تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     10-03-2023

اندھیر جھونپڑی سے جب نورانی انسان نکلا

اللہ تعالیٰ ہی خالقِ دو جہاں ہے‘ اسی نے ہر جاندار کا جسم بنایا ہے۔ ہر جاندار کا جسم خلیات سے بنا ہوا ہوتا ہے۔ جیسے ہر عمارت اینٹوں سے بنتی ہے ایسے ہی ہر جاندار کا جسم خلیات سے مل کر بنتا ہے۔ سمندر میں رہنے والی مچھلیوں کے اجسام ہوں، ہواؤں میں اڑنے والے پرندوں کے اجسام ہوں یا زمین کے اوپر اور اس کے نیچے رہنے والے جاندار ہوں‘ سب کے اجسام خلیات سے ہی خالقِ کائنات نے بنائے ہیں۔ خلیہ (Cell) ایک ایسی شئے ہے جو ہر جاندار کے جسم کی وہ بنیادی چیز ہے جسے ہم اینٹ کہہ سکتے ہیں۔ انسان عمارتوں اور بلڈنگوں کو بناتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی عقل سے اینٹیں بناتا ہے‘ پھر ان اینٹوں کو اس طرح ترتیب سے جوڑتا ہے کہ طرح طرح کی عمارتیں وجود میں آ جاتی ہیں۔ وہ اینٹوں کی بھی کئی اقسام بناتا ہے۔ مٹی سے اینٹ بنا کر کچے گھر بناتا ہے۔ اسی اینٹ کو آگ میں تپا کر پختہ اینٹ بناتا ہے تو اس سے پختہ بلڈنگ تیار ہو جاتی ہے۔ سیمنٹ‘ ریت اور بجری کی اینٹ بھی بناتا ہے۔ اینٹوں کی اور بھی کئی اقسام ہیں جن سے انسان عمارتیں بناتا ہے۔ یہی انسان خود کس طرح کی 'اینٹوں‘ سے بنا ہے‘ وہ اس پر ریسرچ کرتا رہا تو اسے پتا چلا کہ اس کے خالق نے اسے بھی 'اینٹوں‘ سے ہی بنایا ہے۔ وہ خود ایک بہت بڑی بلڈنگ ہے۔ ایسی بلڈنگ کہ اس کی تعمیر میں کم از کم 100 ٹریلین اینٹوں کا استعمال ہوا ہے۔ ان اینٹوں کا نام اس نے خلیات (Cells) رکھ دیا۔ اس نے جب ایک اینٹ یعنی سیل کو خوردبین میں رکھا اور اس کے اندر کا جہان دیکھا تو وہ ششدر اور حیران رہ گیا کہ اس کے جسم کی ہر اینٹ کے اندر ایک بہت بڑا شہر آباد تھا۔ سیل کے اندر آباد شہر کا ایک مرکزی حصہ بھی ہے۔ اس مرکز کو اس نے ''نیو کلیس‘‘ کا نام دیا۔
نیو کلیس کا اس نے بغور جائزہ لیا تو وہاں اسے 46 عدد ستون دکھائی دیے۔ اب انسان اس کھوج میں لگ گیا کہ یہ ستون کہاں سے آئے ہیں۔و ہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ 23عدد ستون اس کے والد کی طرف سے آئے ہیں اور اتنے ہی اس کی ماں کی طرف سے آئے ہیں۔ ان تمام 46ستونوں کو اس نے ''کروموسومز‘‘ کا نام دیا۔ وہ مزید آگے بڑھا تو اس کے علم میں مزید اضافہ اس طرح ہوا کہ یہ جو ستون ہیں‘ یہ اپنے اوپر بہت سارے مزید ستون اٹھائے ہوئے ہیں۔ ان ستونوں کو اس نے DNA کا نام دیا۔ مزید آگے بڑھا تو انسان کی بنائی ہوئی جدید ترین خوردبین نے اس کو آگاہ کیا کہ ڈی این اے نے کچھ اور چیزوں کو بھی اپنے ساتھ چمٹایا یا تھاما ہوا ہے۔ اس کو اس نے جینز کا نام دیا۔
جینز (Genes) کے کردار کے حوالے سے امریکہ کے ایک بڑے اور معروف بیالوجیکل سائنسدان ڈاکٹر بروس ایچ لپٹن (Bruce H. Lipton) کلوننگ پر کام کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے لیبارٹری میں ریسرچ کے دوران جینز کا کردار کچھ اس طرح سے دیکھا کہ
Genes are capable of turning themselves on and off and regulating not just our physical structure, but our emotions and our behaviors as well. Genes seem to be the controlling factor of all characteristics of our lives.
یہ جینز اپنے آپ کو بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ اپنے آپ کو (لائٹ کے سوئچ کی طرح) آف اور آن کر سکتے ہیں۔ یہ جسمانی ڈھانچے کو معتدل بنا سکتے ہیں بلکہ یہ ہمارے جذبات اور ہمارے رویوں کو بھی اعتدال میں لا سکتے ہیں‘ انہیں قابو کر سکتے ہیں، ان کی بے قاعدگی کو باقاعدہ بنا سکتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ جینز ہماری زندگیوں سے جڑے عوامل اور خاصیتوں کو بھی کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
قارئین کرام! ڈکشنری میں Regulate کے جو تین سرفہرست معانی تھے وہ اس لیے ترجمے میں بیان کر دیے کہ یہاں پر میں آپ کے سامنے حضور کریمﷺ پر نازل ہونے والی آخری الہامی کتاب‘ قرآنِ مجید کی ایک آیت مبارکہ پیش کرنے جا رہا ہوں کہ اسے پڑھ کر ہر صاحبِ ایمان اللہ اللہ‘ سبحان اللہ‘ سبحان اللہ پکار اٹھے گا۔ آیت مبارکہ ملاحظہ ہو!
''اے انسان! تیرا رب‘ جو انتہائی کریم ہے‘ اُس کے بارے میں تجھے کس چیز نے (دنیا کے لالچوں اور محبت میںآ کر زیادتیوں، ظلموں اور مجھے بھول جانے جیسے رویوں نے) دھوکے اور فریب میں ڈال دیا۔ وہ رب کریم کہ جس نے تجھے پیدا کیا۔ تجھے درست کیا۔ تجھے اعتدال بخشا۔ جس صورت میں چاہا اس نے تجھے جوڑ دیا (تیری جسمانی عمارت کو مکمل کردیا) (الانفطار: 6 تا 8)
مولا کریم مزید ارشاد فرماتے ہیں ''جب صرف اور صرف ہم نے ہی (اے انسانو!) تمہیں پیدا کیا ہے تو پھر اس سچ کا اعلان کیوں نہیں کرتے ہو؟ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ پانی کا وہ قطرہ جسے تم ٹپکاتے ہو‘ اس کے بعد اسے تم تخلیقی مراحل سے گزارتے ہو یا یہ ہم ہی ہیں جو پیدا کرنے والے ہیں؟ (کامل صورت میں تخلیق کے شاہکار کو سامنے لانے والے ہیں) یاد رکھو! ہم نے تمہارے درمیان موت کو مقدر کر دیا ہے۔ تم اس سے جان چھڑا کر ہم سے آگے نہیں نکل سکتے‘‘ (الواقعہ:57تا60)
قارئین کرام! انسانی جسم کی ہر اینٹ‘ جس کا نام خلیہ ہے‘ کے جینز اپنے ریسرچر انسان کو بتار ہے ہیں اے کچی پکی اینٹیں بنانے والے! تیرے جسم کی خلیاتی اینٹ کا ایک خالق ہے۔ اس کے اندر آن اور آف کے جو سوئچ ہیں وہ اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ جب تیری موت کا وقت قریب آئے گا تو تیرے جسمانی اعضا کے خلیات کے اندر جینز کے سوئچ کبھی آف ہوں گے‘ پھر آن ہوں گے‘ یہ سب کچھ ہوتا رہے گا۔ تو علاج کراتا رہے گا۔ دل میں سٹنٹ ڈلواتا رہے گا۔ بائی پاس کراتا رہے گا۔ دھڑکن کو درست رکھنے کیلئے الیکٹرک بیٹری کا بندوبست کرتا رہے گا مگر یہ نہ بھولنا کہ دل کے کروڑوں خلیات میں موجود آن آف کے سوئچ تیرے خالق کے ہاتھ میں ہیں۔ گردوں کی صفائی کے لئے ڈائیلیسز مشینوں پر تو آ گیا ہے۔ ان گردوں کے کروڑوں خلیات میں موجود بٹن صرف تیرے خالق کے ہاتھ میں ہیں۔ جب سوئچ آن ہو جاتا ہے‘ اسے تُو شفا کہتا ہے‘ تندرستی کہتا ہے۔ جدید مشینوں کے کمالات پر خوش ہوتا ہے مگر اس بات اور حقیقت کو مت بھولنا کہ بٹن کسی بھی وقت دوبارہ آف ہو سکتا ہے ا ور مستقلاً آف ہو سکتا ہے۔ پھر تندرستی نہ ہو گی بلکہ موت ہی موت ہو گی۔ تُو جگر کو ٹرانسپلانٹ کرواتا ہے۔ یہ کام کرو‘ ضرور کرو‘ اپنا علاج کرائو مگر مت بھولو کہ خون کا نظام سنبھالنے والی مشین بھی اپنے ہر خلیے کے اندر ایسے سوئچ رکھتی ہے کہ وہ آن ہو جائیں گے تو تُو چلتا پھرے گا اور جب یہ ایک ایک کر کے آف ہونا شروع ہوں گے تو تیری موت کے وقت کے مطابق یہ وقفے وقفے سے آف ہوتے جائیں گے۔ ڈاکٹرز بے بس ہوتے چلے جائیں گے اور پھر جو وقت مقرر ہے اس پر آخری سوئچ بھی آف ہو جائے گا۔ وہ سوئچ جونہی آف ہوگا۔ اے اصل انسانی جان! وہ ٹائم تیری روح کے نکلنے کا ہوگا۔
تیرے پاؤں کی انگلیوں کے پوروں سے اس کا آغاز ہوگا۔ پاؤں کے تلوے ٹھنڈے ہو جائیں گے۔ انہیں گرم کرنے کی کوششیں کارگر نہ ہو سکیں گی۔ پنڈلیاں بھی ٹھنڈی ہو جائیں گی۔ بات پیٹ سے اوپر سینے تک آ جائے گی۔ نرخرہ بولنا شروع ہو جائے گا۔ پھر آخری ہچکی آئے گی اور جسم کے کھربوں خلیات میں سے بے شمار جینز کا ہر سوئچ آف ہو جائے گا۔ بلبوں یا روشن چراغوں سے بجھی ہوئی اندھیر انسانی جھونپڑی اب اسی قابل ہے کہ اجڑی ہوئی اس اندھیر جھونپڑی کو دیکھ کر ہر آنکھ آنسو بہائے‘ افسوس کا اظہار کرے مگر اصل پیغام یہ ہے کہ اس جھونپڑی سے پرواز کرنے والا وہ جو اصل روحانی انسان ہے‘ وہ جو ملکوتی روشنیاں لے کر پرواز کر گیا ہے‘ وہ روشنیاں تو ایمان اور نیک اعمال کی روشنیاں ہیں۔ جس کے مقدر میں یہ روشنیاں ہو گئیں وہی کامیاب ہے۔ وہی کامران ہے۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فردوس کا وارث بنا دیا گیا ہے۔ اے مولا کریم! ہم سب کو ایسا روحانی مومن انسان بنا دے۔ آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved