تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     09-03-2023

زور آوروں کی زورآوری

میں بنیادی طور پر رجائی آدمی ہوں۔ ممکنہ حد تک ہر بات کے روشن پہلو کو مدنظر رکھتا ہوں اور مثبت نتائج اخذ کرتا ہوں۔ رجائی کو انگریزی میں Optimist کہتے ہیں۔ اس کا الٹ قنوطی یعنی Pessimist ہے اور اس سے مراد ایسا شخص ہے جو ہر چیز کا تاریک پہلو دیکھے اور ہر بات کا منفی نتیجہ اخذ کرے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے خرابی سے بھی اچھائی نکلنے کی توقع رکھنے والا بنایا۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ میں مردہ شخص کے زندہ ہو جانے کی توقع رکھتا ہوں اور زہر کو امرت سمجھ لیتا ہوں۔ مایوسی تو مجھے بھی گھیرتی ہے مگر میں ہتھیار پھینکنے کے بجائے اس کے خلاف اپنے تئیں اللہ کی طرف سے عنایت کی گئی صلاحیتوں کو بھر پور انداز میں استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ یہ کوششیں اپنی جگہ‘ لیکن معاشرے میں روز افزوں بڑھتی خرابیوں پر قلم اٹھانا اور آواز بلند کرنا بہرحال مایوسی نہیں ہے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ صورتحال اب اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ بعض معاملات میں بہتری کی امید آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ خدا نہ کرے کہ یہ امید دم توڑ جائے لیکن حالات مستقبل قریب میں بھی کسی طور بہتر ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔
اس ملک میں طلوع ہونے والا ہر نیا دن نت نئی خرابی کی خبر لاتا ہے۔ قانون کا یہ عالم ہے کہ موجود تو ہے مگر دکھائی نہیں دیتا۔ امیر اور طاقتور کے سامنے قانون کی کوئی اہمیت نہیں رہی اور قانون کے سامنے کسی غریب‘ لاچار اور کمزور کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ طاقتور کو قانون کا ڈر نہیں ہے اور کمزور کو قانون سے تحفظ نہیں ہے۔ طاقتور قانون کے نام نہاد کٹہرے میں آتا ہے۔ دو چار دن خبریں لگتی ہیں چند روز بعد وہ قانون میں موجود شک نامی گھوڑے پر سوار ہو کر با عزت بری ہو جاتا ہے۔ کبھی اس کا خوف مدعی کو صلح پر مجبور کر دیتا ہے اور کبھی اس کا پیسہ قانون کا جال پھاڑ دیتا ہے۔ کم از کم میری یادداشت میں ایسا کوئی واقعہ نہیں جس میں کسی بے وسیلہ‘ بے حیثیت اور کمزور شہری کو (جسے آئین برابری کا درجہ عطا کرتا ہے) کبھی انصاف ملا ہو اور کسی طاقتور‘ صاحب ِحیثیت اور صاحب ِاقتدار شخص کو سزا ملی ہو۔
وہ ناظم سجاول جوکھیو کا قاتل جام عبدالکریم ایم این اے ہو۔ وہ شاہ زیب خان کا قاتل شاہ رخ جتوئی ہو۔ وہ نقیب اللہ محسود کا قاتل راؤ انوار ہو۔ وہ کوئٹہ کی بارونق سڑک پر ٹریفک وارڈن حاجی عطا اللہ کو اپنی گاڑی کے نیچے کچل کر مار دینے والا ممبر صوبائی اسمبلی مجید خان اچکزئی ہو۔ وہ سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں فیضان حیدر اور فہیم شمشاد کوگولی مار کر اور عباد الرحمان کو گاڑی سے کچل کر ہلاک کرنے والا سابقہ امریکی فوجی اور کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس ہو۔ حتیٰ کہ آپ اس فہرست میں عزیر بلوچ کو بھی شامل کر سکتے ہیں جو آہستہ آہستہ ہر کیس میں سے عدم ثبوت یا گواہوں کے منحرف ہونے کی بنیاد پر بری ہوتا جا رہا ہے۔ یہ تو بڑے بڑے ایسے چند کیس تھے جو مجھے یاد ہیں اس کے علاوہ بے شمار کیسز ایسے ہیں جو وقت کی دھول میں گم ہو گئے ہیں۔ کسی کو یاد نہیں کہ بلوچستان میں چند سال قبل ضلع نصیر آباد کے گاؤں ببا کوٹ میں تین لڑکیوں کو ریت میں زندہ درگور کر کے مار دیا گیا اور سینیٹر اسرار اللہ زہری نے اسے اپنی قبائلی روایت کہہ کر اس کا دفاع کیا۔ کم از کم میرے علم میں تو یہ بات ہرگز نہیں کہ اس کیس میں کسی کوسزا ہوئی ہو۔ یہ سب وہ افتادگان خاک تھے جن کے بارے میں فیض نے کہا ہے کہ
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
دراصل اب ہمارے ہاں قانون کی پکڑ غریب اور لاوارث کیلئے ہے جبکہ انہیں اس کے زیر سایہ کسی قسم کا تحفظ حاصل نہیں ہے دوسری طرف طاقتور اور صاحبِ حیثیت کیلئے قانون میں پکڑنے کی طاقت تو نہیں ہے البتہ اسے ہر قسم کا تحفظ ضرور حاصل ہے۔قانون دراصل اس ملک میں اب فلائی کلر جیسا ہے جس سے ہم مکھیاں تو بخوبی مار سکتے ہیں؛ تاہم اس سے بڑی شے کو مارنے کیلئے نہ اس میں استطاعت ہے اور نہ ہی طاقت۔ چھوٹے موٹے جرائم کو تو اب ویسے ہی جرائم کی فہرست سے نکال دیا جانا چاہئے۔ بات بڑی معمولی ہے لیکن اس سے قانون کی بے توقیری اور کسمپرسی کا اندازہ ضرور کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ مہینے کی بائیس تاریخ کو ملتان میں پی ایس ایل کا آخری میچ ملتان سلطانز اور کراچی کنگز کے درمیان ہوا تھا اس کی جعلی ٹکٹیں بیچتے ہوئے احمد رضا اور اسماعیل رضا نامی دو لڑکوں کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا اور ان سے بڑی تعداد میں جعلی ٹکٹیں برآمد کر لی گئیں مگر تھوڑی ہی دیر کے بعد دونوں ملزموں کو محض ایک ٹیلی فون آنے پر چھوڑ دیا گیا۔ فون کرنے والا تاجروں کی تنظیم کا نمائندہ تھا۔ اس طرف فون آیا اور دوسری طرف ایس ایچ او صاحب نے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ملزمان کو چھوڑ دیا تاکہ وہ جا کر دوبارہ جعلی ٹکٹیں فروخت کرنا شروع کر دیں۔جرم کو اگر محض جرم کے خانے سے نکال کر چھوٹے جرم‘ بے ضرر جرم اور معمولی جرم جیسے زمرے میں ڈال کر ان سے صرف نظر شروع کر دیا جائے تو معاشرہ آہستہ آہستہ ان جرائم کو سرے سے ہی جرم کے خانے سے نکال دیتا ہے‘ ہمارے ہاں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔
نیو یارک کے میئر روڈی جولیانی نے نیو یارک شہر میں بڑھتے ہوئے جرائم پر قابو پانے کیلئےBroken windows theory کو اپنا ماڈل بنایا۔ اس تھیوری کا مرکزی خیال یہ ہے کہ جب ہم چھوٹے چھوٹے جرائم کو نظر انداز کرنا شروع کر دیتے ہیں تو یہ بڑے جرائم کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ پولیس نے نیو یارک شہر میں ایک جگہ پر ایک کار کھڑی کر دی‘ کئی روز تک وہ کار وہاں بغیر کسی نقصان کے کھڑی رہی مگر جب وہ اسی جگہ پندرہ بیس روز کھڑی رہی تو کسی نے اس کا شیشہ توڑ کر اندر لگا ہوا ٹیپ ریکارڈ نکال لیا۔ چند دن بعد کسی نے اس کے سائیڈ مرِر اتار لیے۔ پھر اگلے روز کسی نے اس کا دروازہ کھول کر اندر سے سیٹیں نکال لیں۔ غرض دس بارہ پندرہ روز کے اندر گاڑی کا صرف ڈھانچہ ہی باقی رہ گیا باقی ہر وہ شے نکال لی گئی جو نکالی جا سکتی تھی۔ اس سے یہ تھیوری اخذ کی گئی کہ اگر پہلے روز گاڑی کا شیشہ ٹوٹتے ہی اس پر ایکشن لے لیا جاتا تو گاڑی کو مکمل برباد ہونے سے بچایا جا سکتا تھا۔ لیکن حکومت یا پولیس کی طرف سے پہلے جرم کو چھوٹا اور معمولی جان کر جو لاپروائی برتی گئی اس نے بڑے جرائم کو تحریک دی اور آہستہ آہستہ ساری گاڑی ہی کھٹارا بن کر رہ گئی۔ ادھر تو بڑے بڑے جرائم پر کوئی پوچھ تاچھ نہیں بشرطیکہ جرم کرنے والا بڑا آدمی ہو۔ابھی چند روز پہلے گراں ناز بی بی کی وڈیو اور پھر کنویں سے ملنے والی تین لاشوں کا بہت شور تھا۔ اس سلسلے میں سردار عبدالرحمان کھیتران کی معززانہ گرفتاری بھی ہوئی۔ حسبِ معمول سردار صاحب نے ہر بڑے آدمی کی طرح جیل جاتے ہوئے وکٹری کا نشان بنایا۔ ایسا ہی وکٹری کا نشان شاہ رخ جتوئی نے بھی بنایا تھا اور مجید خان اچکزئی نے بھی بنایا تھا۔ ایسا ہی دو انگلیوں سے فتح کا نشان جام عبدالکریم نے بھی بنایا تھا اور اب یہی فتح کا نشان سردار عبدالرحمان کھیتران نے بنایا ہے۔دراصل وکٹری کا یہ نشان اب تفاخر اور طاقت کی علامت ہے یہ اس برتری کی علامت ہے جو حکمرانوں‘ وڈیروں‘ سرداروں‘ جاگیرداروں‘ تمن داروں اور طاقتوروں کو قانون پر حاصل ہے۔ فتح کا یہ نشان دراصل اس ملک کے نظامِ عدل پر زور آوروں کی زور آوری کا مظہر ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved