عنوان پڑھ کر اشتیاق میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں‘ تحریر پڑھنے کی ضرورت ہے۔ ان لوگوں سے تو معذرت جو کینیڈا میں رہتے ہیں یا کینیڈا کے شہروں میں بار بارجا چکے ہیں۔ ان کے لیے اس تحریر میں کوئی خاص بات نہیں ہوگی لیکن کتنی ہی بڑی تعداد وہ بھی تو ہے جوکسی دوسرے کی آنکھ سے اَن دیکھی دنیاؤں کو دیکھتی ہے۔ اور زیادہ تعداد ایسے ہی لوگوں کی ہے۔ مجھے بھی انہی میں شامل جانیے کہ دنیا دیکھنے کا شوق اپنی جگہ اور بہت سی جگہ نہ دیکھ سکنے کی مجبوریاں اپنی جگہ۔ درمیانی صورت یہی ہے کہ کیمرے کی آنکھ سے‘ کسی سیاح کی نظر سے یا کسی قلم کار کی تحریر سے یہ تشنگی کم کرنے کی کوشش کی جائے۔
ٹورنٹو کینیڈا کے بڑے شہروں میں ایک ہے اور معروف ترین مرکز بھی۔ ہمارے لیے اس میں زیادہ کشش یہ ہے کہ پاکستانی اور ہندوستانی دوستوں کی سب سے بڑی تعداد یہیں رہتی ہے۔ ادبی محفلوں اور مشاعروں کا سب سے بڑا مرکز بھی یہی ہے۔ امریکہ اور کینیڈا کے بیچ سرحد پر جو نیویارک کی طرف سے راستہ ہے‘ اس میں امریکہ سے داخل ہونے کے بعد سب سے بڑا اور پہلا شہر بھی یہی ہے۔ جس سرو قامت پانی کے دھارے یعنی نیاگرا آبشار کو دنیا بھر سے لوگ نظر بھر کر دیکھنے آتے ہیں‘ وہ بھی اسی سرحد پر ہے۔ لہٰذا آپ نے ٹورنٹو دیکھ لیا تو سمجھیں آدھا کینیڈا دیکھ لیا لیکن اب دنیا کے بیشتر بڑے شہر جس طرح تشکیل دیے گئے ہیں‘ ان میں ایک شہر دراصل کئی چھوٹے چھوٹے شہروں‘ آبادیوں اور بستیوں کا ایک مجموعہ ہوتا ہے۔ ان میں ہر ایک شہر سے دوسرے شہر تک کا فاصلہ بھی خاصا ہوتا ہے اور شہروں کے اس مجموعے کی لمبائی چوڑائی بھی روایتی شہروں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ نواحی بستیوں اور مرکز یعنی ڈاؤن ٹاؤن سے جڑ کر جو شہر بنتا ہے‘ اسے آسانی کے لیے گریٹر ٹورنٹو‘ گریٹر شکاگو وغیرہ کہا جاتا ہے۔
یہ بات سمجھنے کے بعد گریٹر ٹورنٹو ایریا یعنی جی ٹی اے (GTA) کو سمجھنا آسان ہو جائے گا۔ جی ٹی اے ٹورنٹو شہر اور نواحی میونسپلٹیوں یعنی ڈرہم‘ ہیلٹن‘ پیل اور یارک پر مشتمل ہے ۔ اس کا یہ نام یعنی جی ٹی اے بھی لگ بھگ 1980ء کی دہائی میں معروف ہوا۔ کل ملا کر شہری‘ دیہی اور نیم شہری بستیوں کی تعداد 25ہے۔2021ء کی مردم شماری کے مطابق 63لاکھ کے لگ بھگ آبادی کے ساتھ ٹورنٹو کا رقبہ سات ہزار مربع کلو میٹر سے زیادہ ہے۔ اس کی تاریخ یہ ہے کہ یورپی آباد کاروں سے بھی پہلے اونٹاریو جھیل کے کنارے‘ جو اس علاقے کی بڑی اور حسین جھیل ہے‘ کئی مقامی قبائل رہتے تھے۔ سینیکا‘ موہاک اور ہورون ان میں سے تین بڑے نام ہیں۔ پھر سترہویں صدی عیسوی میں ایک طاقت ور قبیلہ وارد ہوا جسے مسی ساگاز کہتے تھے۔ آج کی بڑی بستی مسی ساگا (Mississaga) اسی کے نام پر ہے۔ آج کی اس متمدن آبادی مسی ساگا میں رہنے والے یاد رکھیں کہ وہ ایک قبیلے کے نام اور مقام کی زمین پر چلتے پھرتے ہیں۔ مسی ساگاز نے ایروکوئیز نامی قبیلے کو نکال باہر کیا۔ آج کی ایری جھیل اسی قبیلے ایرو کوئیز کے نام پر ہے لیکن مسی ساگاز کو علم نہ تھا کہ ان سے بھی ایک بڑی طاقت سترہویں صدی عیسوی میں اس زمین پر دور دراز جزیروں سے آنے والی تھی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ انگریزوں‘ فرانسیسیوں میں سے کون سب سے پہلے یہاں آیا لیکن سترہویں صدی میں بہرحال یورپین یہاں پہنچ چکے تھے۔ ان یورپین قوموں میں لڑائیاں بھی جلد ہی شروع ہوگئیں لیکن اس پر کیا بات کریں کہ ساری انسانی تاریخ ہی لڑائیوں سے بھری پڑی ہے۔لڑائیاں صرف زمین پر ہی نہیں تھیں۔ یہ علاقہ ایک تجارتی رہ گزر بھی بن گیا تھا اور پھر کینیڈا کے وسیع رقبے میں سرد ترین علاقوں کی نسبت زیادہ قابلِ رہائش تھا۔ کینیڈا کے رقبے اور اس کے قدرتی وسائل پر تمام اقوام کی رال ٹپکتی تھی۔ فطری حسن کے اعتبار سے دیکھیں تو یہ زرخیز زمین جھیلوں‘ پہاڑوں‘ میدانوں اور آبشاروں کی زمین تھی۔ اور آج کے متمدن کینیڈا نے اس فطری حسن کو چار چاند لگا دیے ہیں۔
میری ٹورنٹو آمد کی اگلی دوپہر وہ مشاعرہ اور ظہرانہ تھا جس کے لیے مجھے جناب اشفاق حسین اور جناب عرفان ستار نے مدعو کیا تھا۔ اشفاق حسین کینیڈا کی دیرینہ اور معروف ادبی تنظیم اردو انٹرنیشنل کے بانی اور منتظم ہیں اور رفتہ رفتہ اس تنظیم نے ایک مرکزی حیثیت حاصل کرلی ہے۔ عرفان دس بارہ سال پہلے کینیڈا کی ادبی برادری کا حصہ بنے ہیں۔وہاں کئی ادبی تقاریب تھیں‘ اسی لیے یہ تقریب دوپہر کو رکھی گئی تھی۔ میرا خیال تھا کہ یہ ایک مختصر محفل ہوگی لیکن ٹورنٹو کی نمایاں شخصیات کا بڑا اجتماع دیکھ کر مجھے حیرانی کے ساتھ خوشی ہوئی کہ ان سب دوستوں سے یک جا ملاقات کا موقع مل گیا۔ نامور دانشور اور صاحب سخن‘ محترمہ شہناز شورو نے مشاعرے کی صدارت کی۔ یہ بھی اس محفل کی امتیازی بات تھی کہ بہت سے شعرا کی موجودگی میں بھی صرف دس شعرا اور شاعرات کا انتخاب کیا گیا تھا تاکہ مہمان کو زیادہ وقت مل سکے۔ یہ مشاعرہ نہایت عمدہ تھا اور احباب کی طرف سے بھرپور پذیرائی نے اس یقین کو ایک بار پھر تازہ کردیا کہ شعر و ادب اور زبان و حرف اس زمانے میں بھی بہت بڑی طاقت ہیں۔ مسی ساگا کا یہ مشاعرہ تادیر حافظے میں جگمگاتا رہے گا۔مسی ساگا پاکستان اور ہندوستان سے ہجرت کرکے آباد ہونے والوں کا سب سے بڑا مرکز بنا۔ اور اس وقت برصغیر نژاد کینیڈینز کی سب سے بڑی تعداد یہیں موجود ہے۔ طعام گاہوں‘ ہوٹلوں اور دکانوں کی ایک بڑی تعداد ان سب تارکین وطن کی پسند کا محور ہے۔ کھانوں کی اتنی بڑی تعداد اور تنوع کم کم ہی بستیوں میں موجود ہوگا۔ اس شام جب میرے میزبان برادرم عرفان ستار نے مسی ساگا کے ایک ریستوران کے باہر گاڑی روکی اور مجھے اس کے سائن بورڈ کی طرف متوجہ کیا تو میں حیران رہ گیا۔ لکھا تھا گلی پرانٹھے والی۔ یہ نام پڑھتے ہی میں گویا چشم زدن میں اس لمحے میں چلا گیا جب بہت سال پہلے بلی ماراں‘ پرانی دلّی سے نکل کر چاندنی چوک میں داخل ہو رہا تھا۔ فتح پوری مسجد میرے بائیں ہاتھ پر تھی اور لال قلعہ میرے دائیں طرف۔ یہیں وہ گلی تھی جسے گلی پرانٹھے والی کہا جاتا تھا۔ پراٹھے کی کون سی قسم تھی جو یہاں نہیں ملتی تھی۔ حتیٰ کہ کیلے کا پراٹھا بھی۔ اب مسی ساگا میں اسی نام کے ریستوران میں وہ سب ذائقے اکٹھے کردیے گئے ہیں جن کے لیے چاندنی چوک کی کھچا کھچ اور سائیکل رکشوں کے ازدحام سے گزرنا پڑتا تھا۔مسی ساگا کی گلی پرانٹھے والی ایک حیرت کدہ ہے۔ ڈھائی‘ تین سو قسم کے پراٹھے تو صرف گوشت والے ہیں۔ سبزی والے پراٹھے بھی اتنی ہی بڑی تعداد میں۔ اور سچ یہ ہے کہ ایک سے بڑھ کر ایک۔ جس نوعمر سکھ لڑکے نے ہمارا آرڈر لیا‘ اس کی خوش اخلاقی صرف کاروباری نہیں تھی۔ آرڈر کی تکمیل ہوئی تو اس میں سارے ہی پراٹھے کمال تھے لیکن سبز مرچ کے پراٹھے نے تو جیسے آگ سی لگا دی۔ سی سی کرتے جائیں اور کھاتے جائیں۔ دل ہی نہیں بھرتا۔ اس کے ساتھ مختلف چٹنیاں اور اچار وغیرہ۔ اور پھر لسی۔ یہ کھانا یادگار تھا اور یادگار رہے گا۔ بات یہ ہے کہ ایک بار کی لذت خواہ دہن کی ہو یا ذہن کی‘ دوسری بار کا انتظار ساتھ لے کر آتی ہے۔
اور تو یہ ایک مثال ہے ورنہ اس سفر میں مسی ساگا کے تمام کھانے ہی بہت عمدہ تھے۔ اچھی صحبت ہو‘ اچھی فراغت ہو‘ اچھی صحت ہو تو سفر کی تین دیویاں تو گویا آپ پر مہربان ہو گئیں۔ اور کیا چاہیے۔ لیکن ایک دیوی ان سب سے اوپر ہے اور وہ ہے محبت کی دیوی۔ میزبان دوست ہوں اور محبت کرتے ہوں تو اس کی لذت سب پر فائق ہے۔ اور مجھے یہ بھی میسر تھی۔ خدا ان چار دیویوں کو سب پر مہربان رکھے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved