امریکا سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک میں چھانٹی کا موسم چل رہا ہے۔ بڑی ہائی ٹیک کمپنیوں اور ان سے جڑے ہوئے دوسرے چھوٹے یا درمیانے حجم کے اداروں سے ہزاروں افراد کو فارغ کردیا گیا ہے۔ یہ تو ہونا تھا۔ بات کچھ یوں ہے کہ کورونا کی عالمگیر وبا کے دوران گھر بیٹھے کام کرنے کا کلچر پروان چڑھا تھا۔ آئی ٹی سیکٹر کے لیے یہ بوم یا تیزی کا زمانہ تھا۔ موقع غنیمت جان کر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں لاکھوں نوجوان آئی ٹی سیکٹر سے وابستہ ہوئے۔ جب دنیا بھر میں کروڑوں افراد گھر بیٹھے کام کر رہے تھے تب انٹرنیٹ‘ سمارٹ فون‘ لیپ ٹاپ کمپیوٹر‘ پی سی اور دیگر جدید آلات کی طلب اتنی بڑھی کہ متعلقہ اداروں کے لیے مطلوب رسد فراہم کرنا دردِ سر ہوگیا۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی طلب کے مطابق رسد کا دریا بہتا رکھنے کے لیے لازم ہوگیا کہ بڑے پیمانے پر بھرتیاں کی جائیں اور بھرتیاں کی گئیں۔ جب تک کورونا کی وبا رہی تب تک یہ بھرتیاں ہر اعتبار سے اپنا جواز ثابت کرتی رہیں اور متعلقہ اداروں نے چار سے پانچ گنا تک منافع کمایا۔ کورونا کی وبا کے دو برس یوں گزرے کہ جن اداروں نے کبھی غیرمعمولی منافع کا سوچا بھی نہ ہوگا‘ ان کی بھی تجوریاں ایسی بھریں کہ دنیا دیکھتی رہ گئی۔
اب آئی ٹی سیکٹر کی وہ تیزی جا چکی ہے۔ بیشتر ہائی ٹیک کمپنیاں جانتی ہیں کہ حالات نے پلٹا کھاکر ان کے لیے غیر معمولی بلکہ قابلِ رشک منافع کمانے کی راہ ہموار کی تھی۔ یہ کوئی ہمیشہ رہنے والا موسم تو نہ تھا۔ ایسا منافع سدابہار ہو ہی نہیں سکتا۔ جب تیزی کا زمانہ رخصت ہوا تو چھانٹی کا زمانہ شروع ہوا۔ امریکا اور یورپ کے بہت سے ہائی ٹیک اداروں نے افرادی قوت میں واضح کمی کی مہم شروع کی تو ہزاروں افراد کو فارغ کردیا گیا۔ انہیں بٹھا کر کھلایا نہیں جا سکتا تھا۔ کتنا منافع کمایا گیا ہے‘ یہ الگ بات ہے اور کسی کو بٹھا کر کھلانا اور بات۔ حقیقی کاروباری اداروں کی ایک بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ کسی بھی حال میں غیرضروری بوجھ برداشت نہیں کرتے۔ مشینوں کا بھی‘ انسانوں کا بھی اور متعلقہ ذیلی اخراجات کا بھی۔
مغرب میں ورک کلچر تیزی سے بدل رہا ہے۔ ایک بڑے امریکی میڈیا آؤٹ لیٹ کی تازہ رپورٹ کے مطابق امریکا بھر میں دفتر یا گھر میں بیٹھ کر کام کرنے والوں کی تعداد غیرمعمولی حد تک زیادہ ہوگئی ہے۔ آئی ٹی کے شعبے میں رونما ہونے والی غیرمعمولی پیش رفت نے عام نوجوان کو پرسکون جاب تلاش کرنے کی دوڑ میں لگا دیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب روایتی ہنر مندی سے وابستہ نوجوانوں کی تعداد گھٹتی جارہی ہے۔ سبھی چاہتے ہیں کہ آئی ٹی سیکٹر سے جڑی ہوئی جاب حاصل کرکے سکون کی زندگی بسر کریں۔ آن لائن کام کرنے کا کلچر ایسا پروان چڑھا ہے کہ اس طرف آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ ایک عشرے کے دوران دفاتر نے اپنا اچھا خاصا کام گھر بیٹھ کر کام کرنے والوں کو سونپ کر سکون کا سانس لیا ہے۔ یہ لاگت میں کمی کے حوالے سے بھی اچھا فیصلہ ہے مگر اس کی بھی ایک حد تو ہونی ہی چاہیے۔
آج دنیا بھر میں نوجوانوں کو دفاتر کے بعد گھر بیٹھے کام کرنے میں زیادہ کشش محسوس ہوتی ہے۔ ''ورک فرام ہوم‘‘ کا کلچر ہمارے ہاں بھی تھوڑا بہت تو پروان چڑھا ہے۔ مغرب میں یہ سب کچھ بہت پہلے سے چلن میں ہے۔ ابتدا میں اسے ''ٹیلی کمیوٹنگ‘‘ کہا جاتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے چند ایک موزوں تبدیلیوں کے ساتھ ورک فرام ہوم یا پھر ''ہوم بیسڈ ورک‘‘ کہا جانے لگا۔ آج دنیا بھر میں کروڑوں افراد ورک فرام ہوم کے عادی ہیں یعنی گھر بیٹھے کام کرتے ہیں اور یومیہ بنیاد پر دفتر جانے اور واپس آنے کی زحمت سے بچے ہوئے ہیں۔
یہ تو ہوئی ایک خوش گوار حقیقت۔ اس سے جڑی ہوئی تلخ حقیقت یہ ہے کہ گھر بیٹھے کام کرنے والے کروڑوں نوجوانوں سے ہٹ کر بھی ایسے کروڑوں نوجوان ہیں جو گھر بیٹھے کام کرنے کے شوق میں گھر سے پنڈ چھڑانے کو تیار نہیں۔ ان کے لیے بہت سے شعبوں میں بہت کچھ کر دکھانے کی گنجائش ہے مگر وہ اپنے آپ کو آزمانے کے لیے تیار ہی نہیں۔ ان کے ذہنوں میں صرف یہ تصور بسا ہوا ہے کہ کام ملے تو ایسا کہ کہیں جانا نہ پڑے اور قابلِ رشک یافت کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہو جائے۔ اب یہ سب کچھ سب کے لیے تو ممکن نہیں بنایا جا سکتا۔ گھر بیٹھے کیے جانے والے کام کی بھی ایک خاص حد تو ہے ہی۔ اور افرادی قوت کا حجم بڑھنے سے امکانات گھٹتے چلے جاتے ہیں۔ مسابقت زیادہ ہو تو یافت بھی گھٹ جاتی ہے۔ بہت سے لوگ جز وقتی طور پر یہ کام کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں باضابطہ ملازمت کے تحت کام کرنے والوں کی تعداد گھٹتی جاتی ہے اور یوں اداروں کے اخراجات بھی گھٹتے جاتے ہیں۔ ایسے میں کسی ایسے مقام کا آنا بھی لازم ہے جہاں یہ شعبہ زیادہ یا خصوصی طور پر پرکشش نہ رہے۔ اب ایسا ہی ہوتا جارہا ہے۔
مغرب اور بالخصوص امریکا میں جسمانی مشقّت کے ذریعے کمانے والوں کی تعداد گھٹتی جارہی ہے۔ نئی نسل روایتی ہنر سیکھنے میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہی۔ وہ اعلیٰ تعلیم کے اداروں سے صرف یہ سیکھ کر نکل رہی ہے کہ کام ملے تو وہ جو ایئر کنڈیشنڈ دفتر میں ہو یا پھر گھر کے پرسکون ماحول میں۔ تدریس میں بھی آن لائن کلچر اتنا زیادہ آچکا ہے کہ طلبہ کی اکثریت کلاس روم کی لذت ہی بھول گئی ہے۔ کلاس روم کی تدریس اور آن لائن تدریس میں بہت واضح فرق ہے۔ آن لائن پڑھنے والے بچے بہت کچھ کھو بیٹھتے ہیں۔ کلاس روس میں بچوں کے اعتماد کا گراف بلند ہوتا جاتا ہے۔
امریکا اور یورپ میں اس وقت ہنر مند نوجوانوں پر مشتمل افرادی قوت کی واضح قلت پائی جاتی ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ نئی نسل زیادہ مشقّت والے کام کرنے کے لیے تیار نہیں۔ بعض روایتی نوعیت کے شعبوں میں افرادی قوت کی کمی اتنی ہے کہ جو لوگ کام کر رہے ہیں‘ وہ جامعات کے پڑھے ہوئے نوجوانوں سے زیادہ کما رہے ہیں۔ ڈرائیونگ‘ انجینئرنگ‘ پلمبنگ‘ الیکٹرک فٹنگ اور دیگر بہت سے شعبوں میں کام کرنے والے قابلِ رشک آمدن کے حامل ہیں۔ امریکا میں سپر سٹورز‘ کھیتوں‘ فلنگ سٹیشنز‘ فوڈ آؤٹ لیٹس اور دیگر بہت سے شعبوں میں کام کرنے والوں کی قلت پائی جاتی ہے۔ نوجوانوں کی اکثریت مستقبل کے حوالے سے سنہرے سپنے دیکھتی رہتی ہے اور چاہتی ہے کہ ہاتھ پیر ہلائے بغیر بہت کچھ مل جائے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ادارے نوجوانوں کو مستقبل کے لیے تیار تو کرتے ہیں مگر کریئر کاؤنسلنگ نہیں کی جاتی کہ متعلقہ شعبوں میں کتنی افرادی قوت کھپ سکے گی۔ اعلیٰ تعلیم کے اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والوں کی اکثریت کے ذہن میں یہ تصور بسا ہوا ہے کہ کام تو وہ ہے جو ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں کیا جائے۔ فیلڈ میں جانے‘ جسمانی مشقّت کے ذریعے کچھ کمانے کو کمتر درجے کا کام سمجھا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں بے روزگاری بھی بڑھتی جاتی ہے۔ ایک زمانے سے ہمارے ہاں بھی کچھ ایسی ہی کیفیت ہے۔ جب کوئی شعبہ مقبولیت سے ہم کنار ہوتا ہے تو نوجوان سوچے سمجھے بغیر اس کا رخ کرتے ہیں اور تعلیم پانے کے لیے ڈگری پکڑے جاب مارکیٹ میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔
ہنر ہر دور میں کامیاب رہا ہے۔ تعلیم چاہے کسی بھی سطح اور کسی بھی درجے کی ہو‘ انسان کو وہ سب کچھ نہیں دے سکتی جو ہنر کے ذریعے ملتا ہے۔ ہنر مندی سے قومیں پنپتی ہیں۔ یورپ اور امریکا کی تاریخ گواہ ہے کہ ہنر مندی ہی نے دونوں خطوں کو باقی دنیا پر فوقیت بخشی۔ ہائی ٹیک دور شروع ہونے سے قبل ان دونوں خطوں کے ہنر مند اور محنت کش پوری دنیا کے لیے مثال تھے۔
پاکستان کے حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نئی نسل اپنی سمت درست کرے۔ پرسکون ملازمت تلاش کرنے کے بجائے مشقّت والے کام کیے جائیں کیونکہ ان کا معاوضہ زیادہ ہے۔ دفاتر میں کام کرنے والوں کے مقابلے میں ہنر مند آج بھی زیادہ کما رہے ہیں اور انہیں یومیہ بنیاد پر آمد و رفت کی کوفت بھی نہیں جھیلنا پڑتی۔ ہنر اپنائے جائیں کیونکہ جیت انہی کی ہوتی ہے جو ہنر مند ہوتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved