کا کھیل کھیلتی آئی ہیں۔ معیشت اور معاشرت‘ دونوں ہی حوالوں سے ہمیں یوں نشانے پر رکھا گیا ہے کہ ڈھنگ سے سانس لینے کا موقع بھی نہیں دیا جارہا۔ ایسی حالت میں دوست ممالک بھی آگے بڑھنے سے کترا رہے ہیں۔ بھارت اپنے حجم، افرادی قوت اور مالیاتی حیثیت کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ کچھ یوں بھی ہے کہ مغربی طاقتیں پاکستان کو دبوچے رکھنے کی خاطر بھارت پر ہاتھ ہلکا رکھے ہوئے ہیں۔ مغرب کی جانب داری اب کھل کر سامنے آچکی ہے۔
امریکہ کسی بھی صورت نہیں چاہتا کہ پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہو۔ خاص کوشش کے بغیر کوئی بھی اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ پاکستان کو یہ سب کچھ جوہری طاقت بننے کی پاداش میں جھیلنا پڑ رہا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے ہمیں شکنجے میں کس لیا گیا ہے۔ چند دوستوں اور ہمدردوں کے ذریعے ہماری تھوڑی بہت اشک شُوئی کا اہتمام ضرور ہوسکتا ہے مگر مجموعی طور پر حالات کی خرابی سے نمٹنے کی راہ ہمیں خود ہی نکالنی ہے۔ ہمارے ملک کو سنبھلنے کے لیے بہت کچھ کرنا ہے۔ اِس سے قبل بہت کچھ سوچنا ناگزیر ہے۔ منصوبہ سازی ہماری انتہائی بنیادی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ میڈیا کو مؤثر طور پر استعمال کرکے ملک میں ایسی رائے عامہ ہموار کرنے کی بھی ضرورت ہے جو قومی تقاضوں سے مطابقت رکھتی ہو یعنی مثبت ہو اور کسی بھی معاملے میں زیادہ یا بلا جواز طور پر مایوس ہونے کی گنجائش نہ چھوڑتی ہو۔
کھیل ابھی باقی ہے۔ معاشرہ بہت سے خرابیوں میں لتھڑا ہوا ہے۔ کرپشن بھی ہے، تساہل بھی ہے، لاپروائی بھی ہے، وقت کی ناقدری بھی ہے۔ عیوب اور بھی ہیں مگر یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم ایک ریاست کی حیثیت سے ایسے گئے گزرے نہیں کہ وجود ہی داؤ پر لگ جائے۔ آبادی بھی معقول ہے۔ انتہائی باصلاحیت پاکستانی دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواکر وطن کا نام روشن کر رہے ہیں۔ اِن باصلاحیت افراد کو اگر وطن ہی میں بہتر اور پُرکشش مواقع میسر ہوں تو قومی تعمیر و ترقی کی راہ ہموار کرنے میں دیر نہ لگے۔ اب خوش فہمی کی گنجائش ہے نہ غلط فہمی کی۔ حقیقت پسندی اب ہماری بنیادی ضرورت ہے۔ صورتِ حال جو کچھ بھی ہے‘ تسلیم کی جانی چاہیے۔ جب تک ہم صورتِ حال کو تسلیم نہیں کریں گے تب تک اُسے بہتر بنانے کے بارے میں کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔ حقیقت پسندی ہی ہمیں مسائل کا حل سجھا سکتی ہے۔ ہزار خرابیوں کے باوجود ایک دنیا مانتی ہے کہ پاکستانیوں میں غضب کی صلاحیتیں ہیں۔ ہونی ہی چاہئیں کیونکہ ہم کسی بھی صورتِ حال میں ''جگاڑ‘‘ کے عادی ہیں۔ ایک دنیا ہے کہ طے شدہ طریقِ کار کے مطابق کام کرتی ہے۔ ہمارے ہنر مند متبادل اور آسان راستوں کی تلاش بھی کرتے رہتے ہیں اور بالعموم کامیاب رہتے ہیں۔ پاکستانی دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور اُن کی ساکھ میں ''جگاڑ پسندی‘‘ بھی شامل ہے! بہر کیف، محض مایوس ہو رہنے کے بجائے ہمیں مثبت طرزِ فکر کے ساتھ مسائل کا حل تلاش کرنے پر متوجہ رہنا چاہیے۔ بڑی طاقتوں کے ایجنڈوں کو ناکام بنانے کی معقول ترین صورت یہ ہے کہ ہم سب اپنے لیے، اپنے وطن کے لیے کماحقہٗ سنجیدہ ہوں اور مطلوب لگن کے ساتھ اپنے اپنے حصے کا کام کریں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved