تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     15-03-2023

ایک مقتول کی روح کا انٹرویو

مقتول کی روح ایک انتہائی صاف ستھرے‘ سفید لباس اور ایک کبھی نہ محسوس کی گئی خوشبو میں لپٹی ہوئی تھی۔ میرا پہلا سوال تھا کہ آپ کو کس نے اور کیوں اتنی بیدردی سے مارا؟ مقتول نے بتایا کہ جس سے میں فقیری کی حالت میں‘ عشق کی حد تک محبت اور عقیدت رکھتا رہا‘ اسے اپنے جسم پر برسائی جانے والی لاٹھیوں کی خوفناک ضربوں سے ڈر کر اور زخموں اور درد کی شدت سے مجبور ہو کر کیسے گالیاں دے سکتا تھا۔ میرے جسم پر برسائی جانے والی ہر لاٹھی میرے اندر ایک عجیب قسم کی طاقت اور برداشت پیدا کر رہی تھی‘ ایک دیوانگی تھی جس کے سبب مجھے پتا ہی نہ چلا کہ میرے ساتھ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ بس اتنا تھا کہ سانس کی ڈور ختم ہونے سے پہلے تک میں خود کو اذیتیں پہنچانے والوں اور ان کے ہر حامی اور پشت پناہ کو بددعائیں دیتا رہا اور آج جب اپنے اللہ کے دربار میں پہنچ گیا ہوں تو اب بھی میرے ماں باپ‘ بہن بھائیوں کیلئے دعائیں اور مجھے مارنے والوں کیلئے میری روح سے بددعائیں فریادیں بن کر نکلتی رہتی ہیں۔ مقتول کی روح نے میرے پوچھنے پر بتایا کہ اس کے ساتھ لائے گئے ساتھیوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا تھا۔ ان پر لاتوں، گھونسوں اور ٹھڈوں کی بارش کی جاتی اور مطالبہ کیا جاتا کہ اپنے لیڈر کو گالیاں دو۔ ایک‘ دو افراد نے پہلی لاٹھی کھانے کے بعد ہی گالیاں دینا شروع کر دیں جنہیں ایک ایک کر کے بڑی سی گاڑی سے باہر دھکیل دیا جاتا۔ تین‘ چار لوگوں نے اپنے لیڈر کو گالیاں دینے میں کچھ لمحوں کا وقفہ کیا تو ان پر تھپڑوں اور بید کے ڈنڈوں کی بارش کر دی گئی۔ دو چار تھپڑوں اور ڈنڈوں کے بعد وہ بھی اپنے لیڈر کو زور زور سے گالیاں دینا شروع ہو گئے۔ اتنا کہنے کے بعد روح خاموش ہو گئی۔ میں نے سوال کیا کہ آپ بھی ایسا کر کے اپنی جان بچا سکتے تھے‘ اس کے جواب میں اس نے ایک ایسا نعرہ لگایا کہ وہ سن کر مجھے ایسا لگا کہ جیسے آسمان و زمین تھرا کر رہ گئے ہیں۔
یہ میرے دیکھے جانے والے خواب کا وہ ابتدائی حصہ ہے جسے سنانا یا بتانا اس لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نے مقتول کی روح سے وعدہ کیا تھا کہ یہ خواب میرے پاس ایک امانت ہے اور اگر اس کی یہ خواہش ہے کہ اس کے دل کی باتیں سب تک پہنچ جائیں تو پھر میں اسے اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوا یہ ''انٹرویو‘‘ پوری قوم تک پہنچا دوں گا۔ اس دیکھے گئے خواب کا نام پہلے تو ذہن میں یہی آیا ''موت کا منظر‘‘ لیکن پھر یاد آیا اس نام سے خواجہ محمد اسلام کی ایک مشہورِ زمانہ کتاب ''موت کا منظر مع مرنے کے بعد کیا ہو گا‘‘ کئی برس ہوئے شائع ہو چکی ہے۔ یہ عنوان اس خواب کے حوالے سے بہت مناسب اور بروقت لگتا تھا مگر پھر ارادہ ترک کر دیا۔ اب اگرکوئی یہ سمجھے یا یہ اعتراض کرنا شروع کر دے کہ خواب تو خواب ہوتے ہیں‘ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تو کسی حد تک ان کی بات تسلیم کی جا سکتی ہے مگر خواب محض خواب نہیں ہوتے۔ وہ کون ذی روح ہے جس نے اپنی زندگی میں کبھی خواب نہیں دیکھے؟ کچھ لوگ یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ وہ خواب نہیں دیکھتے یا بہت کم‘ شاذ و نادر ہی خواب دیکھتے ہیں۔ یہ حقیقت نہیں ہے۔ خواب ہر انسان دیکھتا ہے اور لگ بھگ ہر روز دیکھتا ہے۔ البتہ کچھ لوگوں کو اپنے خواب یاد نہیں رہتے جس کی بنا پر وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ خواب نہیں دیکھتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک انسان کی اوسط عمر میں دیکھے گئے خوابوں کا کوئی حساب ہی نہیں ہوتا، بلکہ کچھ انسانوں کو تو آئے روز سوتے‘ جاگتے کوئی نہ کوئی خواب آتا ہی رہتا ہے۔ اس لیے خواب ایک مسلمہ حقیقت ہیں؛ البتہ یہ ایک بحث طلب معاملہ ہے کہ کیا ہر خواب ''خواب‘‘ کی کیٹیگری میں آتا ہے یا نہیں یا یہ کہ دیکھے جانے والے خوابوں کی تعبیر کیا ہوتی ہے یا کیا ہو گی‘ اس کا اس کالم سے کوئی تعلق نہیں۔ کچھ حکما کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ اگر انسان کا معدہ خراب ہو تو اسے ڈرائونے قسم کے خواب آنے لگتے ہیں۔ اگر اسے سچ مان لیا جائے تو اس وقت جس قسم کی مہنگائی ہے‘ ان حالات میں پانی سمیت وہ کون سی خوراک ہے جو صاف اور شفاف ہے؟ اس جرائم سے اٹے ہوئے معاشرے، دگرگوں سیاسی حالات اور موسم کی بڑھتی ہوئی گھٹن میں وہ کون شخص ہے جس کا معدہ خراب نہیں ہوتا؟ ہاں یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ چند لاکھ اشرافیہ اس میں شامل نہیں جنہیں پتا ہی نہیں کہ ان کے گھروں کی ضروریات کس طرح اور کہاں سے پوری ہو رہی ہیں یا یہ کہ اس وقت مہنگائی کا گراف کس سطح کو چھو رہا ہے‘ یا وہ جنہوں نے اپنے بل اپنی تنخواہوں سے نہیں دینے یا وہ لوگ جو روزانہ اپنے دفتر سے یا اپنی دُکانوں سے بوریاں بھر بھر کر باہر نکلتے ہیں‘ یقینا ان کا معدہ حالات کی وجہ سے خراب نہیں ہوتا ہو گا۔ یہ الگ بات ہے کہ معدہ ان کا بھی درست حالت میں نہیں رہتا ہو گا۔ وہ پیسہ‘ وہ دولت‘ وہ رزق‘ جس سے غریبوں کا خون نچڑ رہا ہو‘ وہ بھلا معدے کو کیسے درست رکھ سکتا ہے؟
خوابوں کے حوالے سے علامہ ابنِ سیرینؒ ایک اتھارٹی کے حیثیت رکھتے ہیں۔ خوابوں کے تعبیر کے علم پر انہیں بہت عبور تھا۔ برصغیر کے مایہ ناز محدث شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے بھی اپنی تصنیف حجۃ اللہ بالغہ میں خوابوں کی نو اقسام بیان کی ہیں اور ان کی چند تعبیرات بھی بتائی ہیں۔ بعض روایات میں ملتا ہے کہ رات کے آخری حصے کا خواب زیادہ سچا ہوتاہے کیونکہ پچھلا پہر عام طور پر دل و دماغ کے سکون کا وقت ہوتا ہے، یہ وقت نزولِ ملائکہ، سعادت اور قبولیتِ دعا کا بھی وقت ہوتا ہے‘ اس لیے اس وقت کا دیکھا ہوا خواب زیادہ سچا ثابت ہوتاہے؛ تاہم کسی بھی خواب کے بارے میں یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ یہ خواب سچا ہے یا اس کا وقوع ہونا یقینی ہے۔ بات ایک خواب سے شروع ہوئی اور بہت دور نکل گئی۔ وہ مقتول جو مجھے خواب میں ملا‘ اس سے کیا گیا انٹرویو سناتے ہوئے کچھ خوف بھی محسوس ہو رہا ہے لیکن چونکہ مقتول کی روح سے وعدہ کیا تھا‘ اس لیے یہ چند باتیں بیان کر رہا ہوں۔ البتہ مقتول کی روح خواب میں بالکل جیتی جاگتی ملی‘ اس سے ہاتھ ملایا‘ بہت سے باتیں کیں‘ اس کے ہنستے مسکراتے ہوئے جوابات بھی سنے اور ایک لمحے کو بھی یہ محسوس نہیں ہواکہ یہ سب کچھ غیر حقیقی ہے۔ چونکہ اس کے بہت سے جوابات ذہن میں ابھی تک گردش کر رہے ہیں‘ اس لیے پیشتر اس کے یہ سب کچھ ایک خواب بن کر رہ جائے‘ چاہتا ہوں کہ اس ملاقات کے چیدہ چیدہ نکات سب کے سامنے رکھ دوں۔ ہو سکتا ہے بلکہ مجھے یقینِ کامل ہے کہ اس سے مقتول کی روح کو کچھ سکون مل جائے گا اور اس کا شکوہ بھی دور ہو جائے گا۔
مقتول کی روح نے جہاں دنیا کی بے ثباتی اور موت جیسی اٹل حقیقت کے بارے میں بتایا، وہیں کسی بے گناہ کو موت کے وقت کس قسم کے تجربات کا سامنا ہوتا ہے‘ یہ بھی بتایا۔ البتہ اس کا کہنا تھا کہ ہر کسی کی روح پر اس کے اعمال کا ہی بوجھ ہوتا ہے۔ کچھ روحیں نہایت آرام سے جان کنی کی منزل طے کر لیتی ہیں اور کچھ اسی منزل میں اٹک کر رہ جاتی ہیں۔ جو اس منزل میں اٹک جائیں‘ سمجھ لو کہ ان کی آگے کی منزلیں بھی بہت دشوار ہونے والی ہیں۔ اس کے علاوہ اس نے مجھے کچھ اور بھی باتیں بتائیں جنہیں لکھنا مناسب نہیں بلکہ انہیں لکھتے ہوئے خوف آنے لگتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ظلم ایسا وبال اور کسی ناحق کی جان لینا ایسا گناہِ عظیم ہے کہ اگر لوگوں کو اس حقیقت کا پتا چل جائے تو دنیا امن و آشتی کا گہوارہ بن جائے۔ اس کا کہنا تھا کہ چونکہ وہ ایک بے گناہ اور پاک روح ہے‘ اس لیے اپنے پروردگار کی امان میں ہے لیکن ہم لوگ دنیا پر ایک عجب قید خانے میں بند ہیں جہاں ہر ایک کا سانس جبر اور قہر کی فضا میں اٹکا ہوا ہے۔ مقتول کی روح اور اس کے اردگرد کی خوشبو اور پاکیزگی نے ایک عجیب سی کیفیت طاری کر رکھی تھی‘ اس لیے اس نشست کو ختم کرنے اور وہاں سے اٹھنے کو دل ہی نہیں کرتا تھا، لیکن اس روح کو شاید کچھ جلدی تھی‘ اس لیے اس نے جانے سے پہلے کہا کہ دنیا میں میرا یہ پیغام ضرور پہنچا دینا کہ ''قاتلوں اور ظالموں کے ہاتھوں نہ تو بکنا اور نہ ہی ان کے کہنے پر کوئی ایسا کام کرنا کل کو جس کا بوجھ تمہاری روح کو اٹھانا پڑے‘‘۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ روح اس وقت بہت تڑپتی ہے جب میرے اپنے میری زندگی‘ میرے نظریات‘ میرے عشق کو جانتے بوجھتے ہوئے مجھے درد اور تکلیف پہنچانے والی باتیں کرتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved