ایک طوفان سیاسی دنیا میں بپا ہے اور ایک سڑکوں پر۔سیاستدان ایک دوسرے کو جتنا بھی برابھلا کہیں‘ جتنے بھی الزام لگائیں‘ جتنا بھی کرپٹ اور نااہل ثابت کریں‘ جتنا بھی چور‘لٹیرا کہیں‘میری طرف سے تو ان سب پر صاد ہے۔ہم نے سب کے چہرے دیکھ لیے ہیں۔سب ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں۔کہ چور دوسرے پر چوری کی تہمات لگا رہا ہے اور ہر نالائق دوسرے کو نا اہل ثابت کر رہا ہے اور سچ یہ ہے کہ سب سچے ہیں۔ اس معاملے میں جھوٹا ایک بھی نہیں۔اتنے بڑے ہجوم میں اگر کوئی چہرہ داغ دار نہیں ہے توحیرت ہوتی ہے کہ کیسے بچ گیا۔کیسے اتنی کیچڑ بھری سڑک پر اس کے کپڑے اجلے ہیں۔ اور وہ گنے چنے نہ ہونے کے برابر چہرے کون سے ہیں؟یہ الگ کالم کا موضوع ہے۔
لیکن جو طوفان لاہور‘کراچی اور ہر چھوٹے بڑے شہر کی سڑکوں پر بپا ہے اس کا اصل نشانہ دراصل صرف عام لوگ ہیں۔جب روزی کے اڈوں پرپہنچنا ممکن نہ رہے‘ملازمت والی سیٹ کے راستے بند ہوجائیں‘دیہاڑی دار اپنے کام پر نہ جاسکیں‘خوانچہ لگانے والے بچوں کے لیے رزق کی سبیل سے محروم ہوجائیں اور یہ بندش روز کا معمول بن جائے توسیاستدانوں سمیت فیصلہ سازوں کو جتنی بھی بد دعائیں ملیں‘کم ہیں۔زمان پارک میں جو میدان جنگ بنا ہوا ہے‘اس کے درست اور غلط فیصلے سے قطع نظر‘اور اس بات سے الگ ہوکر کہ کون سچا ہے‘کون جھوٹا‘عملی تکلیف کس کو پہنچ رہی ہے ؟کیا فیصلہ سازوں کو ؟کیا وزیروں کو ؟کیا سیاستدانوں کو ؟کیا حکم صادر کرنے والوں کو؟تکلیف تو ساری رہ گیروں کے حصے میں آرہی ہے۔پیادوں کو پہنچ رہی ہے‘ وزیر اور بادشاہ تو ہر چیز سے محفوظ ہیں۔فیصلہ ساز تو محفوظ ہیں۔
ملک کے فیصلہ ساز کس لیے ان عہدوں پر ہوتے ہیں ؟اس لیے کہ وہ ملک میں بسنے والوں کی سہولت کے مطابق فیصلے کریں۔ بسنے والی اشرافیہ نہیں‘عام آدمی۔وہ اس لیے بھاری تنخواہیں اور مراعات عوام کی جیبوں سے وصول کرتے ہیں کہ عوام کا حق عوام تک پہنچا سکیں۔وہ میلوں ٹھیلوں‘ نمائشوں‘محفلوں کی زینت بننے کے لیے مقرر نہیں ہوتے۔ دفتری اوقات کار میں اپنے ذاتی شوق پورے کرنے کے لیے نہیں ہوتے۔کمال یہ ہے کہ اعلیٰ ترین عہدوں پر بیٹھے ہوئے عہدے دار بھی‘جو بہت کوششیں کرکے اس جگہ پہنچے ہیں‘اپنی ملازمت‘اپنے ادارے‘ اپنے محکمے اور اپنی وزارت کو برا بھلا کہہ رہے ہوتے ہیں۔حکومتی اہلکار خود حکومت کو برا کہہ رہے ہیں۔میں حیران ہوتا ہوں کہ ایسے لوگ عہدہ بھی نہیں چھوڑتے‘تنخواہ بھی نہیں‘مراعات بھی نہیں اور اپنے شعبے کو برا بھلا کہنا بھی نہیں۔ہر شعبہ زوال کا شکار ہے اور اہم ترین عہدے دار بھی اپنی ذمہ داری نہ پہچاننے کے لیے تیار ہیں نہ قبول کرنے کے لیے۔سیدھی سی بات یہ ہے کہ اگر آپ کسی عہدے پر مطمئن نہیں ہیں تو کسی بہتر آدمی کے لیے نشست خالی کریں اور باہر سڑکوں پر بے بسوں کے ہجوم میں شامل ہوجائیں‘لیکن ایسے لوگ کچھ کام بھی نہیں کرنا چاہتے حتیٰ کہ سیٹ خالی کرنے کا کام بھی نہیں۔
میرا دفتر لاہور کی مرکزی سڑک مال روڈ پرانارکلی چوک کے قریب ہے۔ اہم ادارے‘سیکرٹریٹ‘بڑے تعلیمی ادارے‘گنجان آبادیاں‘ہول سیل مارکیٹس وغیرہ سب کے وسط میں یا بالکل قریب۔ اب کیا بتایا جائے کہ اس سڑک پر دفتر ہونا کیسی بڑی مشکل بن کر رہ گیا ہے۔یہ مال روڈ جو لاہور کی جان اور شان ہوتی تھی‘مصیبت بن کر رہ گئی ہے۔اور ایک طرح کی تکلیف نہیں‘ ایک دن کی مصیبت نہیں‘روز کی مصیبت اور ہر طرح کی مصیبت۔ گورنر ہاؤس‘وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ‘سول سیکرٹریٹ‘ہائی کورٹ‘سب ادھر‘ اس لیے وی آئی پی مووومنٹ بھی مسلسل۔اور صاحب آجارہے ہوں تو سگنل ہی کیا ٹریفک بھی بند کردینا‘کون سی انوکھی بات ہے۔ان کی زندگی ہر زندگی سے زیادہ اہم جو ہے۔ہر احتجاج اسی سڑک پر کبھی ناصر باغ‘کبھی مسجد شہدا‘ کبھی گورنر ہاؤس پر لازمی ہے۔کسی اور سڑک پر نہ لوگوں کو اتنا پتا چلتا ہے نہ اتنی تکلیف پہنچتی ہے اس لیے مال روڈ ہی بلاک کرکے توجہ کھینچی جاتی ہے۔کوئی ریلی ہو‘کوئی جلوس ہو‘کوئی خوشی ہو یا غمی۔ مال روڈ کو بند کردیناہر مسئلے کا حل ہے۔ جس آدمی کی مجبوری ہے کی مجبوری ہے کہ روز اسی جگہ پہنچنا ہے وہ بس خون کے گھونٹ پیتا رہتا ہے اور جیتا رہتا ہے۔اس کے گھر اور دفتر پہنچنے کے تمام راستے بند کرکے انتظامیہ خوش رہتی ہے کہ سارے مسائل کا حل نکال لیا گیا ہے۔یہ مال روڈ نہیں بد حال روڈ ہے۔
پنجاب پولیس اور اسلام آباد پولیس نے دو روز زمان پارک کا محاصرہ کیے رکھا‘لیکن محصور دراصل ہم مال روڈ والے تھے۔جو ملازم پیشہ لاہور کینٹ‘آر اے بازار‘صدر وغیرہ کی طرف سے آنے والے ہیں‘اور ان کا گزار ابسوں پر ہوتا ہے‘وہ روز اس عذاب سے گزر تے ہیں کہ نہر کے پل سے پہلے بسیں روک دی جاتی ہیں‘سواریاں اتار دی جاتی ہیں۔اور کہہ دیا جاتا ہے کہ جہاں سینگ سمائیں چلے جاؤ۔ اندازہ کیجیے کہ بوڑھوں‘مریضوں‘عورتوں پر کیا گزرتی ہے۔وہ کتنی دور پیدل چل سکتے ہیں اور اس مال روڈ پر جہاں پبلک ٹرانسپورٹ ویسے ہی مشکل ہے‘کسی طرف کا راستہ بھی بے رکاوٹ نہیں۔پٹرول کی اس گرانی میں انسان سوچتا ہے کہ کم سے کم خرچ میں اپنی منزل پر پہنچ جائے لیکن عملاً ہوتا یہ ہے کہ طویل ترین راستہ زیادہ سے زیادہ پٹرول خرچ کرکے ہی مقدر بنتا ہے۔
زمان پارک میں شیلنگ‘آنسو گیس‘پتھراؤ‘فائرنگ کی خبریں سن سن کر ہر اُس آدمی کا دل دہل رہا تھا جو اپنی چاردیواری سے دور تھا۔اور زمان پارک ہی کیا ٹائر تو ہائی کورٹ اور جی پی او کے سامنے بھی جل رہے تھے۔ نعرے لگاتی ٹولیاں تو ہر طرف پھر رہی تھیں۔گھر والوں کے فون اور پیغامات آرہے تھے کہ خدا کے لیے جلد گھر آجائیں‘ٹی وی دیکھ دیکھ کر سہمے جارہے ہیں۔ میں وقت سے پہلے ہی دفتر سے نکلا کہ کسی محفوظ راستے کی تلاش کروں اوراپنی پناہ گاہ تک پہنچوں۔آئی جی آفس کے سامنے حفاظتی اقدامات اس طرح تھے جیسے ہوائی حملے ہورہے ہوں۔ پہلے سوچا کہ ملتان روڈ کا راستہ اختیار کرلوں‘لیکن یاد آیا کہ وہاں تو انڈر پاس زیر تعمیر ہے اس لیے ایک نیا ہجوم میرا منتظر ہوگا۔ایک تنگ سی گزرگاہ سے گزر کرکسی طرح ہارن ہونکتی گاڑیوں کے اس ہجوم میں شریک ہوگیا جو چیونٹی کی رفتار سے رینگتا ہوا فیروز پور روڈ تک پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ہر طرف سے راستے بند تھے اس لیے سبھی گاڑیاں اس طرف آگئی تھیں۔ فیروز پور روڈ عام طور پر میری روز کی گزرگاہ ہے کہ قریب ترین راستہ یہی ہے۔لیکن ہر بار فیروز پور روڈ پر آکر محسوس ہوتا ہے کہ انسان لمبا راستہ چن لے‘اس تکلیف میں مبتلا نہ ہو۔ مصیبت میں پھنسے لوگ کبھی ایک طرف کا راستہ اختیار کرتے تھے اور اسے بند پاکر واپس آتے تھے۔اس سڑک پر گاڑی چلانی پڑ رہی تھی جہاں پیدل کا راستہ بھی نہیں تھا۔گاڑیوں کے سائیڈ وں میں لگے آئینے آپس میں ٹکر ا رہے تھے اورلوگ ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے۔ قصور کس کا تھا؟سچ یہی تھا کہ سب بے قصور آپس میں ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہرا رہے تھے۔میں نے لوگوں کے منہ سے بلا تعین اور بلا تخصیص سب کے لیے بد دعائیں سنیں کہ بے بسی میں یہی ان کے بس میں تھا۔
آج کل کی مہنگائی کے اس دور میں ایک چیز وافر ہے۔اور بہت ارزاں بھی۔ بد دعائیں۔صبح سے شام تک جتنے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے خواہ نوکری پیشہ ہو‘دکاندار ہو‘ دیہاڑی دار ہو‘کوئی بھی ہو۔بد دعائیں ہر ایک کے منہ پر ہیں۔وہ زمانہ گزر گیا جب کسی خاص جماعت خاص طبقے‘خاص حکومت کو بددعائیں ملا کرتی تھیں۔اب یہ سب کے لیے علی العموم ہیں اور فراوانی سے ہیں۔ یہ بددعاؤں کی ارزانی کا موسم ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved