شاہ زیب قتل کیس اس اعتبار سے خصوصی اہمیت کا حامل کیس تھا کہ اس نے پوری ریاست کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کروالیا تھا ۔ایک پولیس آفیسر کے بیٹے کو ایک جاگیر دار کے بیٹے نے صرف اس وجہ سے قتل کردیا کہ اس جواں سال لڑکے نے جاگیردار کے بگڑے ہوئے بیٹے کو اپنی بہن کو چھیڑنے سے منع کیا تھا۔ مقتول کے مظلوم ورثاء کے کرب وعزم کو دیکھ کر سول سوسائٹی نے بھی مظلوموں کی حمایت میں بھر پور طریقے سے آواز اٹھائی۔ اسی اثناء میں قاتل ملک سے فرار ہوکر سمندروں کو عبور کرگیا۔ لیکن قانون کی طاقت اسے واپس کھینچ لائی اور چند ہی روز بعد مجرم اپنے معاونین کے ہمراہ کٹہرے میں کھڑاتھا۔شفاف ٹرائل اور ٹھوس شہادتوں کے میسر آجانے کے بعدانسداد دہشتگردی کی عدالت نے بااثر مجرم کو سزائے موت سنادی۔ پوری قوم نے اس فیصلے پر سکھ کا سانس لیا اور اس بات کی امید پیدا ہوئی کہ مجرم خواہ کتنا بھی بااثر کیوں نہ ہو قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتا۔پورا معاشرہ ان لمحات کا منتظر تھا کہ جب سفاک قاتل کو سزائے موت دی جائے۔ تاہم سزائے موت کا حکم سننے کے بعد بھی مجرم کا رویہ متکبرانہ رہا۔ وہ اپنی انگلیوں سے فتح کا نشان بنا رہا تھا۔ عوام کی یہ خواہش تھی کہ جلد از جلد مجرم کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے ۔عوامی امنگوں کے با لکل برعکس ایک دن اچانک اطلاع ملی کہ مقتول کے لواحقین نے دیّت لے کر سفاک قاتل اور اس کے ساتھیوں کو معاف کردیا ہے ۔اس معافی کی وجہ سے معاشرے میں قانون قصاص ،دیّت اور فساد فی الارض جیسے عنوانات پر بحث کا آغاز ہوگیا۔ یہ تاثر قائم ہوا کہ کوئی بھی با اثر قاتل سرمایے کے استعمال کے ذریعے ہر قسم کی سزا سے بچ سکتا ہے ۔ قوانین شریعت کی مخالفت کرنے والے عناصراور طبقات بھی خم ٹھونک کر میدان میں اتر آئے ۔ان کا کہنا تھا کہ دیّت کا قانون مظلوم کی بجائے ظالم کی پشت پناہی کرتا ہے ۔وہ مغرب زدہ عناصر جو کل تک قانونِ قصاص اور سزائے موت کی مخالفت کرتے نہ تھکتے تھے ،آج پورے جوش وخروش سے قانون دیت کی مخالفت کررہے تھے۔ایسے لوگوں کا مقصد عوام کو اسلام سے بدگمان کرنے کے سوا کچھ نہ تھا ۔بہت سے لوگ شکوک و شبہات کا شکار ہوچکے تھے ۔وہ اسلامی قوانین حقیقت اور احکام شریعت کی حکمتوں کو جاننا چاہتے تھے۔ جذبات اور پروپیگنڈے کی فضا میںتوازن اور دیانتداری سے حالات کا تجزیہ کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے؛ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ درست تجزیہ کیا جائے تاکہ معاملات کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ سب سے پہلے قرآن وسنت کی روشنی میں قانون قصاص و دیت کو سمجھنا ضروری ہے ۔اس قانون کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ قتل کی مختلف اقسام کو سمجھا جائے ۔قتل کے جرم کی بنیادی طور پرتین اقسام ہیں ۔(1)قتل خطاء(2)قتل عمد (3)قتل شبہ عمد ۔قتل خطاء سے مراد ایسا قتل ہے جس میں قاتل کا نہ تو قتل کرنے کا اردہ ہواور نہ ہی اس نے حقیقت میں مقتول پر حملہ کیا ہو ،ہتھیار صاف کرتے ہوئے فائر پِن کا دب جانا یاگاڑی چلاتے ہوئے ایکسیڈنٹ کی صورت میں قتل ہوجانا ،قتل ِخطاء کے باب میں آئے گا۔قتل عمد سے مراد ایسا قتل ہے جس میں قاتل نے ارادتاًمہلک یا تیز دھار ہتھیارسے مقتول پر حملہ کیا ہو اور نیت بھی قتل کی ہو ۔کسی کو نشانہ باندھ کر قتل کردینا قتل عمد کے باب میں آئے گا ۔قتل شبہ عمد سے مراد ایسا قتل ہے جس میںقاتل نے ایسے آلے سے مقتول کو ضرب لگائی ہو جس کو قتل کے لیے استعمال نہ کیا جاتا ہو اور قاتل کی نیت بھی قتل کرنے کی نہ ہو ۔کسی کو غصے سے تھپڑ ،مکایا چھڑی زور سے مارنا اور اس ضرب کے نتیجے میں مضروب کا جاں بحق ہوجانا قتل شبہ عمد کے باب میں آئے گا۔ قتل خطا ء اور قتل شبہ عمد میں چونکہ قاتل کی نیت قتل کی نہیں ہوتی اس لیے اسلام نے جان کے بدلے جان لینے کی بجائے مسلمانوں کی راہنمائی دیت کے ذریعے معافی کے راستے کی طرف کی ہے ۔ قتل عمد میں چونکہ قاتل کا ارادہ قتل کرنے کا ہی ہوتا ہے ۔اس لیے قاتل کو اس جرم کی وجہ سے قتل کرنا قصاص کہلاتا ہے۔ اسلام اگرچہ قصا ص کا بہت زیادہ حامی ہے تاہم مقتول کے ورثا ء اگر چاہیں تو قاتل کو دیت لے کر یا بغیر دیت کے معاف کرسکتے ہیں ۔اس ضمن میں یہ بات یاد رکھنی ضروری ہے کہ مقتول کے ورثاء پر کسی قسم کا دبائو نہ ہو اور انہوں نے دیت لینے کا فیصلہ بغیر کسی مجبوری کے شرح صدر سے کیا ہو۔ قتل خطاء اور قتل عمد کے علاوہ قتل کا جرم کئی مرتبہ اپنی سنگینی اور بربریت کی وجہ سے ایسی شکل اختیار کر جاتا ہے کہ اس کو مجرد قتل قرار نہیںدیا جا سکتابلکہ معاشرے پر اپنے منفی اثرات کی وجہ سے یہ جرم فساد فی الارض میں داخل ہوجاتا ہے ۔گینگ ریپ کی وارداتیں ،دن دہاڑے ڈاکے ، بینکوں کو لوٹنے جیسے اقدامات اور پبلک مقامات پر نہتے عوام کو دہشت گرد ی جیسے حادثات پیش آنا فساد فی الارض کے باب میں آتے ہیں ۔قرآن مجید کے مطابق فساد فی الارض کے مرتکب سزائے موت کے مستحق ہیں اور مقتول کے ورثاء اگر قاتل یا مجرم کے ساتھ سمجھوتہ بھی کرنا چاہیں تو ان کے ساتھ کسی قسم کی رو رعایت کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ۔ شاہ زیب قتل کیس فیصلہ کن مراحل میںداخل ہوچکا ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی اس کیس کااز خود نوٹس لے چکے ہیں ۔اس مقام پر دو معاملات کی پڑتال کرنا بہت ضروری ہے ۔پہلی بات یہ کہ کیا شاہ زیب کے لواحقین نے بغیر کسی دبائو کے دیت کو قبول کیا ہے یا اس کیس میں بھی لواحقین کو دیت لینے پر اسی طرح کیا گیا ہے ،جس طر ح ریمنڈ ڈیوس کیس میں لواحقین کو جبراً دیت لینے پر مجبور کیا گیا تھا ۔اگر آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ دیت جبراًدی گئی ہے توپھر اس دیت کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہوگی ۔قانون قصاص کے تحت سزائے موت برقرار رہے گی ۔اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ دیت تو لواحقین نے اپنی مرضی سے لی لیکن جرم اپنی سنگینی کے اعتبارسے فساد فی الارض کے باب میں آتا ہے تو اس صورت میں دیت کا اصول مجرم کی سزا ئے موت کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتا ۔ اس بات کا فیصلہ کرناکہ یہ جرم فساد فی الارض کے باب میں آتا ہے یا یہ جرم مجرد قتل کا جرم ہے‘ عدالت کا کام ہے۔ عدالت کا جج یا قاضی قرائن یا شہادتوں کی روشنی میں جرم کی سنگینی کا تجزیہ کرنے میں مکمل خود مختار ہے اور اس سلسلے میں اس کو ڈکٹیٹ کرنا یا دبائو میں لانا انصاف کے تقاضوں کے منافی ہوگا ۔ اگر عدالت کا جج یہ فیصلہ سنا دیتا ہے کہ قاتل کو سزا مجرد قتل کے جرم میں دی گئی ہے تو اس صورت میں مقتول کے ورثاء کا دیت لینا شرعاً اور قانوناً درست پائے گا ۔اگر چہ مقتول کے ورثاء کا یہ عمل عوامی جذبات سے ہم آہنگ نہیں تاہم عوامی جذبات کے ذریعے مقتول کے ورثاء کو دبائو میں لانا اسی طرح غلط ہوگا ۔جس طرح دبائو اور جبر کے ذریعے مقتول کے ورثاء کو دیت وصول کرنے پر راضی کرنا غلط ہے ۔عوام کی غالب اکثریت اگرچہ شاہ زیب کے قاتلوں کے گلے میں پھانسی کا پھندا دیکھنا چاہتی ہے لیکن اگر مقتول کے ورثاء دیت قبول کرنے پرآمادہ ہوجائیں تو عوام کیا کر سکتے ہیں۔ قوم کی نظریں اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے کی منتظر ہیں کہ قاتل دیت کے ذریعے بچ نکلنے میں کامیاب ہو تا ہے یافساد فی الارض کے قانون کی وجہ سے پھانسی گھاٹ پرپہنچتاہے ۔مظلوم شاہ زیب کے خون ناحق نے پوری قوم کو رنجیدہ و آبدیدہ کیا ہوا ہے۔ پوری قوم عدالتی فیصلے کے انتظار میں دوراہے پر کھڑی ہے۔ اس دو راہے پر کھڑا ہو کر یہی کہا جاسکتا ہے ۔ قریب ہے یارو روزِ محشر، چھپے گا کُشتوں کا خون کیوں کر جو چُپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved