ٹیکنالوجیز نے اب ناک میں دم کردیا ہے۔ تحقیق و ترقی کے شعبے سے وابستہ افراد موجودہ ٹیکنالوجیز کی مدد سے نئی ممکنہ ٹیکنالوجیز پر کام کرتے رہتے ہیں اور اِس کے نتیجے میں نئی نئی ٹیکنالوجیز مارکیٹ میں آتی رہتی ہیں۔ ٹیکنالوجیز نے زندگی کو جتنا آسان بنایا ہے اُس سے کہیں زیادہ مشکل بنادیا ہے۔ انسان مادّی ترقی کی رفتار تیز کرنے کے لیے صدیوں سے تگ و دَو کرتا آیا ہے۔ اب وہ مقام آچکا ہے جہاں انتہائی نوعیت کی مادّی ترقی ممکن بنائی جاچکی ہے اور انتہا کی نئی جہتیں تلاش کرنے کی کوشش بھی دم توڑنے کا نام نہیں لے رہی۔ مادّی ترقی کی رفتار تیز سے تیز تر کرنے کی دُھن میں انسان اُس مقام تک پہنچ گیا ہے جہاں اُس کا اپنے وجود پر بھی اختیار نہیں رہا۔ جب مشینی دور کی ابتدا ہوئی تھی تب بھی اہلِ دانش نے غیر معمولی نوعیت کے خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اُن کا استدلال تھا کہ مشینوں پر غیر معمولی انحصار ایک دن انسان کو مشینوں کا غلام بناکر دم لے گا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ خیر‘ یہ فطری امر تھا۔ ہر دور کا انسان اِسی نوعیت کے بحران کا شکار رہا ہے۔ قدرت کا نظام ہی کچھ ایسا ہے۔ جس کام میں آسانی ہوتی ہے اُسی میں دشواری بھی پنہاں ہوتی ہے۔ انسان کے لیے ناگزیر ہے کہ تمام معاملات کو پورے توازن کے ساتھ نبھائے، ساتھ لے کر چلے۔
کیا ٹیکنالوجیز سے جان چھڑائی جاسکتی ہے؟ جی ہاں! یہ تو کوئی مشکل کام نہیں۔ کسی بھی نئی ٹیکنالوجی کو قبول کرنے سے انکار کردیجیے اور بس۔ یہ آپشن ہر دور کے انسان کو میسر رہا ہے۔ البتہ‘ پھر اِس کا نتیجہ بھگتنے کے لیے بھی تیار رہیے! عصری علوم و فنون میں کسی بھی بڑی تبدیلی کی راہ روکنے کی ہمیشہ کوشش کی گئی ہے۔ جو لوگ لگی بندھی زندگی بسر کرنے کے قائل ہوتے ہیں وہ ذرا سی بھی تبدیلی پسند نہیں کرتے۔ اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ جو کچھ چلتا آیا ہے وہی چلتا رہے، کچھ بھی داؤ پر نہ لگے۔ جب کچھ داؤ پر لگتا ہے تب ہی کچھ نیا کرنے اور نیا پانے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ معمول کی، گھسی پٹی نوعیت کی زندگی بسر کرنے کی صورت میں انسان کچھ زیادہ نہیں کر پاتا۔ پھر بھی لگے بندھے انداز سے جینے کو ترجیح دی جاتی رہی ہے۔
آج بھی معاملہ بہت زیادہ مختلف نہیں۔ ٹیکنالوجیز ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک نئی ٹیکنالوجیز سے مستفید ہوتا ہے۔ ہماری زندگی میں ایسا بہت کچھ ہے جو صرف اور صرف نئی ٹیکنالوجیز کی بدولت ہے۔ ایسے میں ٹیکنالوجیز کے آگے بند باندھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم میں سے کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ ٹیکنالوجیز کے بغیر جی سکتا ہے۔ ایسا ممکن ہی نہیں! آج ہم اپنے ماحول میں ایسا بہت کچھ دیکھ رہے ہیں جو صرف اور صرف نئی ٹیکنالوجیز کی مدد سے ممکن ہو پایا ہے۔ ٹیکنالوجیز آتی جارہی ہیں اور جدت و ندرت کا بازار گرم رکھے ہوئے ہیں۔ عام آدمی کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے ماحول میں بہت کچھ تبدیل ہوتا ہوا دیکھ رہا ہے مگر خود تبدیل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ ایسا تساہل کے باعث بھی ہے اور خوف کے نتیجے میں بھی۔ انسان عمومی سطح پر تبدیلیوں سے ہم آہنگ رہنے کی دوڑ میں شریک اس لیے نہیں ہوتا کہ اُس کا مزاج موجودہ سسٹم سے بچھڑنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ وہ ڈرتا ہے کہ کہیں وہ بھی ہاتھ سے جاتا نہ رہے جو اس وقت میسر ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ تن آسانی کا شکار بھی رہتا ہے۔ لوگ بہت کچھ تبدیل ہوتا ہوا دیکھتے ہیں اور تبدیل ہونے والوں کو بھی دیکھتے ہیں مگر یہی سوچتے ہیں کہ کون تجربے کرتا پھرے، کتنی خواری برداشت کی جائے۔ یہ سوچ کم ہی لوگوں میں پائی جاتی ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے سب کا سب تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔ لوگ تبدیل ہوتے رہے تو وہ سب کچھ ممکن ہو پایا جو آج ہماری زندگی کا حصہ ہے۔ علوم و فنون میں پیش رفت اُسی وقت ممکن ہوتی ہے جب لوگ محنت کرتے ہیں، تجربے کرتے ہوئے بہت کچھ داؤ پر لگانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
ٹیکنالوجیز انسان کو بدلنے کی تحریک دیتی ہیں۔ وہ قدم قدم پر کوئی نہ کوئی چیلنج کھڑا کرتی ہیں۔ انسان کو چیلنج کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ یہ آپشن کا معاملہ ہے ہی نہیں۔ اگر کوئی بضد ہو کہ کسی بھی نئے چیلنج کا سامنا نہیں کرنا اور تبدیلیوں کے تقاضے کا مؤثر جواب نہیں دینا تو پھر یہ طے سمجھیے کہ وہ ناکامی سے دوچار ہوکر رہے گا۔ فی زمانہ ٹیکنالوجیز سے چشم پوشی ممکن نہیں۔ قدم قدم پر چوکس رہنا پڑتا ہے۔ ٹیکنالوجیز معاشی اور معاشرتی‘ دونوں ہی طرح کے معاملات میں ہمارے لیے دردِ سر بنی ہوئی ہیں۔ یہی ٹیکنالوجیز ہمارے لیے نعمت کا درجہ بھی رکھتی ہیں کیونکہ اِن کی بدولت زندگی میں خاصی آسانی پیدا ہوئی ہے، انسان کے لیے ڈھنگ سے کمانا ممکن ہوا ہے اور زندگی کا معیار بلند کرنا بھی بہت بڑا دردِ سر نہیں رہا۔ پھر بھی انسان ٹیکنالوجیز کی شکل میں اپنے سامنے کھڑے چیلنج کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ پُرانی ڈگر اِتنی پسند ہے کہ چھوٹ نہیں پارہی۔ انسان نے بہت کچھ پالیا ہے مگر اب بھی صدیوں پرانے ذہنی سانچے میں جی رہا ہے۔
واضح مصیبت یہ ہے کہ قدم قدم پر موجود ٹیکنالوجیز سے استفادہ کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جارہی؛ تاہم اُن کے تقاضوں کے مطابق خود کو بدلنے سے واضح گریز کیا جارہا ہے۔ یہ بھی عجیب ذہنی خلل ہے کہ ٹیکنالوجیز سے تو خوب مستفید ہونا ہے؛ تاہم اُن سے مطابقت رکھنے والی طرزِ فکر و عمل کی طرف نہیں جانا۔ نئی ٹیکنالوجیز نے ہمارے لیے لازم کردیا ہے کہ معاشی، معاشرتی، ثقافتی، علمی اور ادبی امور سے متعلق اپنی سوچ بدلیں اور جہاں تک ممکن ہو، اپنے آپ کو اس طور بدلیں کہ زندگی کا کوئی بھی پہلو تشنہ نہ رہے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ لوگ سمارٹ فون کے لازمی اجزا کی حیثیت رکھنے والی ٹیکنالوجیز سے خوب مستفید ہو رہے ہیں؛ تاہم دورِ حاضر کے تقاضوں سے مطابقت رکھنے والی تبدیلیاں یقینی بنانے پر متوجہ نہیں ہوتے۔ معیشت و معاشرت کے حوالے سے لگی بندھی سوچ کو گلے لگالیا گیا ہے۔ ثقافت اور علم و فن کے شعبے میں بھی گھسی پٹی سوچ ہی سے کام چلایا جارہا ہے۔ علم و فن کے معاملات میں بھی سطحی نوعیت کی زندگی کو وجود کا حصہ بنایا جارہا ہے۔ معاشی معاملات میں ساکت و جامد سوچ کے ساتھ کام کیا جارہا ہے۔ اس کا جو نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے وہی برآمد ہو رہا ہے۔ ہم آگے نہیں بڑھ پارہے۔ لازم ہوچکا ہے کہ عصری علوم و فنون کو خندہ پیشانی اور وسیع القلبی کے ساتھ اپنایا جائے۔ جب تک ایسا نہیں کیا جاتا تب تک کچھ بھی بہتر نہیں ہوسکتا۔ ہر نئی ٹیکنالوجی محض اس لیے نہیں ہوتی کہ قبول کرلی جائے یا اُس سے مستفید ہوا جائے۔ انسان کو نئی ٹیکنالوجیز سے مستفید ہوتے وقت اس بات کا بھی رکھنا ہوتا ہے کہ اُس کی زندگی بھی کچھ نہ کچھ بدلے اور اَپ گریڈیشن کے مرحلے سے گزرتی ہوئی ٹیکنالوجیز زندگی کا معیار بلند کرتی جائیں، زندگی آسان تر اور مسرت سے ہم کنار ہوتی جائے۔
وقت کے تقاضوں کو سمجھنا سب کے بس کی نہیں۔ جو اپنے معاملات اور ماحول میں رونما ہوتی ہوئی تبدیلیوں پر مستقل اور گہری نظر رکھتے ہیں وہی زندگی کا حق ادا کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ وقت اگرچہ غیر جانبدار ہے؛ تاہم بادی النظر میں بہت بے رحم ہے۔ یہ کسی کو ذرا سی بھی رعایت نہیں دیتا۔ آج کی دنیا صرف تبدیلیوں سے عبارت ہے۔ ویسے تو خیر ہر دور میں تبدیلیاں رونما ہوتی تھیں اور دنیا کا حلیہ بدل دیتی تھیں مگر اب معاملہ یہ ہے کہ پورے کے پورے شعبے داؤ پر لگ رہے ہیں۔ نئی ٹیکنالوجیز پہلے سے موجود اشیا و خدمات کے بڑے حصے کو داؤ پر لگادیتی ہیں۔ ایسے میں کسی کے پاس بھی ساکت و جامد اور غیر جانبدار رہنے کا آپشن نہیں رہا۔ اب سب کو بدلنا ہے، بدلتے رہنا ہے۔ وقت کے ساتھ ہم آہنگ رہنے کی اور کوئی صورت نہیں۔ ٹیکنالوجیز ہم سے محض اَپ ڈیٹنگ کا نہیں بلکہ اَپ گریڈیشن کا بھی تقاضا کرتی ہیں۔ یہ مستقل نوعیت کا چیلنج ہے۔ اِس چیلنج سے صرفِ نظر ممکن ہی نہیں کیونکہ ایسا کرنا زندگی کے پورے ڈھانچے کو داؤ پر لگادیتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved