تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     14-03-2023

مصنوعی ذہانت کا طوفان

فی زمانہ ہر شعبے میں زیادہ سے زیادہ خود کاری (automation) یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ آجروں کی خواہش ہے کہ زیادہ سے زیادہ کام خود کاری کے ذریعے ہو یعنی انسانوں پر انحصار کم سے کم ہوتا چلا جائے۔ انسانوں پر انحصار گھٹانا آجروں کے نزدیک انتہائی بنیادی ضرورت ہے۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ کسی بھی کاروباری ادارے، صنعتی یونٹ یا کسی اور مقامِ کار میں تمام غیر ضروری خرابیاں انسانوں کے ہاتھوں پیدا ہوتی ہیں۔ انسان کام کم کرتے ہیں، پریشانیاں زیادہ پیدا کرتے ہیں۔ انسانوں کو کام کے دوران چائے بھی چاہیے، آرام کا وقفہ بھی اور گپ شپ کی گنجائش بھی۔ یہ سب کچھ نہ ہو تو کام کرنے کی لگن پیدا نہیں ہوتی۔ مجموعی ماحول ہی ایسا ہے کہ اِن بنیادی ''سہولتوں‘‘ کی پروا کیے بغیر کام کرنے والوں کو محض ناپسند نہیں کیا جاتا، ''باغی‘‘ بھی گردانا جاتا ہے!
خود کاری سے کیا ہوتا ہے؟ کام میں آسانی اور سہولت! بلاشبہ خود کاری بہت سے شعبوں میں ناگزیر حیثیت رکھتی ہے۔ خود کاری نہ ہوتی تو ہم آج تک بہت سے بنیادی معاملات میں بُری طرح الجھے ہوئے ہوتے۔ خود کاری ہی نے دنیا بھر میں صنعتی عمل تیز کیا ہے۔ اِسی کی بدولت ٹیکنالوجیز کے شعبے میں حیران کن پیش رفت یقینی بنانا ممکن ہوسکا ہے۔ خود کاری ہی سے بہت سے روایتی نوعیت کے کام بہت تیزی سے کر پانا ممکن ہوا۔ اس کے نتیجے میں زندگی کی رفتار تیز ہوئی۔ مختلف شعبوں میں جدت اور ندرت کا بازار گرم رکھنے میں بھی خود کاری نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔خود کاری یعنی مصنوعی ذہانت کا مظہر! مصنوعی ذہانت یعنی مشینوں کا انسانی ذہن کی راہ پر گامزن رہتے ہوئے کام کرنا۔ انسانی دماغ کی طرز ہی پر جب مشینوں کو کام سونپا جاتا ہے تب وہ زیادہ تیزی سے کام کرتی ہیں کیونکہ وہ انسانوں کی طرح لاحاصل اور لایعنی معاملات میں الجھنے کی منزل سے دور رہتی ہیں۔ مشین کے لیے ممکن ہی نہیں کہ جو کچھ کہا جائے اُس سے ہٹ کر کچھ کرے۔ مشین جذبات سے عاری ہوتی ہے۔ یہ خصوصیت اُسے ڈھنگ سے کام کرنے کی طرف مائل رکھتی ہے۔
مشینی یا مصنوعی ذہانت کا فائدہ؟ فائدہ نہیں‘ فوائد کہیے۔ اور فوائد اِتنے ہیں کہ گنتے چلے جائیے۔ زندگی کا کوئی بھی پہلو اب مصنوعی ذہانت کی دسترس سے باہر نہیں رہا۔ یہ تو ہوا روشن پہلو! اب آئیے تاریک پہلو کی طرف۔ مصنوعی ذہانت نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے۔ کچھ لیا بھی ہوگا؟ کچھ نہ لیا ہو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ کون سا پہلو روشن ہے اور کون سا تاریک، یہ الگ بحث کا موضوع ہے۔ روشن اور تاریک کا تصور نسبتی اور اضافی ہے۔ ایک ہی چیز ہمارے لیے بہت روشن ہوتی ہے مگر دوسروں کے لیے اُس میں صرف تاریکی ہوتی ہے۔ ٹیکنالوجیز جن کے لیے آسانیاں پیدا کرتی ہیں وہ خوش رہتے ہیں اور عصری علوم و فنون کی ستائش کرتے نہیں تھکتے۔ اور جنہیں ٹیکنالوجیز کے ہاتھوں ناموافق حالات کا سامنا کرنا پڑے وہ گلے شکوے کرتے نہیں تھکتے، صفِ ماتم بچھائی رکھتے ہیں۔ کیا ایسا کرنے سے کچھ بہتری ممکن ہو پاتی ہے؟ بالکل نہیں!
ٹیکنالوجیز آتی رہی ہیں اور آتی رہیں گی۔ ذہن کو آمادہ بہ کار رکھنے والے ہی سوچتے اور سمجھتے ہیں کہ ٹیکنالوجیز کے آگے بند نہیں باندھا جاسکتا۔ کسی بھی ٹیکنالوجی کے ہاتھوں پیدا ہونے والی صورتِ حال سے کماحقہٗ نپٹنے کے لیے ناگزیر ہے کہ انسان اپنے آپ کو تیار کرے، مثبت سوچ کے ساتھ میدان میں اُترے اور کچھ ایسا کرے جو ٹیکنالوجی کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتا ہو۔ ٹیکنالوجی کسی بھی کام کی لاگت گھٹانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اِس کے نتیجے میں انسانی مشقت پر مدار گھٹتا ہے۔ آجر یعنی سرمایہ کار ایسی ہی کیفیت پسند کرتے ہیں۔ وہ مشینوں کو اس لیے ترجیح دیتے ہیں کہ اُن کے ناز نہیں اُٹھانا پڑتے۔ مشینیں فراغت کے لمحات نہیں مانگتیں۔ وہ آپس میں باتیں کرکے وقت بھی ضائع نہیں کرتیں۔ مشینیں سونپا ہوا کام پوری دیانت اور تندہی سے کرتی ہیں۔ یہ سب کچھ ٹیکنالوجیز کی بدولت ممکن ہو پاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ آجر تحقیق و ترقی پر بہت زور دیتے ہیں تاکہ نئی ٹیکنالوجیز کی مدد سے لاگت کے ساتھ ساتھ انسانوں پر انحصار بھی گھٹایا جاسکے۔
ٹیکنالوجیز کے ہاتھوں رونما ہونے والی ایک بھیانک تبدیلی یہ ہے کہ پندرہ بیس برس کے دوران دنیا بھر میں ہائی ٹیک اداروں کی متعارف کرائی ہوئی مصنوعات، مشینوں اور آلات کے ہاتھوں کم و بیش ایک ارب افراد بے روزگار ہوچکے ہیں یا اُن کے لیے انتہائی غیر یقینی حالات پیدا ہوئے ہیں۔ ٹیکنالوجیز پر بڑھتا ہوا انحصار آجروں کے نقطۂ نظر سے بہت اچھا ہے مگر عام آدمی کی تو جان پر بنی ہوئی ہے۔ وہ تو سمجھ ہی نہیں پارہا کہ اس بحرانی کیفیت سے کیونکر جان چھڑائے۔ مصنوعی ذہانت نے ہر شعبے میں کام آسان کیا ہے اور انسانوں پر مدار اِتنا گھٹایا ہے کہ اب صورتِ حال کے یکسر پلٹنے کی کوئی توقع ہے نہ گنجائش۔ مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر کام کرنے والے آلات اور مشینوں کے ہاتھوں کئی شعبے اِتنے بدل گئے ہیں کہ پہچانے نہیں جاتے۔ بعض شعبے تو بالکل ختم یا غیر متعلق (irrelevant) ہوچکے ہیں۔ مصنوعی ذہانت ہی کی بدولت بعض اشیا کا بہت بڑے پیمانے پر تیار کیا جانا ممکن ہوسکا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو آج دنیا بہت مختلف ہوتی یا یوں کہیے کہ اب تک پچھڑی ہوئی ہی ہوتی۔ پیش رفت کی رفتار اِتنی زیادہ ہے کہ بہت کچھ دیکھتے ہی دیکھتے بدل جاتا ہے اور ہم ڈھنگ سے سمجھ بھی نہیں پاتے کہ آخر ہوا کیا ہے۔ آج نئی نسل اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں جو کچھ پڑھ رہی ہے وہ کب تک متعلق اور کارآمد رہے گا، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جو بچے اس وقت سکولوں میں ہیں اُن کے لیے ملازمتیں پائی ہی نہیں جاتیں۔ جب تک وہ جوان ہوں گے تب تک کئی شعبے دم توڑ چکے ہوں گے، کئی اَدھ موئے ہوں گے اور بعض نئے شعبے منظرِ عام پر آچکے ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نئی نسل کو مستقبل کے لیے اُس وقت کے ممکنہ ماحول کے مطابق تیار کرنا ہے۔
فی زمانہ کسی بھی قوم کی بقا کا مدار اس بات پر ہے کہ اُس کے کلاس رومز اور تجربہ گاہوں میں کیا ہو رہا ہے۔ نئی نسل جو کچھ پڑھتی ہے اُسی کی بنیاد پر تجربے کرتی ہے۔ تعلیمی ادارے بچوں کو جو کچھ دیتے ہیں اُسی کی بنیاد پر طے ہوتا ہے کہ ملک کس طرف جائے گا اور جائے گا بھی یا نہیں۔ تعلیم و تربیت کے ادارے ہی طے کرتے ہیں کہ قوم کا مستقبل کیسا ہونا چاہیے۔ دنیا بھر میں بالعموم اور ترقی یافتہ ممالک میں بالخصوص تعلیم و تربیت کے معاملے کو کبھی، کسی بھی حال میں نظر انداز نہیں کیا جاتا۔ نئی نسل کو عصری علوم و فنون کے تازہ ترین رجحانات سے رُوشناس کرایا جاتا ہے تاکہ عملی زندگی میں اُسے کسی بھی درجے کی غیر ضروری الجھن کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ قوم کی بقا و خوش حالی کے حوالے سے سوچنا لازم ہے۔ فی زمانہ تعلیم و تعلم کا معاملہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ نئی نسل کو مصنوعی ذہانت سے ہم آہنگ رہتے ہوئے پنپنے کی تحریک دی جانی چاہیے۔ مصنوعی ذہانت سے مزین ماحول میں وہی لوگ کامیاب ہوسکتے ہیں جو اپنے آپ کو بدلیں، روایتی سوچ ترک کریں، جدید علمی اور عملی رجحانات سے باخبر رہتے ہوئے اپنے آپ کو اَپ گریڈ کرتے رہیں۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب پورے ماحول کو تبدیلی کے لیے تیار ہونے کی تحریک دی جاتی رہے۔
پاکستان جیسے ممالک کے لیے مصنوعی ذہانت کے معاملے کو نظر انداز کرنے کی ذرا بھی گنجائش نہیں۔ خود کاری اور مصنوعی ذہانت پر بڑھتا ہوا انحصار مختلف شعبوں میں انسانوں کے لیے گنجائش گھٹاتا جارہا ہے۔ اِس کے نتیجے میں بے روزگاری بڑھتی رہے گی اور وہی لوگ میدان میں کھڑے رہ پائیں گے جو خود کو بدلتی ہوئے ماحول سے ہم آہنگ رکھنے کی شعوری کوشش کریں گے۔ مصنوعی ذہانت کم و بیش ہر شعبے پر تصرف قائم کر رہی ہے۔ اس معاملے میں رونے پیٹنے اور صفِ ماتم بچھانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ انسان کے لیے ناگزیر ہوچکا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے مقابل اپنے آپ کو متعلق اور کارگر ثابت کرنے کی تگ و دَو میں مصروف رہے۔ اس کے لیے تعلیم و تربیت کے نظام میں بھی انقلابی تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved