تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     10-03-2023

…اور سیاسی جماعت کے حقوق؟

میرا دھیان وطن پارٹی کیس کی طرف تھا‘ جو سیاسی کارکنوں اور سیاسی جماعت کے حقوق کے حوالے سے سپریم کورٹ لینڈ مارک فیصلہ PLD 2012 SC صفحہ 292 رپورٹ شدہ ہے۔ لیکن پہلے اسلام آباد کے ایک گھر میں ہونے والی غیر رسمی ملاقات کا احوال سن لیجئے۔ میں وہاں پروفیسر بشیر چوہان کی رحلت پر فاتحہ خوانی کے لیے گیا۔ جن کی سروس کا لمبا عرصہ پوٹھوہار کے کالجز میں تدریس کا فریضہ سر انجام دیتے ہوئے گزرا۔ وہ گورنمنٹ ڈگری کالج کہوٹہ میں بھی پڑھاتے رہے۔ چند دن پہلے انہیں سر کا درد محسوس ہوا‘ چیک اَپ کرایا تو پتا چلا پورے بدن میں سرطان پھیل چکا ہے۔ کامیاب سرجری کے تیسرے روز پروفیسر صاحب داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے۔
سیکٹرجی سِکس کے ایک آسودہ حال گھر میں بہت سارے ریٹائرڈ اور حاضر سروس اعلیٰ سرکاری ملازمین جمع تھے۔ جن میں اکثر زیرِ زمین رہنا پسند کرتے ہیں۔ اس لیے وہ مطلب کے بغیر نہیں بولتے۔ ایک صاحب اپنی سیٹ سے اٹھے‘ میرے سامنے آکر بیٹھے اور اپنا تعارف کرانے کے بعد کہنے لگے کہ میں نے بعد از ریٹائرمنٹ جو کتاب لکھی ہے‘ وہ آپ نے پڑھی؟ میں نے کہا: نہیں پڑھی، مگر میں آپ کو جانتا ہوں۔ ان کے پاس کہنے کو اتنا کچھ تھا‘ جسے سننے کے لیے عمرِ خضر درکار ہوتی ہے۔
پہلے انہوں نے دیانت دار جج لگانے کا طریقہ بتایا‘ پھر وطنِ عزیزکو چین‘ جاپان‘ ملائیشیا‘ ترکی اور سعودی عرب سے زیادہ بڑا ایشین ٹائیگر بنانے کا نسخہ۔ چلتے چلتے وہ سیاسی جماعتوں کی جگہ پر ٹیکنو کریٹس کے ذریعے غریبوں کی قسمت بدل دینے اور معیشت سنبھالنے کے موضوعات پر آگئے۔ اس ریٹائرڈ بیورو کریٹ کا سارا زورِکلام اعلیٰ ترین بیورو کریسی کی ارفع ترین صلاحیتوں اور عمران خان کے فرائض اور جو عمران خان کی وجہ سے پچھلے 75سال میں نہیں ہو سکا‘ اسی پر تھا۔ موصوف کی گفتگو نے ان کے کیڈر کے کچھ اور افسران کو بھی متوجہ کر لیا۔ ایسے لگا جیسے وہ میرا جواب سننا چاہ رہے ہوں۔ میرے ذہن میں فوراً ایک افریقی ملک سوڈان کے شیخ عبدالباقی المکاشفی کا جملہ آگیا جو علمِ کلام میں کمالِ کلام کہلانے کا مستحق ہے۔ امام صاحب جامعہ مسجد میں جمعے کا خطبہ دینے کے لیے عصا ہاتھ میں پکڑ کر کھڑے ہوئے اور مختصر ترین خطبہ ایک جملے میں یوں بیان کیا:
بھوکے مسکین کے پیٹ میں ایک لقمہ پہچانا ہزار مساجد کی تعمیر سے بہتر ہے۔ صفیں درست فرما لیں!
میں نے اسی اسلوبِ گفتگو کو چنا۔ ذہن میں تھا کہ میں فاتحہ خوانی کے لیے آیا ہوں۔ لمبی گفتگو صدمے سے دوچار مرحوم کے اہلِ خانہ پر گراں نہ گزرے؛ چنانچہ موصوف سے پوچھا کتنی سروس کے بعد ریٹائر ہوئے ہیں؟ انہوں نے اعلیٰ ترین گریڈ بتایا اور ساتھ پی ایس پی کی سروس بتائی‘ پھر کہا: 32سال۔ میں نے دھیرے سے عرض کیا: آپ نے ایک تہائی سنچری میں کتاب لکھنے کے علاوہ ملک اور عوام کے لیے اور کیا کارنامہ سر انجام دیا ہے؟
اس نوٹ پہ موصو ف سٹپٹا کر کہنے لگے: دعا کریں‘ اجازت لیتا ہوں۔ اور ھل من مزید کے انداز میں ہاتھ اٹھا دیے۔ یوں لگا جیسے زبانِ حال سے فرما رہے ہیں اگر کچھ اور ہے تو وہ بھی میری جھولی میں ڈال دو۔ ابھی تو میں جوان ہوں۔ جوانی سے یاد آیا‘ بھارت نے اقوام متحدہ سمیت ہر جگہ بیرونِ ملک مقیم انڈین طلبہ و طا لبات کو اپنی نمائندگی کے لیے بھیجنا شروع کیا ہے۔ نئے علم اور نئی ٹیکنالوجی سے لیس بھارتی سٹوڈنٹس پوری دنیا میں اپنے ملک کے لیے پبلک ڈپلومیسی کر رہے ہیں۔ دوسری جانب ہمارے فیصلہ ساز ہیں‘ جنہیں اپنے ہی ملک میں اپنی ہی نوجوان نسل سے ڈر لگ رہا ہے۔ جبکہ عالمی اداروں میں 75‘80‘85 سالہ ریٹائرڈ بابے‘ بابیاں دو تین جگہ سے پنشن لے کر اوور ٹائم لگانے کے لیے بٹھائے گئے ہیں۔ جنہیں لکھے ہوئے نوٹس پڑھنے میں بھی دشواری پیش آتی ہے۔
ایک سیاسی مولوی صاحب اس نسل کو لچر‘ گھٹیا اور گمراہ ثابت کرنے کے لیے اپنا سارا وزن ڈال رہے ہیں۔ جبکہ باقی سیاسی بابے جو ہمیشہ سے اقتدار میں ہیں‘ وہ اس نسل کا قبلہ درست کرنے کے لیے پوری طاقت سے ان نوجوانوں پر حملہ آور ہیں۔
گزرے بدھ کے دن دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔ اس روز وفاقی دارالحکومت اور پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میں پُر امن اور نہتّی خواتین پولیس کی لاٹھیوں کی زد میں تھیں۔ سید بلال المعروف ظلِ شاہ زندہ گرفتار ہوئے۔ انہیں پولیس نے کچھ وی لاگرز سمیت قیدیوں کی ایک وین میں لا پھینکا۔ جہاں ظلِ شاہ نے انٹرویوز دیے۔ شام کو اس معصوم الدم Special Child کی لاش حراستی مرکز سے مردہ خانے پہنچا دی گئی۔ ان کے سر‘ چہرے پر چوٹوں‘ ہاتھ اور پیٹ میں زخموں کی تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔ ان زخموں کو ڈاکٹروں نے پوسٹ مارٹم رپورٹس میں کنفرم کر دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ جن پر مقتول کے والد قتل کا الزام لگاتے ہیں‘ انہوں نے اس قتل کی FIRبھی عمران خان پر کاٹ ڈالی۔ جمعرات کے دن تک ان کے والد در بدر گھومتے رہے مگر وجیہ نوجوان ظلِ شاہ کی شہادت کی FIR کاٹنے سے انکار کر دیا گیا۔
ایسے لگ رہا ہے جیسے پاکستان کی وزاتِ عظمیٰ پر ساڑھے 3سال بیٹھنا اور Status Quoکی باریاں لگانے والوں کو ایکسپوز کرنا عمران خان کا گناہ بن گیا ہے۔ اتنا کبیرہ گناہ جس کی کوئی معافی نہیں۔ جبکہ درِ اقتدار کے قصیدوں پر مبنی کتابیں لکھنے والے سابق اور حاضر ملازم ہی ایسے افراد ہیں‘ جن کو بنیادی حقوق اور ساری سہولتیں دینا پاکستان کے عوام کی قومی اور مذہبی ڈیوٹی ہے۔ ہاں یہ بھی یاد رہے کہ اس ملک میں صرف اور صرف ایک سیاسی جماعت ایسی ہے جس کے کوئی حقوق نہیں۔ یہ عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ اور کون سی پارٹی ہو سکتی ہے۔ آئیے‘ اس کے تازہ ثبوت دیکھیں۔
پہلا ثبوت: الیکشن کمیشن نے 8مارچ کو انتخابی شیڈول جاری کیا جس کے تحت امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی 12تا 14 مارچ تک جمع ہوں گے۔ جانچ پڑتال‘ اپیلوں کے بعد پنجاب کی صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی کی 6 نشستوں پر 30 اپریل کو الیکشن ہوگا۔ اس اعلان کی شام عمران خان نے اپنی پہلی انتخابی ریلی اپنے گھر زمان پارک سے نکالنے کا پروگرام بنایا۔ لاہور پولیس اور حکومت نے اس ریلی کا جلیانوالا باغ بنا کر دکھا دیا۔ الیکشن کمیشن خاموش ہے۔
دوسرا ثبوت: الیکشن میں حصہ لینے والی سب سے بڑی سنگل پولیٹکل پارٹی کے لیڈر عمران خان کے انٹرویو‘ بیان‘ تقریر‘ اس کی انتخابی ریلی‘ گھر پر چڑھائی اور کارکنوں پر حملے کی خبر نشر کرنے پر پابندی لگائی گئی۔ جسے لاہور ہائی کورٹ کے فاضل جج مسٹر جسٹس شمس محمود مرزا نے بنیادی انسانی اور آئینی حقوق کے خلاف قرار دیتے ہوئے معطل کر دیا۔ ویسے بھارتی حیدر آباد کے مسلم کش فسادات پر کہا گیا نوحہ آزادیٔ اظہار کے قتلِ عام پر بھی صادق آتا ہے۔
کاٹ کر زباں میری‘ کہہ رہا ہے وہ ظالم
اب تمہیں اجازت ہے‘ حالِ دل سنانے کی
دوسری جانب سرکاری خرچ پر سرکاری عمارتوں میں ہی آئینی انتخابات کے خلاف مہم چل رہی ہے۔ فرائنگ پین والی استری پھیرنے کا سیدھا مطلب ہے ملک کو سرزمینِ بے آئین رکھنا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved