محسوس یوں ہوتا ہے کہ جیسے جمہوریت اور سیاسی جماعتوں پر عوامی عدم اعتماد بڑھتا جارہا ہے۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ عوام آمریت یا ڈکٹیٹر شپ کی راہ تک رہے ہیں ‘ محسوس کچھ یوں ہوتا ہے کہ جیسے ان میں یہ احسا س راسخ ہوتا جارہا ہے کہ ملکی نظام ڈلیور نہیں کرپارہا۔ یہ نظام اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال ہوچکا ہے‘ جو صرف مخصوص طبقات کو فائدہ پہنچا رہا ہے۔ جس تیزی سے ملک میں امیر طبقہ وسائل کی بنیاد پر امیر سے امیر اور متوسط و غریب طبقہ نچلی سطح پر کھسکتا جارہا ہے ‘ اس سے ایک عام پاکستانی میں مایوسی کا عنصر غالب ہے۔ ایک ہی سال میں اگر سات لاکھ سے زائد پاکستانی ملک چھوڑ گئے ہیں تو اس میں سمجھنے والوں کیلئے بہت سی نشانیاں ہیں۔ ہمارا سیاسی نظام گزشتہ پانچ سال سے چوں چوں کا مربہ بنا ہوا ہے‘ جس میں بھانت بھانت کی بولیاں ہیں ‘ نعرے ہیں ‘ الزامات ہیں ‘ دھمکیاں ہیں ‘ چھینا چھپٹی ہے اگر کچھ نہیں ہے تو عوام کے مسائل کا حل نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سیاسی رہنماؤں کی جانب سے اپنے مخالفین پر الزامات اور برا بھلا کہنے کا جو چلن شروع ہوا اس کا سب سے سنگین نقصان یہ ہوا کہ عوام کا سیاستدانوں پر اعتماد ختم ہوگیا۔ حال ہی میں سامنے آنے والے ایک سروے میں اس رجحان کا واضح اظہار نظر آیا۔ گیلپ کی جانب سے کئے گئے ایک سروے میں جب سوال پوچھا گیا کہ اگر ایماندار سیاستدانوں اور ٹیکنو کریٹس پر مشتمل ایک نئی سیاسی جماعت وجود میں آئے تو آپ اپنی موجودہ سیاسی پارٹی کو چھوڑ کر اسے ووٹ دینا پسند کریں گے؟ تو اس سوال کے انتہائی دلچسپ نتائج سامنے آئے۔ 53 فیصد رائے دہندگان نے اس کا جواب ہاں میں دیا اور 47 فیصد کا رسپانس نفی میں تھا۔ اس کا مطلب ہوا کہ شہریوں کی ایک بڑی تعداد ان پارٹیوں کو سپورٹ کررہی ہے جو ان کے کام اور ایجنڈے سے مطمئن نہیں ‘ لیکن صرف اس وجہ سے ان کے ساتھ کھڑی ہے کہ ان کے پاس کوئی بہتر متبادل نہیں۔ سروے کی تفصیلات میں جائیں تو سب زیادہ یعنی 52 فیصد افراد کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے تھا جو یہ چاہتے ہیں کہ اگر انہیں بہتر سیاسی جماعت ملے تو وہ اس کو ووٹ دینا زیادہ پسند کریں گے۔ اس بات کے دو مطلب لئے جاسکتے ہیں۔ اول ‘ عمران خان اور پی ٹی آئی کی ملک کو مسائل سے نکالنے کی صلاحیت پر پی ٹی آئی کے بیشتر ووٹروں کر اعتماد نہیں۔ دوئم ‘ یہ ووٹر جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے پاس مسائل کا حل نہیں ‘ لیکن یہ( ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کو ووٹ دینے کو بھی تیار نہیں‘ یعنی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف اور آصف زرداری کے مقابلے میں عمران خان بہتر ہیں اسی لئے وہ ان کو ووٹ دینے کو تیار ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عوام کے دماغ میں سیاستدانوں کا امیج مسخ کرنے کیلئے منظم مہمیں چلائی گئیں جبکہ سیاستدانوں نے خود بھی ایک دوسرے کو داغدار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اس مہم کو ایک نئے درجے پر پہنچایا اور خود اقتدار میں پہنچنے کیلئے باقی سب کو چور اور خود کو فرشتہ ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے سوشل میڈیا اور جلسے جلوسوں کا خوب استعمال کیا ‘ جھوٹے سچے الزامات پر مشتمل بیانیہ تشکیل دیا اور عوام میں اپنے سیاسی مخالفین کیلئے نفرت بڑھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ جب یہ موقع اتحادی حکومت کو ملا تو انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان کی کردار کشی کا ہر حربہ آزمایا۔ توشہ خانہ اور فارن فنڈنگ کیس کے علاوہ ان کی بیٹی کے کیس کو بھی خوب اچھالا اور کوشش کی کہ ان کا مسٹر کلین اور صادق و امین کا امیج داغدار کیا جائے۔ اب اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستانی سیاست الزامات تر الزامات کا مجموعہ بن گئی ہے ‘ جس میں سیاسی مخالف کے بارے میں پور ے پورے مقالے پیش کئے جارہے ہیں‘ لیکن اگر بات نہیں ہورہی تو عوام کی اور عوامی مسائل کی۔ ہمارے سیاسی بیانیے سے عام آدمی اور مجموعی طور پر پوری قوم مائنس ہے‘ باقی ہر شے پلس ہے۔ اگر ایسے میں شہری موجودہ سیاسی نظام اور جماعتوں پر اپنے شبہات کا اظہار کرتے ہیں ‘ ان سے مایوسی کا اظہار کررہے ہیں تو پھر اس میں اتنی حیرانی کی کوئی بات نہیں۔ آپ تقاریر اُٹھا کر دیکھ لیں کہ کیا اتحادی حکومتوں کے رہنما میاں شہباز شریف‘ آصف علی زرداری ‘ مریم نواز‘ بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمان اپنی تقاریر میں کبھی واضح کرتے ہیں کہ ان کے پاس عوامی خدمت کا کوئی منصوبہ ہے؟ اور وہ کیسے عوام کے مسائل حل کریں گے ؟ اسی طرح عمران خان اپنی تمام توانائیاں دکھڑے رونے میں گزار دیتے ہیں کہ وہ کتنے بے اختیار وزیراعظم تھے اور انہیں اقتدار سے نکالنا دراصل ایک عالمی سازش تھی ‘ لیکن خان صاحب یہ نہیں فرماتے کہ انہوں نے اقتدار میں رہتے ہوئے اپنی پالیسیوں سے کیسے ملک کو موجودہ بحران میں گھسیٹا اور اب اگر وہ دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں تو عوام کے مسائل کے حل کیلئے کیا کریں گے۔ ان کی زبان سے چور اور ڈاکو جیسے القابات ایسے جھڑتے ہیں کہ اب وہ ہر سیاسی بیانیے کا حصہ بن چکے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اس ساری صورتحال کے پاکستان پر سنگین نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔ ریاست تو 1958ء سے سیاستدانوں کو ایبڈو جیسے کالے قوانین کے ذریعے چور ڈاکو ثابت کرنے پر تلی رہی ہے ‘ جسے مشرف مرحوم نے نیب کے ذریعے ایک نئے لیول پر پہنچایا۔ ان سب نے جرنیلوں ‘ ججوں اور بیوروکریٹس کو احتساب کے عمل سے کوسوں دور رکھا اور تمام کا تمام ملبہ سیاستدانوں پر ڈالا‘ لیکن جب سیاستدان بھی اسی لائن کو لے کر ایک دوسرے کو چور ڈاکو ثابت کرنے کی کوشش میں جتے رہیں گے تو پھر عوام کا ان پر سے اعتماد کیوں متزلزل نہیں ہوگا ؟ یہی وجہ ہے کہ اکثریتی باشعور ووٹر کسی ''صاف ستھری‘‘ سیاسی جماعت کی تلاش میں ہے۔ ویسے بھی اگر ہم پاکستانی تاریخ کا ٹریک ریکارڈ دیکھیں تو پاکستان کا مستقل حکمران طبقہ یعنی مقتدرہ بھی ہر دس سال بعد ملک کو نئی سیاسی قیادت فراہم کرنے کی جستجو میں رہتی ہے اور پُرانی قیادت کو سیاست سے آؤٹ کرنے کی کوشش میں۔ ایوب خان کے دس سال کے نتیجے میں بھٹو سامنے آئے۔ 1967ء میں سامنے آنے والے ذوالفقار علی بھٹو کو 1977ء میں ضیا الحق سے بدل دیا گیا۔ 1988ء میں بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف سامنے آئے۔1999ء میں پرویز مشرف آگئے۔ 2008ء میں وہ فارغ ہوئے اور پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ دوبارہ اقتدار میں آگئے۔2018ء میں عمران خان اقتدار میں آگئے اور اب پراجیکٹ عمران خان کے دس سال مکمل ہونے کے بعد لگتا ہے کہ کوئی نئی اور'' صاف ستھری‘‘ قیادت سامنے آسکتی ہے۔ اس حوالے سے سب کی نظریں '' ری امیجنگ پاکستان ‘‘ نامی ایک فورم پر ہیں جس میں شاہد خاقان عباسی ‘ مفتاح اسماعیل ‘ مصطفی نواز کھوکھر اور فواد حسن فواد جیسے ٹیکنوکریٹس اور'' صاف ستھرے‘‘ سیاستدان بھی شامل ہیں۔ تو نجانے کیوں خیال آتا ہے کہ کہیں یہ وہ شاہکار تو نہیں جس کا سب کو انتظار ہے ؟ بہرحال ‘ مجموعی طور پر جمہوریت پر منفی اثرات کی براہ راست وجہ سیاستدانوں کی خود غرضی اور آئین و قانون کو اہمیت نہ دیناہے۔ سیاستدان خود پر عوامی اعتماد بحال کرسکتے ہیں اگر وہ خود غرضی اور ذاتی مفاد کو پسِ پشت رکھ کر عوام کی بات کریں ‘ ان کے مسائل پر ڈائیلاگ کریں۔ ایک دوسرے کو سیاسی حریف سمجھیں نہ کہ ذاتی دشمن۔ بظاہر یہ چھوٹے چھوٹے اقدام ہیں لیکن ان کے نتائج دور رس ہوں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved