تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     13-03-2023

بے چارہ ظلِ شاہ

8 مارچ 1977ء کا وہ دن مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے جب شہر لاہور میں مال روڈ پر چیئرنگ کراس اور پنجاب اسمبلی کی عمارت کے اردگرد پاکستان قومی اتحاد نے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کرتے ہوئے احتجاجی جلوس نکالا تھا۔ اس جلوس پر لاٹھیاں اس اندھا دھند طریقے سے برسائی گئیں کہ ان کی تکلیف دیر تک محسوس کی جاتی رہی۔ جعلی اور دھاندلی سے بھرپور صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کرتے ہوئے قومی اتحاد کی خواتین نے ایک احتجاجی جلوس نکالنے کی کوشش کی تو اس وقت کی صوبائی حکومت کی جانب سے مشہور زمانہ ''نتھ فورس‘‘ نے جس طرح ان خواتین پر دھاوا بولا، جیسے ان کے دوپٹے اور چادریں شرمناک طریقے سے نوچی گئیں‘ وہ منا ظر دیکھنے والوں کو آج بھی نہیں بھولے ہوں گے۔ اس تحریک کا ایک ایک لمحہ اور بہت سے چھپے ہوئے گوشے مجھے آج بھی پوری طرح یاد ہیں۔ سٹوڈنٹ یونین کی لیڈری کی وجہ سے ہر بڑے اور اہم سیاسی لیڈر سے میرے ذاتی رابطے تھے‘ اس لیے اس تحریک کے ہر گوشے تک میری رسائی رہی۔
جب 8 مارچ 2023ء کو تحریک انصاف کی جانب سے لاہور میں انتخابی شیڈول کے اعلان کے مطابق ریلی نکالنے کا اعلان ہو چکا تھا اور اس ریلی کی کوریج کی تیاریاں کی جا رہی تھیں‘ اچانک رات گئے کچھ خاص دوستوں کے ذریعے پہنچنے والی اطلاعات نے چونکا کر رکھ دیا۔ یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایسا بھی کیا جا سکتا ہے لیکن حکم صادر ہو چکا تھا۔ آٹھ مارچ چونکہ خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے‘ لہٰذا اس دن خواتین کے عالمی دن سے متعلق ایک تقریب ہونا تھی جس میں ایک اہم خاتون سیاسی رہنما کا خطاب ارینج کیا گیا اور ذرائع ابلاغ کو پابند کر دیا گیا کہ اس خطاب کو بھرپور طریقے سے کوریج دینی ہے اور براہِ راست نشر کرنا ہے‘ اس لیے کسی قسم کی کوئی دوسری تقریب لاہور میں نہیں ہونی چاہئے۔ صبح ہوتے ہی ایک اور اطلاع ملی کہ مزید احکامات جاری کیے گئے ہیں کہ ہر حکومتی ادارے کو سختی سے پابند کر دیا جائے کہ جیسے ہی ویمن ڈے کی مناسبت سے مذکورہ لیڈر کا خطاب شروع ہو‘ تحریک انصاف کی ریلی سے متعلق کسی قسم کی کوئی خبر یا ریلی کی جھلک بھی نہ دکھائی جائے اور یہ حکم اس وقت تک جاری رہے گا جب تک خواتین کے عالمی دن کی تقریب کا خطاب مکمل نہیں ہو جاتا۔ سمجھ لیجئے کہ 46 برس بعد اسی شہر لاہور میں‘ جسے زندہ دلان کا شہر کہا جاتا ہے‘ قومی اتحاد کے بجائے تحریک انصاف کے کارکنان بالخصوص خواتین کے ساتھ نمٹنے کے لیے نتھ فورس کی طرز پر خدا جانے کہاں سے مردوں پر مشتمل پولیس کی ایسی فورس بلائی گئی جس کے انسانیت سوز حملوں اور تشدد کے مظاہرے دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ لوگ کسی مہذب معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر‘ بھارت‘ روہنگیا‘ فلسطین اور دنیا بھر میں مسلمانوں پر کیے جانے مظالم کے خلاف شاید راقم ہی وہ واحد رائٹر ہے جس نے بھارت‘ اسرائیل‘ لیبیا‘ مصر‘ یمن اور عراق سمیت افغانستان و امریکہ کی سامراجی آمرانہ پالیسیوں کے خلاف ہر حد تک لکھا۔ بھارت میں مختلف طبقات پر ہوئے مظالم کو میں نے اس قدر اجاگر کیا کہ اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کے لوگ مختلف ناموں سے میری ذات کو ہدف بنانا شروع ہو گئے۔ چونکہ میری ہر تحریر میں بھارتی فوج‘ پولیس فورس اور انتہا پسند دہشت گرد ہندوتوا تنظیموں کی مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کی منظر کشی کی گئی ہوتی تھی‘ لہٰذا میری ان تحریروں کی وجہ سے میرے خلاف ایک محاذ کھول دیا گیا۔ طرح طرح کی الزام تراشیوں اور دشنام طرازیوں کا ایک باقاعدہ سلسلہ شروع ہو گیا۔ یقینا روزنامہ دنیا کے قارئین اس بات کی گواہی دیں گے۔ کالم آرکائیوز کا ریکارڈ بھی اس حوالے سے ثبوت کا درجہ رکھتا ہے کہ میں نے اپنے قلم سے ہمیشہ ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا کام لیا ہے۔
پہلے 25 مئی 2022ء کو لاہور اور پھر اسلام آباد میں اور اب 8 مارچ کو لاہور میں جو کچھ خواتین اور بچوں کے ساتھ کیا گیا‘ اس پر ہر وہ ذی روح‘ جس میں انسانیت کی ہلکی سی رمق بھی ہو گی‘ اپنے غصے اور اپنی نفرت کو چھپا نہیں سکے گا۔ کوئی بھی شخص گاڑی میں بیٹھی خواتین کو غلیظ گالیاں دینے والوں، ان کے لباس نوچنے والوں، ان پر کیمیکل ملے اور گندے و بدبودار پانی کی بوچھاڑ کر نے والوں، ان کے موبائل اور پرس چھیننے والوں، معصوم لوگوں کی گاڑیوں کے شیشے توڑنے والوں، ایسے لوگوں کی پشت پناہی کرنے والوں اور انہیں شاباش دینے والوں کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ مجھے یہ سوچ کر ڈر اور خوف آنا شروع ہو گیا ہے کہ سیاسی انتقام اس ملک و قوم کو کس حد تک لے کر جائے گا۔ یہ نجانے کون سے لوگ تھے جنہوں نے ایک غریب اور ذہنی معذور شخص کو 26 جگہ پر زخم دیے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں کو اس پر کئی دنوں سے غصہ تھا کیونکہ جب بھی پولیس آتی تھی تو یہ سب سے پہلے ان کے آگے کھڑا ہو جاتا تھا، کئی دفعہ پہلے بھی اس کی پولیس کے ساتھ ہاتھا پائی ہوئی تھی۔ دیکھنے میں ملنگ سا نظر آنے والا علی بلال عرف ظلِ شاہ طاقت میں کسی پہلوان سے کم نہ تھا۔
علی بلال (ظلِ شاہ) کو میں ذاتی طور پر بھی جانتا تھا۔ اس کو پہلی دفعہ اس وقت دیکھنے کا اتفاق ہوا جب عمران خان کی ایک پریس بریفنگ میں شرکت کیلئے زمان پارک جانا ہوا تھا۔ واپسی پر میں وہاں لگائے گئے کیمپوں اور ان میں لاہور کی مختلف آبادیوں سے جمع ہونے والے لوگوں کا جذبہ اور مورال دیکھنے کیلئے چلا گیا۔ جب مختلف کیمپوں اور جگہ جگہ کھڑے تحریک انصاف کے ورکروں سے گپ شپ لگا رہا تھا تو ایک گول مٹول سا شخص یہ سن کر ہم لوگوں کے پاس چلا آیا کہ ہمارا تعلق میڈیا سے ہے۔ وہ بڑے غور سے کبھی مجھے تو کبھی میرے ساتھ کھڑے کیمرہ مین کو دیکھ رہا تھا۔ پھر عزت‘ احترام اور شرمیلی سی مسکراہٹ سے اس نے سلام کہا۔ چونکہ میرا اس بھولے بھالے آدمی سے ملنے کا پہلا اتفاق تھا اور وہاں اور بہت سے دوسرے لوگ بھی موجود تھے‘ اس لیے اسے سرسری نظر دیکھنے کے بعد میں آگے بڑھ گیا۔ اس کیمپ سے نکل کر ہم دوسرے بہت سے کیمپوں میں گھومتے رہے لیکن جس کیمپ میں بھی جاتے‘ گول مٹول سی شکل و صورت اور معمولی سے لباس والا یہ شخص ہمارے پیچھے پیچھے چلا آتا۔ یہ حیران کن منظر دیکھ کر مجھے کچھ عجیب سا لگا۔ پھر معلوم ہوا کہ یہ شخص‘ جس کا نام بعد میں ظلِ شاہ معلوم ہوا‘ اس قدر مقبول تھا کہ ہر ایک کی کوشش ہوتی کہ ظل شاہ اس کے پاس کچھ دیر رکے۔ وہ ہمارے ساتھ چلتا رہا۔ پھر ہم نے کچھ دیر رک کر اس سے بات چیت کی، اس کی کچھ وڈیوز اور شاٹس لینے کے بعد جب واپس جانے لگے تو اس نے مجھے ایک بات کہی جس پر میں نے زیادہ دھیان نہیں دیا اور ایسے ہی سر ہلا کر وہاں سے چلا آیا۔ اس نے بڑی لجاجت سے میری ٹھوڑی کو ہاتھ لگا کر کہا کہ میری عمران خا ن سے ملاقات کرا دیں‘ میں انہیں قریب سے دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس بات پر مجھے اس کے اندر کا بچہ نظر آنے لگا۔ اس کے بعد جب کبھی زمان پارک جانا ہوتا تو ظل شاہ بھاگ کر پاس چلا آتا۔ جب ہم سکیورٹی کلیئرنس کے بعد عمران خان کے گھر کے مین دروازے کی جانب بڑھتے تو وہ یہی فرمائش کرتا کہ عمران خان سے ملاقات کرا دیں‘ جا کر میری ان سے بات کرا دیں۔
یہ ظل شاہ جو حقیقتاً ایک بھولے بھالے بچے کی مانند تھا‘ 8 مارچ کو پُراسرار حالات میں جان کی بازی ہار گیا۔ وہ ایک بے قصور شخص تھا مگر محسوس ہوتا ہے کہ اس کے قتل کی گتھی کبھی نہیں سلجھ سکے گی۔ 8 مارچ کو لگ بھگ سہ پہر چار بجے اسے پولیس نے زمان پارک سے گرفتار کیا اور مال روڈ کے پاس کھڑی قیدیوں والی وین میں بند کر دیا۔ وہیں ایک شخص سے موبائل فون لے کر اس نے اپنے والد کو فون کیا اور اپنی گرفتاری کی اطلاع دی۔ پنجاب کی نگران حکومت اور پولیس کا موقف ہے کہ گرفتاری کے بعد ظلِ شاہ کو کچھ دور لے جا کر رہا کر دیا گیا تھا‘ اس کی موت پولیس تشدد سے نہیں ،گاڑی کی ٹکر سے ہوئی ہے۔ یہ کہانی یقینا تسلیم کی جا سکتی ہے مگر اس پوسٹ مارٹم رپورٹ کا کیا کیا جائے جو بتاتی ہے کہ علی بلال کے سر پر بلنٹ انجری (کھال کو پھاڑنے والی ایسی گہری چوٹ جو ٹراما کا سبب بنے) ہوئی اور یہی اس کی موت کی وجہ تھی۔ نیز اس کے نازک اعضا سمیت26 مقامات پر گہری چوٹیں موجود تھیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved