تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     11-03-2023

پُر تشدد سیاست

اس وقت دل کی جو کیفیت ہے‘اس کو ناصر کاظمی سے بہتر کوئی نہیں بیان کر سکا۔
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصرؔ
اُداسی بال کھولے سو رہی ہے
علی بلال کی موت نے اداس کر دیا۔پوسٹ مارٹم رپورٹ کہہ رہی ہے کہ اُس پر موت سے پہلے تشدد ہوا۔ تادمِ تحریر یہ ثابت نہیں کہ یہ تشدد کس نے کیا۔ اسے جب ایک گاڑی میں ہسپتال لایا گیاتو وہ جیتا جاگتا انسان نہیں‘ایک لاش تھا۔جو وہاں تک لائے‘ ان کے چہرے کیمروں نے محفوظ کر لیے۔اہم بات یہ ہے کہ وہ رکے نہیں‘ کہیں غائب ہو گئے۔ علی بلال کو ہسپتال لانے والے کون تھے؟یہ گاڑی کس کی تھی؟جب تک ان سوالات کے جواب نہیں ملتے‘تشدد اور موت کے ذمہ داران کا حتمی تعین نہیں کیا جا سکتا۔زیادہ اشارے پولیس کی طرف کیے جا رہے ہیں کہ ایسے معاملات میں اس کا ریکارڈکبھی اچھا نہیں رہا۔
اداسی کی بات یہ ہے کہ ایک سادہ لوح سیاسی کارکن اقتدار کی آگ کا ایندھن بن گیا۔اہلِ سیاست کے لیے اُس کی موت‘ اس کی زندگی سے زیادہ قیمتی ہے۔ایک طرف اس کے جنازے سے سیاسی قوت کشید کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف ریاست اسے اپنی قوت کے مظہر کے طور پر پیش کررہی ہے کہ جو ریاست سے ٹکرائے گا انجام یہ ہو گا۔ دونوں اطراف میں جو لوگ اقتدار کی لذتیں سمیٹنے والے ہیں‘ وہ اپنے اپنے قلعوں میں محفوظ ہیں۔ان کے لیے کارکن اس فصیل کی اینٹوں سے زیادہ اہم نہیں جواُن کی حفاظت کے لیے تعمیر کی گئی ہے۔
ہر سیاسی جماعت سیاسی جلسے جلوس کا حق رکھتی ہے۔ دوسری طرف اگر عوام کی جان ومال کو خدشات لاحق ہوں تو حکومت کا یہ قانونی حق تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ عارضی طور پر ان مظاہروں پر پابندی لگا سکتی ہے۔ تاہم حکومت کے لیے لازم ہے کہ وہ اس کا جواز فراہم کرے۔اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو عدالت ایسے سرکاری احکام کو کالعدم قرار دے سکتی ہے اب لاہور میں دفعہ 144ختم کر دی گئی ہے۔ اس لیے ہر سیاسی جماعت آزادی سے اجتماع کر سکتی ہے۔
سیاسی ریلی تحریک انصاف کا حق تھا۔اسے روکنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ تاریخ البتہ ایسی تھی کہ اسے ایک آدھ دن مؤخر کیا جانا چاہیے تھا۔ 8 مارچ کوعورتوں کا دن منایا جاتا ہے۔اس تاریخ کو خواتین کے حقوق کے لیے جلسے جلوس کا اہتمام ہوتا ہے۔اس لیے تحریکِ انصاف کے لیے مناسب یہی تھا کہ وہ اس سے ایک دن پہلے یا بعد‘ جلوس برآمد کرتی۔ اس پر انتظامیہ سے بات ہونی چاہیے تھی۔اگر دونوں اطراف معاملہ فہم لوگ ہوتے تو یہ قضیہ ایسا نہیں تھا جو حل نہ ہو سکتا۔افسوس یہ معاملہ فہم لوگ یہاں نہیں پائے جاتے۔
سیاست نام ہی معاملہ فہمی کا ہے مگر یہ جس ڈگر پہ چل نکلی ہے کہ اس میں معاملہ فہمی کا کوئی پڑاؤ نہیں ہے۔میں اس کی فی الجملہ ذمہ داری عمران خان صاحب پر ڈالتا ہوں جنہوں نے پہلے ہی دن سے مکالمے کا دروازہ بند کر رکھا ہے۔ وہ وزیراعظم تھے تو انہوں نے اپوزیشن سے کبھی بات نہیں کی۔ جب ضرورت پڑی‘ان کے لیے یہ خدمت‘ ان کے پرانے ممدوح‘ جنرل قمر جاوید باجوہ نے سر انجام دی۔جب سے وہ اپوزیشن میں ہیں‘وہ اس کا بار ہا اعادہ کر چکے کہ 'چوروں‘ سے بات نہیں کر یں گے۔یہ مؤقف اصولی نہیں‘ایک خاص مزاج اورمفاد کے تابع ہے۔
جنہیں وہ' میر جعفر‘ کہتے تھے‘ ان سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں بلکہ ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے لیے بھی آمادہ تھے۔ہزاروں پاکستانیوں کے اعلانیہ قاتلوں سے مذاکرات کے لیے تو ہمیشہ گرم جوش رہتے ہیں۔ گویاغداری یا معصوم شہریوں کا قتل ان کے نزدیک کوئی جرم ہی نہیں یا کم از کم ایسا سنگین نہیں کہ ایسے لوگوں سے سماجی مقاطعہ کر لیا جائے۔آسمانی اور دنیاوی قوانین میں قتل اور غداری سے بڑا جرم کو ئی نہیں مگر خان صاحب کے اخلاقیات‘ ان قوانین کے نہیں‘ان کے مفاد کے تابع ہیں۔
یہ عقلِ عام کی بات ہے کہ اگر وہ سیاست میں غیر سیاسی قوتوں کی عدم مداخلت چاہتے ہیں تو انہیں سیاسی لوگوں سے بات کرنا پڑے گی۔خا ن صاحب ایسا کیوں نہیں کرتے؟ اس کی وجہ واضح ہے۔ وہ سیاستدان نہیں‘ ایک پاپولسٹ ہیں۔ سیاستدان ا ور پاپولسٹ کی حکمت علمی ایک نہیں ہو سکتی۔ سیاست میں دوسروں کے وجود کو تسلیم کر نا پڑتا ہے۔ اس میں مکالمہ ہے۔ اس میں دلیل کی حکمرانی ہے۔ یہ بصیرت کا امتحان ہے۔ اس میں صرف سیاہ اور سفید صرف دو رنگ نہیں ہوتے۔ اس کے برخلاف‘ پاپولزم میں سیاست کو سیاہ اور سفید میں تقسیم کیا جا تا ہے۔اس میں مکالمہ نہیں ہو تا۔ اس میں دوسروں کے وجود کی نفی کی جا تی ہے۔اس میں انتہا پسندی ہے۔جذبات کاا ستحصال ہے۔یہاں عقل و استدلال کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
عمران خان سیاست میں یک نکاتی حکمتِ عملی کے قائل ہیں: 'احتجاج‘۔ وہ اقتدار میں تھے تو بھی ان کی سیاست احتجاجی تھی۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ ہیجان ان کی سیاست کا امتیاز ہے۔ انہوں نے سیاست کو حق وباطل کا معرکہ بنایااور نفرت کو ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی کے ساتھ فروغ دیا۔ انہوں نے اپنے مانے والوں کو انتہا پسندبنا دیاہے۔ اب وہ لاٹھی اور غلیل لے کر نکلتے ہیں۔ پُر تشدد سیاست‘ پاپولزم کی سیاست کا ایک ناگزیر نتیجہ ہے۔
علی بلال کی جان اسی تشدد پسند سیاست نے لی ہے۔ جب ایک طرف انتہا پسندی ہو گی تو لازماً دوسری طرف بھی یہی معاملہ ہوگا۔ پولیس نے بھی تحریکِ انصاف کے کارکنوں کے خلاف پُرتشدد رویہ اپنایا۔ اگر اس رویے کی اصلاح نہ کی گئی تو مجھے خوف ہے کہ انتخابی عمل بھی پُر تشددہوگا۔ عمران خان صاحب کے بارے میں اس خدشے کا اظہارکیاجا رہا ہے کہ وہ عوامی مقبولیت کی اس راہ پر ہیں جس پر الطاف حسین کے قدموں کے نشانات ہیں۔ انہیں اس تاثر کو زائل کرنا اور سیاست کی طرف لوٹنا ہو گا۔ اس کامطلب مکالمے اور مذاکرات سے معاملات کو طے کرنا ہے۔
عمران خان صاحب کا مفاد اس میں ہے کہ انتخابات سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت وقت پر ہوں۔ انہیں اس کے لیے ماحول کو سازگار بنانا ہے۔ یہ احتجاجی سیاست سے نہیں‘ مذاکرات اور دوسروں کے وجود کو تسلیم کر نے سے ہوگا۔ وہ اگر اس مرحلے پر بھی احتجاجی رویہ اپنائیں گے اور لوگوں کے جذبات کو مشتعل کر کے‘اپنا مقصد حاصل کرنا چاہیں گے تو انہیں کچھ نہیں ملے گا۔ ریلی کے انعقاد پرریاستی ردِ عمل سے انہیں اندازہ ہو جاناچاہیے کہ انہیں کھیل کے مروجہ آداب کو قبول کرنا ہوگا۔ بصورتِ دیگر وہ خسارے میں رہیں گے۔
بلال جیسے سیاسی کارکنوں کا مفاد بھی اس میں ہے کہ وہ سیاسی آگ کا ایندھن نہ بنیں اور عقل سے کام لیں۔ایسی سیاست کے سامنے ابھی سے بند باندھنا ہوگا جس میں عوام کے جان ومال ارزاں ہوجائیں۔ سیاست دن بدن پُرتشدد ہو رہی ہے اوراب عوام کے ساتھ مذہب کو بھی استعمال کیا جا ئے گا۔ انسانی لاش کو شہادت کا خوبصورت کفن پہنا کر‘انسانی قتل کو قابلِ قبول بنایا جائے گا۔اس سے بچنے کے لیے لازم ہے کہ مذاکرات اور مکالمہ ہو۔
مجھے اس کا امکان نہیں دکھائی دیتا کہ انسان اپنی افتادِ طبع کا اسیر ہے۔ میں آنے والے دنوں میں اس سیاست کے مزیدمظاہردیکھ رہا ہوں۔ دونوں طرف بہت سے علی بلال قطار میں کھڑے ہیں جن کے جان و مال سے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں۔ یہی میری اداسی کا سبب ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved