علی بلال عرف ظلِ شاہ پہلی بار نہیں مارا گیا۔ وہ صدیوں سے مارا جا رہا ہے۔ آثار و قرائن بتاتے ہیں کہ اس کے قتل کا یہ سلسلہ رکنے والا نہیں!
سکندر حملہ آور ہوا تو علی بلال دریائے جہلم کے مغربی کنارے پر کھڑا‘ راجہ پورس زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا۔ یونانی گھڑ سواروں نے اسے یوں روند ڈالا جیسے وہ انسان نہ ہو کیڑا ہو۔ مزے کی بات یہ ہے کہ راجہ پورس اسے جانتا تھا نہ اس کی ہلاکت ہی کی اسے خبر دی گئی۔ تغلقوں کے زمانے میں اس کی زندہ کھال کھینچ ڈالی گئی۔ قصور اس کا صرف اس قدر تھا کہ بادشاہ کی بیگم کی سواری جا رہی تھی۔ پچاس ہزار فوجی ساتھ تھے۔ علی بلال عرف ظلِ شاہ اپنے جانوروں کو ہانکتا‘ روکتا‘ راستے میں آگیا۔ اس پر سازش کا الزام لگا اور زندہ کھال کھینچنے کی سزا سنائی گئی۔ ابن بطوطہ ملتان سے دہلی آرہا تھا۔ اس نے یہ منظر دیکھا اور اپنے سفر نامے میں محفوظ کر لیا۔ مغل اور سوری آپس میں برسرِ پیکار ہوئے تو علی بلال سوریوں کے کیمپ میں پانی بھر رہا تھا۔ ایک مغل زادے کے تیر نے اس کا کام تمام کر دیا۔ سوریوں کو خبر ہی نہ ہوئی کہ ایک ماں کا لعل ان پر قربان ہو گیا۔ شاہ جہاں کی اولاد میں تخت نشینی کی خوفناک جنگ چھڑی۔ شہر کے شہر اجڑ گئے۔ لاکھوں روپوں کی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ علی بلال شہزادہ مراد کے سرخ خیمے کے چوکیداروں میں شامل تھا۔ بادشاہ اورنگ زیب نے‘ جو اپنے زمانے کا پورا پورا جنرل ضیا الحق تھا‘ مراد کو رسیوں سے باندھ کر گوالیار کے قلعے کی طرف روانہ کر دیا۔ مراد کے خیمے کے گارڈ مار دیے گئے۔ علی بلال کا خون بھی اسی خونِ خاک نشیناں کا حصہ تھا۔
ہر زمانے میں‘ ہر بادشاہی میں‘ ہر عہد میں‘ علی بلال قربانی کا بکرا بنا۔ وہ ہمیشہ گمنامی کی موت مرا۔ ہمیشہ اس کی موت کسی سردار‘ کسی چوہدری‘ کسی خان کے استحکام کا باعث بنی۔ علی بلال کے پسماندگان ہمیشہ روتے رہے۔ بچے یتیم ہوئے۔ بیوی‘ بیوہ ہوئی۔ مگر کسی نے بھی تخت سنبھالنے کے بعد‘ یا تخت سنبھالنے سے پہلے‘ اس کے گھر میں قدم رکھا نہ بچوں کے سر پر ہاتھ۔ کوئی پنشن نہ جاگیر نہ انعام! اٹھارہ سو ستاون کا غدر برپا ہوا تو اس نے عقل مندی کا ثبوت دیا اور انگریز سرکار کی نوکری کر لی۔ باغیوں کا زور بڑھا تو اس کی ڈیوٹی ایک کوٹھی پر لگائی گئی جس میں انگریزی خاندان پناہ لیے ہوئے تھے۔ باغیوں نے حملہ کیا تو اسے بھی قتل کر دیا حالانکہ کہتے تو ان کے ساتھ مِل جاتا۔ بھٹو صاحب پھانسی لگے تو علی بلال نے شاہی قلعے میں صعوبتیں برداشت کیں۔ کوڑے کھائے مگر پارٹی بر سر اقتدار آئی تو اس کی حالت میں کوئی تبدیلی رونما نہ ہوئی۔ وہی دھوئیں سے بھری رسوئی‘ وہی مٹی اڑاتا ویہڑا‘ وہی ٹپکتی چھت‘ وہی بد حال بچے!
2007ء میں کارساز کراچی کے مقام پر دھماکہ ہوا تو اس میں علی بلال بھی ہلاک ہو گیا۔ اس کا کہیں ذکر ہے نہ نام! ماڈل ٹاؤن کا قتل عام ہوا تو علی بلال نے امیدیں علامہ صاحب سے باندھ رکھی تھیں‘ سو وہ بھی شہید ہوا۔ علامہ صاحب کینیڈا میں ہیں۔ چند دن پہلے ان کی تصویر دیکھی۔ انگریزی ہیٹ اوڑھے‘ گھڑ سواری کر رہے تھے۔ کوئی فارم تھا شاید! چہرے کی لالی بتا رہی تھی کہ علی بلال کا لہو کافی رنگین تھا۔ مدتوں علی بلال جلسہ گاہوں میں ''میاں دے نعرے وجّن گے‘‘ گاتا رہا مگر اس کی ملاقات کبھی میاں صاحب سے ہو سکی نہ مریم بی بی سے۔ عمران خان زمان پارک میں محصور ہوئے تو علی بلال بھی اُن شیدائیوں میں شامل تھا جو رات دن وہاں پہرا دے رہے تھے۔ اس نے بہت کوشش کی‘ بہت ٹِل مارے‘ بہت لوگوں سے کہا کہ ایک بار‘ کم از کم‘ ایک بار‘ خان صاحب سے ہاتھ ملا لے۔ مگر کسی نے مدد نہ کی۔ علی بلال کی آخری موت زمان پارک کے دھرنے میں ہوئی ہے۔ جس لیڈر کے لیے اس نے جان دے دی‘ اس سے زندگی بھر ہاتھ تک نہ ملا سکا۔ لیڈر اس کے جنازے میں گیا نہ تعزیت کے لیے اُس کے گھر! اس کے قابلِ رحم بوڑھے باپ کو محل میں طلب کیا گیا تاکہ خان صاحب تعزیت کر سکیں! تصویر میں وہ مسکین یوں بیٹھا تھا جیسے ہاری ہو اور خان صاحب اپنی مسند پر یوں تشریف فرما تھے جیسے بہت بڑے فیوڈل ہوں!
کچھ قدریں ہماری ثقافت کا لازمی جزو ہیں۔ معاشرے کا حسن انہی سے قائم ہے۔ مفلس سے مفلس انسان بھی گھر آئے ہوئے مہمان کی خاطر داری ضرور کرتا ہے۔ مہمان کے سامنے صرف اپنے لیے چائے یا شربت یا کھانا منگوانے کا تصور پست سے پست خاندانوں میں بھی ناپید ہے۔ اسی طرح اعزّہ و احباب کے جنازوں میں شرکت بھی ہماری روایت کا حصہ ہے۔ تعزیت کے لیے وفات پانے والے کے پس ماندگان کے پاس جانا ہوتا ہے اور دعا مانگی جاتی ہے۔ دیہات میں تو بھینس یا گائے مر جائے‘ تب بھی افسوس کے لیے جاتے ہیں۔ کبھی سنا تھا نہ دیکھا‘ نہ سوچا کہ پس ماندگان کو اپنے گھر بلا کر بھی تعزیت کی جائے گی۔ ایوب خان کے دور میں طلبہ کا ہنگامہ ہوا تو ایک طالب علم‘ عبد الحمید‘ فساد کے دوران جاں بحق ہو گیا۔ بھٹو صاحب اس کے گھر‘ پنڈی گھیب‘ گئے۔
علی بلال عرف ظلِ شاہ کی وفات کا بوجھ‘ حکومت اور پولیس کی گردن پر ہے اور انہیں آج نہیں تو کل حشر کے دن اس کا جواب دینا ہوگا۔ تحریک انصاف کے کار کن ریلی نکال لیتے تو کون سی قیامت آ جاتی؟ یہ کہنا کہ اس دن عورت مارچ بھی تھا‘ ایک بے معنی بات ہے۔ کیا پی ٹی آئی کی ریلی اور عورت مارچ ایک دوسرے پر حملہ کر دیتے؟ اچھے بھلے عقل مند لوگ اقتدار میں آکر عقل کھو دیتے ہیں۔ وفاقی دار الحکومت میں عورت مارچ کے شرکا پر تشدد کیا گیا۔ پولیس نے عورتوں پر ڈنڈے برسائے۔ یہ جرم بھی ہے اور پرلے درجے کی جہالت بھی۔ جب مشتعل ہجوم بے گناہ افراد کو تھانوں کے اندر سے نکال کر ان پر ہولناک تشدد کرتا ہے‘ پٹرول چھڑک کر لاش جلاتا ہے‘ اس وقت پولیس والے غائب ہو جاتے ہیں وہی پولیس سیاسی ریلی اور عورت مارچ جیسی سرگرمیوں کو نہ صرف روکتی ہے بلکہ شرکا پر تشدد بھی کرتی ہے۔ضروری نہیں کہ ہم کسی ریلی یا مارچ کے مقاصد سے اتفاق کریں‘ مگر ریلی نکالنا سیاسی حق ہے اور مارچ ‘ خواہ عورت مارچ ہے یا حیا مارچ‘ سماجی حق!
منظر وہی رہتا ہے۔ کردار بدلتے رہتے ہیں۔ ایک سیاسی جماعت پولیس کو ذاتی فورس کے طور پر استعمال کرتی ہے اور مخالف کی زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیتی ہے۔ پھر دوسری سیاسی جماعت اقتدار میں آکر اسی پولیس کے ذریعے حریف کو کچلنے لگتی ہے۔ تحریک لبیک ‘ نواز شریف کے عہد میں‘تحریک انصاف کی آنکھوں کا تارا تھی۔ تحریک انصاف کی اپنی حکومت آئی تو وہ تحریک لبیک کے ساتھ گتھم گتھا ہو گئی۔ جو کچھ ہوا ‘ پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہے۔ جس دن پاکستانی پولیس کو وہ اختیارات مل گئے جو برطانیہ یا فرانس کی پولیس کو حاصل ہیں‘ یہی پا کستانی پولیس ریلیوں پر حملہ کرنے کے بجائے ان کی حفاظت کیا کرے گی۔ مگر جب تک پولیس حمزہ شہباز کی جیب سے مونس الٰہی کی جیب میں منتقل ہوتی رہے گی ‘ علی بلال مرتے رہیں گے۔ پولیس چیف پر ذمہ داری ہے مگر کام کرنے کی آزادی نہیں! اس کے افسروں اور اہلکاروں کی تعیناتیاں کہیں اور ہوتی ہیں! جو تعیناتیاں کرتے ہیں‘ حکم بھی انہی کا مانا جاتا ہے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved