کسی بھی انسان کے لیے ممکن ہی نہیں کہ دوسروں سے یکسر ترکِ تعلق کے ساتھ جیے۔ ہر انسان کو مختلف سطحوں پر، مختلف حوالوں سے دوسروں کی مدد درکار ہوتی ہے۔ بعض معاملات میں وہ خود بھی دوسروں کی مدد کرتا ہے۔ دنیا 'کچھ دو اور کچھ لو‘ کے اصول کی بنیاد پر کام کرتی آئی ہے۔ یہ منطقی طریق ہے۔ اِس میں کسی کے لیے نقصان کا کوئی پہلو نہیں۔ انگریزی میں اِسے win-win معاملہ کہا جاسکتا ہے؛ یعنی ایسا معاملہ جس میں کسی بھی فریق کو شکست یا ناکامی کا منہ نہ دیکھنا پڑے۔ ہم سائبر سپیس میں جینے کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ سائبر سپیس یعنی انٹرنیٹ اور آن لائن دنیا۔ یہ ورچوئل دنیا ہے یعنی دنیا نہیں ہے بلکہ دنیا جیسی ہے۔ سائبر سپیس میں ہم وڈیو اور آڈیو کالیں بھی کرتے ہیں، چیٹنگ یعنی بات چیت بھی کرتے ہیں اور یکطرفہ نوعیت کا ابلاغ بھی کرتے ہیں۔ بہر کیف‘ یہ سب کچھ ہمیں رفتہ رفتہ شدید احساسِ تنہائی کی طرف لے جارہا ہے۔ بالمشافہ ملاقات کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ جب چند افراد مل بیٹھتے ہیں تو کچھ الگ ہی سماں ہوتا ہے۔ ورچوئل ماحول میں وہ لطف کبھی محسوس ہو ہی نہیں سکتا جو حقیقی دنیا میں پایا جاتا ہے۔ گزرے ہوئے زمانوں کے انسانوں کو ورچوئل دنیا کا کچھ اندازہ ہی نہیں تھا کیونکہ اُنہوں نے سوچا ہی نہیں تھا کہ کبھی ایسا بھی ہوگا کہ لوگ سمع و بصر کی بنیاد پر ملاقاتیں کیا کریں گے۔ سائبر سپیس میں روز ملنا بھی انسان کی تشفی کا ذریعہ نہیں بنتا۔ بن بھی کیسے سکتا ہے؟ کسی انسان کا بنفسِ نفیس کہیں موجود ہونا ایک الگ ہی دنیا کا معاملہ ہے۔ کسی سے روزانہ وڈیو کال پر سیر حاصل گفتگو کرنے سے وہ لطف کبھی نہیں مل سکتا جو بالمشافہ ملاقات میں ممکن ہوتا ہے۔
انسان عجیب مخمصے کا شکار ہے۔ وہ اس بات کو سمجھتا ہے کہ سائبر سپیس میں زندہ رہنے کے باعث اُسے شدید بیزاری کا سامنا ہے مگر اس بیزاری سے نپٹنے کے معاملے میں وہ زیادہ یا خاطر خواہ حد تک سنجیدہ نہیں۔ فزیکل نوعیت کے ترکِ تعلق کے ہاتھوں وہ شدید الجھنوں سے دوچار ہے۔ نئی نسل اپنا بیشتر وقت آن لائن کلچر کو دے رہی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ رجحان قوی سے قوی تر ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں بیزاری کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ بیزاری اُسی وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان ملنے جلنے سے خواہ مخواہ گریز کرتا ہے۔ فزیکل انٹر ایکشن یعنی بالمشافہ ملاقات کی شدید ضرورت محسوس ہونے پر بھی انسان اپنے خول یا کمفرٹ زون سے باہر نہیں آتا۔ وہ بہت سے معاملات میں، کسی ٹھوس جواز کے بغیر، الجھا ہوا اور خوفزدہ رہتا ہے۔ یہ سب کچھ بہت حد تک فکر و عمل میں پائے جانے والے تضاد کا نتیجہ ہے۔ ملنے کو جی چاہ رہا ہو تب بھی لوگ ملنے سے محض اس لیے گریز کرتے ہیں کہ یہی اس زمانے کا چلن ہے! دوسروں کی اپنائی ہوئی راہ پر گامزن رہنے سے بھیڑ چال کا ماحول پیدا ہوچکا ہے۔ خود ساختہ تنہائی کے ہاتھوں پیدا ہونے والی بیزاری سے نجات پانے کے بہت سے طریقے ہیں۔ جنہیں تنہائی کے بڑھتے ہوئے احساس کے ہاتھوں اپنی ذہنی صحت کی فکر لاحق ہوچکی ہو اُنہیں لاپروائی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ بہتر تو یہ ہے کہ ذہنی امراض کے کسی ماہر سے رابطہ کیا جائے، اُس سے مشاورت کی جائے۔ اگر فوری طور پر ایسا ممکن نہ ہو تو اپنے معمولات اور مشکلات کا جائزہ لے کر کچھ نہ کچھ ایسا کیا جاسکتا ہے جو احساسِ تنہائی کے بطن سے ہویدا ہونے والی بیزاری اور بے دِلی سے نپٹنے میں مدد دے۔
تنہائی کے احساس کی شدت گھٹانے کے لیے سوشل گروپ میں شمولیت اختیار کی جاسکتی ہے۔ لوگوں سے ملنا، خیالات کا تبادلہ کرنا انسان کو تنہائی اور اُس کے ہاتھوں پیدا ہونے والی بیزاری سے بچاتا ہے۔ جو لوگ تنہائی کے احساس کے ہاتھوں ذہنی سطح پر الجھے ہوئے ہوں اُن کے لیے معاملات بہتر بنانے کا ایک اچھا طریق یہ ہے کہ علاقے یا کمیونٹی کو اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کریں۔ پُرانے دوستوں سے ملاقات کے ذریعے بھی ذہن کی الجھن بہت حد تک کم کی جاسکتی ہے۔ تنہائی کا احساس جو بیزاری پیدا کرتا ہے وہ دوستوں کی معیت میں برائے نام بھی محسوس نہیں ہوتی۔ مشاغل انسان کو بیزاری سے بچاتے ہیں۔ فراغت کے لمحات کے لیے مشاغل اپنائیے۔ نئے مشاغل انسان کو زیادہ خوش رکھتے ہیں۔ مشاغل سے انسان بہت کچھ سیکھتا اور پاتا ہے۔ ایسے مشاغل اپنانے پر توجہ دیجیے جو تخلیقی صلاحیت بروئے کار لانے میں معاون ثابت ہوں۔ جن گھروں میں جانور پالے جاتے ہیں اُن گھروں کے مکین کبھی تنہائی محسوس نہیں کرتے۔ تنہائی کا احساس ختم کرنے کے لیے کوئی جانور پالیے۔ یہ وقت ڈھنگ سے گزارنے کا اچھا طریقہ ہے۔ گھر میں جانور پلے ہوئے ہوں تو طبیعت ہشاش بشاش رہتی ہے۔ علاقے یا کمیونٹی سے قطعِ تعلق کی راہ پر گامزن ہوکر گھر میں بند رہنے سے تنہائی کا احساس بڑھتا ہے۔ علاقے کی تقریبات اور سرگرمیوں میں جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیجیے۔ یوں لوگوں سے میل جول بڑھے گا، اُنہیں سمجھنے میں مدد ملے گی اور وہ بھی آپ کو سمجھنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ بسا اوقات ایسی سرگرمیوں سے اچھے دوست ہاتھ آجاتے ہیں۔ اگر تنہائی کے احساس کے نتیجے میں ذہنی صحت متاثر ہو رہی ہو اور اِس کے اثرات ظاہر بھی ہو رہے ہوں تو ذہنی امراض کے معالج سے رجوع کیجیے۔ کسی ماہر سے مشاورت آپ کی پریشانی کا گراف نیچے لاسکتی ہے۔ تنہائی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیزاری سے جان چھڑانے کی ایک اچھی صورت کسی نصاب یا کلاس میں حصہ لینا بھی ہے۔ یہ مصروفیت آپ میں بیزاری کا احساس ختم کرسکتی ہے۔ انسان تنہائی کا شکار ہو تو جسم بھی شدید متاثر ہوتا ہے۔ ذہن کی الجھن جسم کو بھی‘ خواہ مخواہ‘ تھکاتی ہے۔ ایسے میں باقاعدگی سے ورزش کرنے سے جسم بھی متوازن رہتا ہے اور ذہن بھی الجھنے کی منزل سے دور رہتا ہے۔ اگر کسی سے بالمشافہ ملاقات کی زیادہ گنجائش نہ ہو تو آن لائن دوستی کیجیے۔ آن لائن دوستی خیالات کے تبادلے کی راہ ہموار کرتی ہے۔ ایسا کرنے سے تنہائی کا احساس خاصا گھٹ جاتا ہے۔ مراقبہ بھی انسان کو تنہائی کے احساس سے نپٹنے میں مدد دیتا ہے۔ جب انسان فضول معاملات کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہونے کے بجائے اپنے بارے میں غور کرتا ہے تب بیزاری کے خاتمے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ یومیہ بنیاد پر لکھنے کی عادت ڈالیے۔ یومیہ سرگرمیوں کو محفوظ کرنے میں دلچسپی لیجیے۔ لکھنے سے انسان تنہائی کے احساس کو گھٹانے میں کامیاب رہتا ہے۔ انسان جو کچھ کسی سے نہیں کہہ پاتا اُسے لکھ کر دنیا کے سامنے رکھ سکتا ہے۔
مذہبی رسوم اور تقریبات میں شرکت سے انسان اپنا وقت زیادہ معیاری انداز سے گزارتا ہے۔ وقت کو معیاری طریق سے گزارنے کا احساس انسان کو بیزاری سے بچاتا ہے۔ خوش رہیے اور دوسروں کو بھی خوش رکھنے کی کوشش کیجیے۔ تنہائی سے بطریقِ احسن نپٹنے میں یہ عمل بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ہر معاملے میں ناخوش رہنے والے تنہائی کے شدید منفی اثرات کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتے ہیں۔ خوش رہنے کے لیے کسی بھی جواز کی ضرورت نہیں۔ یہ خالصتاً قوتِ ارادی کا معاملہ ہے۔ اظہارِ تشکر بھی طبیعت کو ہشاش بشاش رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ تنہائی کا احساس یا بیزاری مٹانے کے لیے تخلیقی صلاحیت بروئے کار لائیے۔ جو لوگ اپنا تخلیقی جوہر بروئے کار لانے پر متوجہ رہتے ہیں وہ اچھا وقت گزارتے ہیں اور اپنے کام سے حاصل ہونے والی مسرت انہیں خوش رکھتی ہے۔ تنہائی کے احساس سے پیدا ہونے والی بیزاری سے بچنے کے لیے سفر کیجیے۔ سیاحت انسان کو بہت خوش رکھتی ہے۔ نئے مقامات دیکھنے سے انسان کا ذہن کھلتا ہے، دِل کِھلتا ہے۔ سفر انسان کو نئے لوگوں سے ملنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یوں انسان تنہائی کے احساس کو قابو میں رکھنے میں بہت حد تک کامیاب رہتا ہے۔ بہت سے لوگ‘ ماہرین کے مشورے پر‘ تنہائی کے احساس سے نپٹنے کے لیے کھانا پکانے کو مشغلے کے طور پر اپناتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ گھر میں کھانا پکانے والے افراد ذہنی صحت برقرار رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ تنہائی کا احساس ہمارے بڑھانے سے بڑھتا ہے۔ ہم طے کرلیں کہ اِسے قابو میں رکھنا ہے تو پھر کوئی بھی معاملہ ہمیں تنہا محسوس کرنے کی نہیں دھکیل سکتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved