ہمارا معاشرہ جہاں پہنچ چکا ہے وہاں اب کچھ بھی درست یا اپنے مقام پر دکھائی نہیں دے رہا۔ جس طور کبھی کبھی ڈور ایسے الجھ جاتی ہے کہ بہت کوشش کرنے پر بھی سِرا ہاتھ نہیں آتا بالکل اسی طور ہمارے ہاں بھی معاملات ایسے الجھ گئے ہیں کہ کچھ سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ اصلاحِ احوال کی ابتدا کہاں سے کی جائے۔ انسان جب سوچنے بیٹھتا ہے تو ذہن ماؤف ہونے لگتا ہے اور دیکھتا ہے تو آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔ ایسے ماحول میں اگر کوئی حوصلہ افزا معاملہ ہو جائے تو دل کو عجیب طرح کی مسرت حاصل ہوتی ہے۔ ملک کے طول و عرض میں اس وقت نفسا نفسی کا عالم ہے۔ ہر طرف صرف مفاد پرستی کا بازار گرم ہے۔ لوگ خود غرضی کے ریکارڈ قائم کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ بیشتر کو اپنی جیب اور تجوری بھرنے کی فکر لاحق ہے۔ اس فکر کے تحت کام کرنے کی صورت میں کسی کی جیب خالی ہوتی ہے تو ہو۔ ایسے عالم میں دوسروں کی مدد کا خیال کرنے والے تو مل جاتے ہیں مگر اپنی خوشی کا سامان ناداروں پر نچھاور کرنے والے خال خال ہیں۔ لکی مروت میں دو بھائیوں نے اپنے ولیمے کے مختص رقم سے نادار گھرانوں میں راشن بانٹ دیا! دونوں بھائیوں کے چچا عزیز اللہ خان لکی مروت کی تحصیل نورنگ کے ناظم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ خاندان بھر نے مل کر فیصلہ کیا کہ ولیمے کے بجٹ سے مہمانوں کی تواضع کرنے کے بجائے 600 نادار گھرانوں میں سے ہر ایک کو ایک ماہ سے زائد کا راشن دے دیا جائے۔ اس شاندار اور مثالی فیاضی کی حوصلہ افزائی کے لیے علاقے کے عمائدین کے علاوہ ڈپٹی کمشنر نے بھی تقریب میں شرکت کی۔
چند برسوں کے دوران قومی معیشت کا حال ابتر ہوتا گیا ہے۔ اِس کے نتیجے میں غریب طبقہ انتہائی غریب ہوا ہے۔ ہمارے ہاں وہ افسوس ناک کیفیت تو خیر اب تک پیدا نہیں ہوئی جو بھارت، بنگلہ دیش اور نیپال وغیرہ میں پائی جاتی ہے مگر پھر بھی حالات کی خرابی نے عام آدمی کو انتہائی درجے کی پریشانی کا شکار کیا ہے۔ کم آمدنی والے طبقے کے لیے ڈھنگ سے کھانے پینے کا اہتمام کرنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ تعلیم، صحت اور دیگر ضرورتوں کے لیے کچھ نکال پانا، بچا پانا تو اب خواب و خیال کا معاملہ ہوگیا ہے۔ بڑے شہروں میں زندہ رہنے کی لاگت اِتنی زیادہ ہوچکی ہے کہ بنیادی سہولتوں کا مطلوب و معقول حد تک حصول بھی دردِ سر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ہمارے ہاں غریبوں کی مدد کرنے کا کلچر اب تک موجود ہے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اِس کلچر کے کمزور پڑنے کے آثار بھی نہیں۔ کراچی سمیت بڑے شہروں میں لوگ راہِ خدا میں دینے کے حوالے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے۔ پھر بھی ایک بات پریشان کن ہے۔ سوال غریبوں کو دینے سے زیادہ دولت کو ضائع کرنے کا ہے۔ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے نام پر فضول خرچی اس قدر عام ہے کہ دیکھ کر شرم محسوس ہوتی ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے اور ہم ہیں کہ اب تک اِن چیزوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ فضول خرچی کا معاملہ شادی بیاہ تک محدود نہیں۔ میت والے گھر میں بھی فضول خرچی اور شاہ خرچی نمایاں طور پر دکھائی دے جاتی ہے۔ چند دوست مل بیٹھتے ہیں تو سوچے سمجھے بغیر محنت کی کمائی لُٹانے لگتے ہیں۔ محض خاطر تواضع کے نام پر اتنا خرچ کردیا جاتا ہے کہ بعد میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اعتدال کی راہ پر گامزن رہنے ہی سے انسان اس قابل ہو پاتا ہے کہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی کچھ کرسکے۔ ہمارے ہاں لوگ ہر معاملے میں اعتدال کا دامن بہت تیزی سے چھوڑ دیتے ہیں۔ مالی امداد و اعانت کے معاملے میں بھی یہی روش عام ہے۔ بہت سے لوگ خدا کی راہ میں بہت کچھ دیتے ہیں مگر سوچے سمجھے بغیر۔ منصوبہ سازی کے بغیر کیا جانے والا ہر کام پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ نادار افراد کی مالی اعانت کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ بہت سے لوگ ایسے افراد کی مالی اعانت کرتے ہیں جنہیں در حقیقت اِس کی کچھ خاص ضرورت نہیں ہوتی۔ معاشرے کی روش ایسی ہے کہ جسے ضرورت نہ ہو وہ بھی آتی ہوئی دولت سے ہاتھ کھینچنے سے گریز کرتا ہے۔ عمومی سوچ یہ ہوگئی ہے کہ کہیں سے بھی مال آنا چاہیے۔
ہم بیشتر تقریبات میں کسی جواز کے بغیر بہت زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ کسی بھی خوشی کے موقع پر دکھاوے کا فیکٹر بہت نمایاں رہنے لگا ہے۔ لوگ یہ ثابت کرنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں کہ اُن سے زیادہ دریا دل کوئی نہیں۔ یہ کہاں کی دریا دلی ہے کہ انسان سوچے سمجھے بغیر خرچ کرتا پھرے اور بعد میں پریشان ہوکر ایک طرف بیٹھ جائے؟ دریا دلی تو یہ ہے کہ انسان حقیقی ضرورت مندوں کو تلاش کرے اور اُن کی مدد اُس وقت کرے جب اُنہیں واقعی مدد کی ضرورت ہو۔ حقیقی ضرورت مندوں کو تلاش کرنا بھی دردِ سر سے کم نہیں مگر خیر‘ اللہ تعالیٰ انسان کو جو کچھ عطا فرماتے ہیں اُسے ڈھنگ سے خرچ کرنے کا تقاضا ہے کہ ضرورت مندوں کی مدد بھی کی جائے اور ضرورت مند ہر اعتبار سے حقیقی اور واقعی ہونے چاہئیں۔
ہمارے ہاں ایک ڈیڑھ عشرے میں کسی ضرورت کے بغیر امداد بٹورنے کا کلچر تیزی سے پروان چڑھا ہے۔ مخیر افراد معاشرے کے نادار طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو نوازنے میں دلچسپی بھی لیتے ہیں اور تاخیر بھی نہیں کرتے مگر لوگ اس بات کا احساس کیے بغیر استحقاق نہ ہونے پر بھی مال بٹورنے سے باز نہیں آتے۔ ایسے میں یہ کتنی بڑی بات ہے کہ کوئی اپنے شاندار ولیمے کا بجٹ نادار افراد میں بانٹ دے! ہاں اس معاملے میں تعقل اور توازن کی ضرورت ہے۔ ولیمہ شرعی ضرورت اور تقاضا ہے۔ معقولیت کی حدود میں رہتے ہوئے تھوڑا بہت تو خرچ کیا ہی جانا چاہیے۔ بہر کیف، لکی مروت کے بھائیوں نے ایک انوکھی، خوش آئند اور حوصلہ افزا مثال قائم کی ہے۔ ہمارے معاشرے کو ایسے لوگوں کی مزید ضرورت ہے جو خدا کے دیے ہوئے مال میں سے ناداروں کے لیے ضرور نکالا کریں اور وہ بھی پوری احتیاط کے ساتھ۔ حقیقی مستحقین کو بھی تلاش کرنا ہے تاکہ اللہ کی راہ میں نکالا ہوا مال ضائع نہ ہو۔ اگر کوئی جھوٹ بول کر خود کو مستحق بتائے اور مال بٹورے تو ان شاء اللہ اُس کی نیکی تو مقبول ہو گی جس نے مال خرچ کیا ہو گا؛ تاہم مستحق تک مال نہیں پہنچے گا۔ جو کوئی خدا کی راہ میں کچھ خرچ کرنا چاہتا ہے اُس کے لیے لازم ہے کہ تھوڑا وقت نکال کر پوری توجہ سے مستحق یا مستحقین کا تعین کرے۔نادار افراد کی بروقت امداد یقینی بنانا ہم سب کا فرض ہے مگر اِس کے ساتھ ساتھ اُنہیں کمانے یا زیادہ کمانے کے قابل بننے میں مدد دینا بھی ہمارا فرض ہے تاکہ وہ عزتِ نفس سلامت رکھتے ہوئے گزر بسر کرسکیں۔ ہمارے ہاں نادار افراد کی مدد کرنے پر تو زور ہے مگر اُنہیں باعزت طریقے سے کمانے کے قابل بنانے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی۔ اس کے نتیجے میں جعلی مستحقین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ بڑے شہروں میں مستحقین کا تعین بہت مشکل ہے۔ دیہی ماحول میں لوگ ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں کیونکہ وہ کئی کئی نسلوں سے ایک ہی علاقے میں آباد رہے ہوتے ہیں۔ شہروں میں سبھی اِدھر اُدھر سے آئے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایسے ماحول میں لوگ ایک دوسرے کو زیادہ نہیں جانتے۔ یوں جعلی مستحقین کی چاندی ہو جاتی ہے۔
جن کے دلوں میں غریبوں کا حقیقی درد ہو وہ پورے معاشرے کے لیے مثال کا درجہ رکھتے ہیں۔ اُن سے بہت کچھ سیکھنا چاہیے۔ معیشت اور معاشرت کی سطح پر بہت الجھے ہوئے ہونے کے باوجود ہم اب تک اُن خرابیوں سے بہر حال بہت دور ہیں جو معاشروں کو مکمل تباہ کرکے دم لیتی ہیں۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ معاشرے کا عمومی چلن تھوڑا تبدیل ہو، محنت کے ذریعے کمانے کو اعتماد میں اضافے کا ذریعہ سمجھا جائے اور ناداروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے جو کسی نہ کسی طور کمانے کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنے زورِ بازو کی کمائی کے بل پر زندہ رہنے میں زیادہ سُکون محسوس کرتے ہیں۔ غریبوں کی مدد بھی فیاضی ہے اور کم آمدنی والوں کی حوصلہ افزائی بھی فیاضی ہی کے درجے میں ہے۔ فیاضی اور دریا دلی کا بہاؤ ہی ہمارے دُکھوں کا مداوا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved