تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     15-09-2013

بیٹا قتل‘ خاندان جلاوطن

مذہب کی آڑ میں ظلم و بربریت کو تحفظ دینے کے لئے جو گھنائونا کھیل کھیلا گیا‘ اس پر آخر کار عدالت عظمیٰ کو بھی مداخلت کرنا پڑ گئی۔ کراچی میں ایک نوجوان شاہ زیب کا بہیمانہ قتل ہوا۔ وہ ڈیفنس کے علاقے میں اپنے خاندان کے ساتھ شادی کی تقریب میں شرکت کے بعد گھر واپس آیا۔ واپسی کے وقت خاندان دو گاڑیوں میں تقسیم ہو گیا۔ والدین راستے میں رک گئے اور شاہ زیب اپنی بہن کے ساتھ واپس اپنے فلیٹ کی طرف آ گیا۔ اس کا اپارٹمنٹ عمارت کی 11ویں منزل پر تھا۔ اس کے ساتھ بہن بھی آئی تھی‘ جو گاڑی سے اتر کر فلیٹ کی جانب چلی گئی اور وہ کار پارک کرنے کے لئے رک گیا۔بہن جب فلیٹ کے دروازے پر پہنچی‘ تو سامنے والے فلیٹ میں رہنے والے خاندان کے نوکر نے اس سے بدتمیزی کی۔ جس پر لڑکی نے اپنے بھائی کو فون کر کے‘اس حرکت کے بارے میں بتا دیا۔ شاہ زیب گاڑی پارک کئے بغیر بھاگ کر اوپر پہنچا‘ تو فلیٹ کے سامنے پہلے سے موجود چند افراد نے اس سے جھگڑنا شروع کر دیا۔ بات کو بگڑتے دیکھ کر فوری طور پر 15 پر پولیس کو اطلاع دی گئی۔ شاہ زیب کا والد جو خود بھی ڈی ایس پی تھا‘ اسی اثناء میں گھر پہنچ گیا اور بات چیت کے ذریعے تنازعہ ختم کر کے‘ یہ خاندان گھر کے اندر چلا گیا اور شاہ زیب گاڑی پارکنگ میں کھڑی کرنے کے لئے دوسری سڑک سے گھما کر لا رہا تھا کہ راستے میں مبارک مسجد کے قریب پہلے سے موجود لوگوں نے اس پر فائرنگ کر دی۔ شاہ زیب زخمی ہوا‘ گاڑی درخت سے ٹکرا کر الٹ گئی۔ لوگوں نے زخمی شاہ زیب کو گاڑی سے نکال کر قریبی ہسپتال پہنچایا‘ جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ گولیاں چلانے والے نوجوان امیر خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے اور انہیں زعم تھا کہ قانون اور پولیس ان کاکچھ نہیں بگاڑ سکتے اور وہ عدالتوں سے بھی بچ کر نکل آئیں گے۔ ابتدا میں یہی کچھ ہوا بھی۔پولیس نے ملزموں کے بااثر اور طاقتور خاندانوں سے تعلق کی بنا پر ایف آئی آر درج کرنے میں حیل و حجت سے کام لیا۔ مقتول کے والد جو خود بھی ڈی ایس پی تھے‘ اپنے تعلق داروں کے ذریعے ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کرتے رہے مگرکامیاب نہ ہوئے۔ قومی اسمبلی کے رکن نبیل گبول ‘ مقتول کے والد اورنگ زیب کے ہم زلف تھے۔ انہیں ٹیلیفون کیا گیا۔ نبیل گبول کی بھاگ دوڑ کے نتیجے میں ایف آئی آر درج ہو سکی۔ جس میں شاہ رخ جتوئی‘ نواب سراج علی تالپور اور اس کے بھائی نواب سجاد علی تالپور اور ملازم مرتضیٰ لاشاری کو نامزد کیا گیا۔ ایک نوکر کے سوا سارے ملزموں کا تعلق بااثر خاندانوں سے تھا۔ دولت اور اثر و رسوخ متحرک ہوئے۔ پوری سرکاری مشینری حرکت میں آ گئی اور مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کے امیرکبیر والد نے اپنے بیٹے کو بچانے کے لئے زور لگانا شروع کر دیا۔ قتل کے بعد ملزم موقع سے فرار ہو گئے تھے۔ ان کے طاقتور خاندانوں کے سامنے پولیس بے بس ہو گئی اور انہیں پکڑنے میں لیت و لعل سے کام لیتی رہی۔ اس دوران سول سوسائٹی اور میڈیا نے اس معاملے کو اٹھا لیا تھا اور مقتول کے والدین اپنا دکھڑا لے کر عوام میں آ گئے اور پورے ملک کے میڈیا میں طاقت ور اور کمزور کے درمیان روایتی کشمکش شروع ہو گئی۔ اورنگ زیب بھی اتنا گیا گزرا نہیں تھا۔ وہ ایک ڈی ایس پی تھا اور بڑے سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ لیکن ملزموں کے والدین اس سے کہیں زیادہ طاقتور تھے۔ جب میڈیا میں شور اٹھا‘ تو چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میںچلانے کا حکم دے دیا۔ اس کے بعد کارروائی میں تیزی آ گئی۔ سراج تالپور گرفتار ہوا۔ باقی تین ملزمان بھی حراست میں لے لئے گئے۔ شاہ رخ جتوئی کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ قتل کرنے کے 2 دن بعد ہی دبئی فرار ہو گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد شاہ رخ کو دبئی سے واپس لا کر ‘ عدالت میں پیش کر دیا گیا۔ ملزمان کے وکیل نے عدالت میں شاہ رخ کو نابالغ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ مگر طبی رپورٹوں کے بعد اسے بالغ قرار دے دیا گیا۔ جس کے بعد شاہ رخ کو بچہ جیل سے سنٹرل جیل منتقل کر دیا گیا۔ مقدمے کی تیزی سے سماعت ہوئی اور ملزموں کو سزائیں سنا دی گئیں۔ بظاہر بات ختم ہو گئی تھی لیکن ایک دن اچانک خبر آئی کہ مقتول اور ملزموں کے خاندانوں میں صلح ہو گئی ہے اور دیت کے بدلے میں مقتول کے خاندان نے قاتلوں کو فی سبیل اللہ معاف کر دیا ہے۔ یہ کہانی اسی پر ختم نہ ہوئی۔ میڈیا اپنی تحقیقات میں لگا رہا اور خبر سامنے آ گئی کہ قاتل کے باپ نے‘ مقتول کے خاندان کو کروڑوں روپے کے ساتھ آسٹریلیا میں ایک گھر بھی خرید کر دے دیا ہے اور وہ جلد ہی آسٹریلیا روانہ ہونے والے ہیں۔ اس پر کروڑوں عوام سکتے میں آ گئے۔ کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ ملزموں کو سزائیں دلوانے کے لئے جس خاندان نے طویل عرصے تک انتھک احتجاج کیا تھا‘ اس کے دل میں اچانک رحم کیسے آ گیا؟دونوں خاندانوں کے درمیان ڈیل کی تفصیلات سامنے آئیںتو پتہ چلا کہ اسلام کی رو سے یہ معاملہ صلح صفائی کا تھا ہی نہیں۔ ایک تو یہ قتل عمد تھا‘ جو باقاعدہ تیاری کے بعد گھات لگا کر کیا گیا۔ دوسرے ملزموں پر دہشت گردی کے قوانین کے تحت پرچہ درج ہوا تھا اور انہیں‘ انہی قوانین کے تحت سزائیں بھی سنائی گئی تھیں۔ پاکستان میں نافذالعمل شرعی سزائوں پر تو قاتل اور مقتول کے خاندانوں میں سمجھوتے کی راہ نکالی جا سکتی ہے لیکن انسداد دہشت گردی کے قوانین میں اس کی گنجائش نہیں۔ جب اس مشکوک سمجھوتے کی روشنی میں میڈیا نے علمائے کرام کی رائے لی‘ تو ایک دو کے سوا باقی سب کی رائے تھی کہ اس کیس میں ملزموں کو معاف کرنے کا غلط جواز پیش کیا گیا ہے۔ علما کی اکثریت کی رائے تھی کہ دیت کی صورت میں ملزم کا اپنے جرم پر نادم ہونا ضروری ہے۔ لیکن اس کیس کے ملزم جس طرح عدالتوں میں آتے اور جاتے ہوئے نعرے لگاتے اور وکٹری کے نشان بنایا کرتے‘ انہیں دیکھ کر کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ اپنے کئے پر نادم ہیں۔ بلکہ وہ فخرکا اظہار کیا کرتے۔ مقتول اور اس کے خاندان کی بے بسی پر حقارت سے سفاکانہ انداز میںہنستے ہوئے نظر آتے۔ ان کے کسی بھی انداز کو دیکھ کر یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ انہیں قتل جیسا بھیانک جرم کرنے پر کسی بھی طرح کا پچھتاوا یا ندامت ہے اور مجرم کے نادم ہوئے بغیر‘ اسے معاف کرنے کا کوئی جواز نہیں رہتا۔ یہی بات گزشتہ روز چیف جسٹس آف پاکستان‘ افتخار محمد چوہدری نے کہی۔ انہوں نے فرمایا ’’قتل پر فی سبیل اللہ معافی فساد فی الارض ہے۔ اسے رواج نہیں بنایا جا سکتا۔‘‘ یہی وہ بات ہے‘ جو پورا میڈیا اور سول سوسائٹی کر رہے تھے۔ اول تو اس سمجھوتے کو کسی بھی طریقے سے معافی نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ کیسی معافی تھی‘ جس میں مقتول کے خاندان کو جلا وطنی کی سزا دی جا رہی تھی؟ ظاہر ہے مجرموں کے بااثر خاندانوں نے‘ اورنگ زیب اور اس کے اہل خانہ کو ڈرا دھمکا کر کہا ہو گا کہ اگر وہ سمجھوتہ نہیں کریں گے‘ تو انہیں بھی شاہ زیب کی طرح موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔ ظاہر ہے‘ اورنگ زیب میںاتنے طاقتور لوگوں سے ٹکرانے کی ہمت نہیں تھی۔یقینی طور پر اسے دبائو میں آ کر اپنی اور اہل خاندان کی جان بچانے کے لئے یہ حیرت انگیز سمجھوتہ کرنا پڑا کہ وہ اپنے بیٹے کا خون بھی معاف کرتے ہیں اور اپنے خاندان کی جلاوطنی بھی قبول کرتے ہیں۔چیف جسٹس کے نوٹس لینے کے بعد یقینی طور پر عدالت اس سمجھوتے کا جائزہ لے گی اور عدالت عظمیٰ کے معزز ججوں کی طرف سے جو تبصرے سامنے آئے ہیں‘ ان سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مجرموں کا بچنا مشکل ہو چکا ہے۔اندرون سندھ اور بلوچستان‘ ایسی ناانصافیاں دن رات ہوتی ہیں۔ لیکن یہ کیس میڈیا میں آنے کے بعد‘ طاقتور گھرانے من مانی کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائے۔ پاکستانی معاشرہ آج بھی زندہ و بیدار ہے۔ جس کا تازہ ثبوت شاہ زیب کیس ہے۔ مذہب کے نام پر قتل کے مجرموں کو بچا کر نکال لینے کی جو ترکیب استعمال کی گئی‘ وہ کسی کام نہ آئی اور معاشرے کا اجتماعی ضمیر ایک بار پھر حرکت میں آ گیا۔ حکومت سندھ کا فرض ہے کہ وہ مقتول کے خاندان کی تاحیات حفاظت کا انتظام کرے تاکہ وہ اعتماد اور احساس تحفظ کے ساتھ پاکستان میں رہ سکیں۔ اس خاندان کا کیا قصور ہے کہ اپنے نوجوان بیٹے سے محروم ہو کر خود بھی جلاوطنی کی سزا بھگتے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved