پچھلی قسط میں بنوتمیم کی مدینہ آمد کا تذکرہ ہوا۔ ان کے شاعر زبرقان بن بدر کے چند اشعار اور ا ن کا ترجمہ ذیل میں دیا جارہا ہے:
نحنُ الکرامُ فلاحیُّ یُعادِلُنا
مِنَّا المُلوکُ وفِینا تُنصَبُ البِیَعُ
وکمْ قَسرنا مِنَ الَاحْیَائِ کلِّہِمْ
عندَ النِّھابِ وَفَضْلُ العِزِّ یُتّبَعُ
وَنحنُ، یُطْعِمُ عِندَ القَحْطِ مُطْعِمُنا۔۔۔
۔۔۔۔مِنَ الشَّوَائِ اذا لم یُؤنس القَزعُ
اِنَّا اَبَیْنَا ولم یابٰی لنا اَحَدٌ
اِنَّا کذالک عند الفَخْر نَرْتَفِع
ہم شریف لوگ ہیں، کوئی قبیلہ ہمارا ہمسر نہی ہے، ہم میں بادشاہ بھی ہوئے ہیں اور (ہمارے درمیان) عبادت گاہیں بھی آباد رہیں۔ کتنے ہی قبیلوں کو ہم نے زیر کرلیا، جبکہ وہ ہمیں لوٹنے آئے تھے اور ہماری فتح قابلِ تقلید ہے۔ ہم وہ ہیں کہ ہمارے کھلانے والے قحط میں (لوگوں کو) کھلاتے ہیں اور وہ بھی بھنا ہوا گوشت، جبکہ (ان حالات میں دیگر) لوگ خارش زدہ جانور بھی نہیں پاتے۔ تم دیکھو گے لوگوں کو کہ ان کے سردار ہمارے پاس آتے ہیں، ہرعلاقے سے، پھر ہم ان کی مہمان نوازی کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہم اپنے گلّے میں سے موٹے کوہان والے جوان اور صحت مند اونٹ ذبح کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو لوگ قیام کرتے ہیں تو ہم ان کی ضیافت کا حق ادا کرتے ہیں کہ وہ خوب سیرہوجاتے ہیں۔ پس تم نہیں دیکھو گے کسی قبیلے کو جس کے مقابلے پر ہم تفاخر پر اتر آتے ہیں وہ (محتاج ہو کر) ہم ہی سے استفادہ کرتے ہیں اور وہ کٹا ہوا سر بن کر رہ جاتے ہیں۔ پھر جو ہمارے مقابلے پر فخر جتاتا ہے تو ہم اس کو پہچان لیتے ہیں (نشان زد کرلیتے ہیں) اور وہ وقت تو گزر جاتا ہے، مگر (ہم جیسے) عظیم لوگوں کے واقعات مجالس کی زینت بن جاتے ہیں۔ ہم تو کسی کی (بالادستی) نہیں مانتے؛ البتہ ہماری بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، ہم اسی طرح فخر میں بلند وبالا رہتے ہیں۔ (سیرۃ ابن ہشام، ص: 563)
اس میں شک نہیں کہ بنوتمیم کو فصاحت وبلاغت اور شعرو خطابت میں کمال حاصل تھا۔ ان کے شاعر نے خوب شعر وشاعری پیش کی، مگر کہاں مدح خوانِ رسولﷺ اور کہاں شاعر بنوتمیم۔ چنانچہ نبی اکرمﷺ نے صحابہ کی مجلس میں دیکھا تو حضرت حسان بن ثابتؓ کو موجود نہ پایا۔ وہ اس وقت غیرحاضر تھے۔ نبی اکرمﷺ نے کسی صحابی کو انہیں بلانے کے لیے بھیجا۔ حضرت حسانؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کا قاصد میرے پاس آیا اور اس نے مجھے بتایا کہ آپﷺ مجھے بلارہے ہیں تاکہ میں بنوتمیم کے شاعر کا جواب پیش کروں۔ پس میں فوراً حاضری کے لیے چل پڑا اور میری زبان پر یہ اشعار اسی وقت جاری ہوگئے۔ (ہم یہاں حضرت حسان بن ثابتؓ کے چار اشعار نذر قارئین کررہے ہیں جو فی البدیہہ اُن کی زبان پر آگئے جبکہ وہ آنحضورﷺ کی طرف روانہ ہوئے):
مَنَعْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِذْ حَلَّ وَسْطَنَا
عَلٰی انْفِ رَاضٍ مِنْ مَعْدٍ وَرَاغِمِ
مَنَعْنَاہُ لَمَّا حَلَّ بَیْنَ بُیُوتِنَا
بِأَسْیَافِنَا مِنْ کُلِّ بَاغٍ وَ ظَالِمِ
بِبَیْتٍ حَرِیْدٍ عِزُّہٗ وَثَرَاؤُہٗ
بِجَابِیَۃِ الْجَوْلَانِ وَسْطَ لْاَعَاجِمِ
ھَلِ الْمَجْدُ اِلاَّ السُّؤْدَدُ الْعَوْدُ وَالنَّدٰی
وَجَاہُ الْمُلُوکِ وَاحْتِمَالُ الْعَظَائِمِ
ہم نے رسول اللہﷺ کی حفاظت کی، جب آپﷺ ہمارے ہاں ٹھہرے، چاہے قبیلہ معد والے راضی ہوں یا ناراض۔جب آپﷺ ہمارے گھروں کے درمیان قیام فرما ہوئے تھے، اسی وقت ہم نے اپنی تلواروں کے ذریعے ہر سرکش اور ظالم کے مقابلے پرآپﷺ کے دفاع کا حق ادا کیا۔ ایک الگ تھلگ مکان (غارِ ثور) میں بھی آپﷺ کی عزت وثروت قائم رہی اور جابیہ وجولان جیسی دور دراز بستیوں میں (عربوں ہی نہیں) عجمیوں کے درمیان بھی آپﷺ کا یہ مقام مسلّم ہے۔ اس سے زیادہ کیا شان وشوکت ہوسکتی ہے کہ آدمی کو سرداری اور قیادت کا مقام حاصل ہو، اس کے باوجود اس کے اندر (عام لوگوں سے) گھل مل جانے اور سخاوت کی صفات ہوں، اس کو بادشاہوں کا جاہ وجلال حاصل ہو پھر بھی وہ بڑی بڑی ذمہ داریوں کو خود اٹھائے۔ (البدایۃ والنہایۃ،ص: 927، سیرۃ ابن ہشام، قسم الثانی، ص:566)
شاعرِ رسول نے فرمایا: جب میں آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو بنو تمیم کے شاعر نے وہی شعر دہرائے جو میرے آنے سے پہلے پیش کرچکا تھا۔ جب وہ اپنے کلام سے فارغ ہوا تو آنحضورﷺ نے فرمایا: ''قُمْ یَا حَسَّانُ فَأَجِبِ الرَّجُلَ فِیْمَا قَالَ۔ حسان اٹھو، بنو تمیم کے شاعر نے جو کچھ کہا ہے اس کا جواب دو۔ اس پر حضرت حسانؓ کھڑے ہوئے اور اٹھارہ اشعار پر مشتمل ایک قصیدہ پڑھا، جس کے چند اشعار یہ ہیں:
انَّ الذَّوَائِبَ مِنْ فَہْرٍ وَاِخْوَتِہِمْ
قَدْ بَیَّنُوْا سُنَّۃً لِلنَّاس تُتَّبَعُ
یَرْضَی بِہِمْ کُلُّ مَنْ کَانَتْ سَرِیْرَتُہُ
تَقْوَی الْاِلٰہِ وَکُلَّ الْخَیْرِ یُضْطَنَعُ۔۔۔۔
۔۔۔۔اِنْ کَانَ فِی النَّاسِ سَبَّاقُوْنَ بَعْدَھُمْ
فَکُلُّ سَبْقٍ لِاَدْنٰی سَبْقِہِمْ تَبَعٗ
لَا یَرْقَعُ النَّاسُ مَا اَوْھَتْ اَکُفُّہُمْ
عِنْدَ الدِّفَاعِ وَلَا یُوْھُوْنَ مَا رَقَعُوْا
اِنْ سَابَقُوا النَّاسَ یَوْمًا فَازَ سَبَقُہُمْ
اَوْ وَازَنُوْا اَھْلُ مَجْدٍ بِالنَّدٰی مَتَعُوْا
اَعِفَّۃٌ ذُکِرَتْ فِی الْوَحْیِ عِفَّتُہُمْ
لَایَطْمَعُوْنَ وَلَا یُرْدِیْھِمْ طَمَعٗ
فہر (حضورپاکﷺ کے جدِ امجد) اور ان کے بھائیوں کی لمبی لمبی زلفوں نے لوگوں کو ایک ایسا طریقہ بتا دیا جس کی پیروی کی جاتی ہے۔ ان سے ہر وہ شخص خوش ہوتا ہے جس کا باطن خدا خوفی سے سرشار ہو اور اس سے ہر بھلائی وقوع پذیر ہوتی ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں جب جنگ کرتے ہیں تو دشمن کو نقصان پہنچاتے ہیں اور جب ان سے کوئی دوستی کرے تو وہ اپنے دوست کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ ان کی اس عظیم خصلت میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، جان لو کہ ان کے مدمقابل دوسرے لوگوں کی برائی یہ ہے کہ وہ بدعتوں میں پڑ جاتے ہیں۔ اگر یہ لوگوں کے ساتھ آگے بڑھنے میں مقابلہ کریں تو یہ بڑے بڑے درجوں والوں سے آگے بڑھنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ہر سبقت حاصل کرنے والا ان کی ادنیٰ سبقت سے بھی فروتر ہوتا ہے۔ جس کپڑے کو یہ پھاڑ دیں، اسے لوگ دوبارہ نہیں جوڑ سکتے اور جسے اپنے دفاع کے وقت یہ جوڑ دیں، اسے ان کے دشمن پھاڑ نہیں سکتے۔ کسی بھی میدان میں کوئی ان کے مدمقابل آجائے، کامیابی انہی کے قدم چومتی ہے۔ سخاوت وفیاضی کا مقابلہ ہوتو اس میں عزت وشان انہی کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ یہ ایسے باعفت لوگ ہیں کہ وحیٔ ربّانی نے بھی ان کی عفت کی گواہی دی ہے۔ ان کی شانِ استغنا ایسی ہے کہ نہ کسی لالچ میں مبتلا ہوتے ہیں نہ حرص وطمع ان کی ہلاکت کا باعث بنتا ہے۔ (البدایۃ والنھایۃ، ج: 1، ص: 927 تا 928)
مورخین نے دونوں شعرا کے مزید اشعار بھی لکھے ہیں مگر اختصار کی وجہ سے ہم ان پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ مورخ ابن اسحاق بیان کرتے ہیں: جب حضرت حسان بن ثابتؓ اپنا قصیدہ پورا کرچکے تو سردار قوم اقرع بن حابس بے ساختہ کھڑا ہوگیا اور اس نے کہا: میرے باپ کی قسم! آپ کا خطیب ہمارے خطیب کے مقابلے میں زیادہ فصیح ہے اور آپ کا شاعر ہمارے شاعر سے بڑا شاعر ہے اور ان کی آوازیں بھی ہم سے بلند وخوش تر ہیں۔
جب سردارِ قبیلہ نے اسلام کے خطیب وشاعر کی برتری تسلیم کرلی تو پورے قبیلے نے یکسو ہو کر اسلام قبول کرلیا۔ نبی اکرمﷺ کو ان کے قبول اسلام سے بہت خوشی ہوئی کیونکہ آپﷺ کسی ایک فرد کے اسلام میں داخل ہونے کو بھی دنیا وما فیھا کی ہر دولت سے بڑھ کر سمجھتے تھے۔ یہ تو ایک مؤثر قبیلہ تھا جس کا قبولِ اسلام سرزمین عرب میں اسلام کے لیے بڑی قوت کا باعث ثابت ہوسکتا تھا۔
نبی اکرمﷺ نے پورے وفد کو بڑی فراخ دلی کے ساتھ انعام واکرام وعطیات سے نوازا۔ اس موقع پر مورخین نے ایک دلچسپ واقعہ بھی لکھا ہے۔ وہ یہ ہے کہ وفد کا ایک نوعمر رکن عمرو بن الاہتم وفد کی قیام گاہوں میں سامان کی دیکھ بھال کے لیے چھوڑا گیا تھا۔ جاہلیت کے دور سے قبیلے کے مؤثرسردار قیس بن عاصم کو اس نوجوان سے کدورت تھی؛ چنانچہ اس نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! اپنی قیام گاہوں میں ایک لڑکے کو ہم نے چھوڑا ہے، اسے آپ تھوڑا سا حصہ دے دیجیے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں‘ میں اسے بھی دوسرے لوگوں کے برابر ہی حصہ دوں گا۔ عمرو بن الاہتم کو پتا چلا تو اس نے قیس کی ہجو میں سخت اشعار لکھے اور ساتھ ہی آنحضورﷺ کی دل کھول کر تعریف کی۔ (سیرۃ ابن ہشام، ص: 597)۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت زہیربن حربؓ کے حوالے سے بنوتمیم کے کچھ فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ مجھے بنوتمیم کے ساتھ محبت ہے کیونکہ میں نے آنحضورﷺ کی زبان مبارک سے تین باتیں سنی ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: بنوتمیم میری امت کے وہ لوگ ہیں جو دجال کے مقابلے میں سب سے زیادہ سخت ہوں گے۔ دوسری بات یہ کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے پاس بنوتمیم سے تعلق رکھنے والی ایک قیدی عورت تھی۔ نبی پاکﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! اسے آزاد کردو یہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے۔ تیسری بات یہ کہ جب بنوتمیم نے اپنے صدقات مدینہ میں بھیجے تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ میری (اپنی) قوم کے صدقات ہیں۔ امام مسلم نے حضرت زہیربن حربؓ کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved