جب پی ٹی آئی والے کہتے تھے کہ خان ہماری ریڈ لائن ہے تو میں سمجھتا تھا کہ کیا شیخی مار رہے ہیں۔ مجھے یقین تھا کہ جب خان کی گرفتاری عمل میں لانی ہوئی تو تھوڑی سی مزاحمت ہوگی لیکن گرفتاری ہو جائے گی۔ جب گرفتاری کا آپریشن شروع ہوا تو میں نے سوچا کہ یہ پی ٹی آئی کے لوگ کتنی دیر کھڑے رہ سکیں گے۔ رات دیر تک کبھی ٹویٹر کھول کے دیکھتا کبھی نیوزچینلوں پہ جاتا‘ یہ جاننے کے لیے کہ زمان پارک اور اس کے گردونواح میں کیا ہو رہا ہے۔ پھر سو گیا اور صبح جب اٹھا تو دل میں دھڑکا تھا کہ گرفتاری ہو گئی ہو گی۔ خبروں کی طرف گیا تو یہ جان کر حیرانی کی انتہا نہ رہی کہ گو پنجاب پولیس نے اس آپریشن میں سب کچھ جھونک دیا تھا لیکن پی ٹی آئی کے ورکر اب تک کھڑے ہوئے ہیں۔
دنیا چینل کے حسن رضا صبح چھ بجے زمان پارک سے رپورٹ کررہے تھے اور ان کی اتنی عمدہ رپورٹنگ تھی کہ میں نے انہیں فون کیا اور شاباش دی۔ حسن رضا نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے مقابلہ تو بہت کیا ہے لیکن آٹھ بجے تک پولیس آخری دھاوا بولے گی اور عمران خان کے گھر کے اندر داخل ہو جائے گی۔ آٹھ بجے اور میں پھر خبروں کی طرف لپکا لیکن کیا دیکھتا ہوں کہ پولیس گھر کے بڑے دروازے کے قریب تو پہنچ گئی تھی لیکن پی ٹی آئی کے نوجوانوں نے پولیس کو وہاں سے پیچھے دھکیل دیا۔ مجھ کمزور دل کو پھر بھی یقین تھا کہ عدالتوں کے کھلنے سے پہلے پولیس آخری چڑھائی کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ لیکن جیسے جیسے اجالا پھیلنے لگا‘ یوں لگتا تھا کہ رات بھرکی مزاحمت کے بعد پی ٹی آئی کے ورکرز پھر سے تازہ دم ہو گئے ہیں۔ جو تھوڑی بہت فوٹیج دستیاب ہو رہی تھی‘ اس سے صاف پتا چلتا تھا کہ پولیس کے حوصلے پست ہو رہے ہیں۔ اتنے میں کالے کوٹوں میں ملبوس کچھ وکلا مال روڈپر آ چکے تھے‘ جو بھی سامنے آیا اس کی دوڑیں لگوا دیں۔ میرا ڈگمگاتا دل سنبھل گیا کیونکہ مجھے اس وقت یقین ہونے لگا کہ اب کوئی مائی کا لعل گھر کے قریب نہیں بھٹک سکے گا۔
رات گئے ایسی خبریں آ رہی تھیں کہ سی سی پی او لاہور نے آپریشن کی کمان سنبھال لی ہے‘ فلاں ڈی آئی جی‘ جو ایسے آپریشنوں کا وسیع تجربہ رکھتا ہے‘ وہ رہنمائی کرنے کے لیے پولیس کنٹرول سنٹر میں موجود ہے۔ پولیس شیخوپورہ سے بلا لی گئی‘ گوجرانوالہ سے فورس آئی ہے‘ فیصل آباد کی پولیس بھی بلا لی گئی۔ لگتا یوں تھا کہ جنگِ سٹالن گراڈ جاری ہے اور کمان میں یہ پولیس افسر نہیں بلکہ کوئی جرمن جرنیل ہیں۔ آنسو گیس شیل اتنے استعمال ہوئے کہ شاید لاہور کی تاریخ میں اتنے نہ ہوئے ہوں۔ جہاں تک پی ٹی آئی کا تعلق ہے‘ اسے تو ہم ممی ڈیڈی پارٹی نہیں کہا کرتے تھے؟ لیکن سچ پوچھئے کہ پی ٹی آئی کے ورکروں نے کمال کردیا‘ ایسی ہمت‘ دلیری اور استقامت میں نے نہیں دیکھی۔ جلسے اور جلوسوں کے ساری عمر ٹھرکی رہے‘ بہت سے معرکے دیکھے نہیں ہیں‘ تو ان کے بارے میں جانتے تو ہیں لیکن اس زمان پارک والے معرکے کی ہماری حالیہ تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ کچھ تو پکے لاہوریے وہاں موجود تھے لیکن پختون بھی تھے اور گلگت بلتستان کے نوجوان بھی۔ جتنا تشدد کوئی پولیس فورس کر سکتی ہے‘ اس سے بہت زیادہ تشدد کیا گیا لیکن پتہ نہیں کس مٹی کے بنے ہوئے وہاں موجود نوجوان تھے۔ ڈنڈے کھائے‘ آنسو گیس میں باقاعدہ نہلا دیے گئے لیکن وہاں پیچھے ہٹنے کا کوئی نام نہیں لے رہا تھا۔ سورج کافی نکل چکا تھا جب لاہور ہائیکورٹ کے ایک سنگل بینچ سے آپریشن روکنے کا حکم آیا لیکن سچ تو یہ ہے کہ پولیس اہلکاروں کے دل بیٹھ چکے تھے اور نوجوان کی دلیری سے آپریشن ناکام ہو چکا تھا۔ اوروں کو یقین ہوگا‘ مجھے نہیں تھا کہ ایسا ہوگا لیکن تاریخ رقم ہونی تھی اور پختونخوا سے لے کر گلگت بلتستان تک اور وہاں سے لے کر لاہور تک کے نوجوانوں نے یہ کارنامہ کر دکھایا۔
عمران خان یا پی ٹی آئی کا نام سن کر جن کے پیٹوں میں مروڑ اٹھتے ہیں‘ وہ کہیں گے کہ قانون کی حکمرانی کہاں گئی۔ ایسے لوگوں سے یہ پوچھا جائے کہ جن حکام نے یہ سارا تماشا لگایا‘ وہ اتنے عقل کے اندھے کیوں ثابت ہوئے؟ مسئلہ تھا خان پر ایک نوٹس تعمیل کرانے کا۔ ایک اے ایس آئی ہمراہ دو کانسٹیبلان زمان پارک جاتے اور کہتے جناب یہ دستخط کرانے ہیں‘ اسلام آباد کی فلاں عدالت میں اٹھارہ تاریخ کو آپ کی پیشی ہے اور ہم یہ تعمیل کرانے آئے ہیں۔ فورس اتنی تیار کی گئی کہ جیسے کشمیر فتح کرنے چلے ہیں۔ خبروں میں آیا کہ واٹر کینن تیار کھڑے ہیں۔ مختلف رینجوں سے پولیس بلائی گئی ہے اور پکا ارادہ ہے کہ خان کو گرفتار کرنا ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ مقصد سمن کی تعمیل نہ تھی بلکہ عمران خان کی تذلیل تھی۔ قانون کے رکھوالوں اور ٹھیکیداروں سے یہ بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ کس قانون کی حکمرانی کی بات ہو رہی ہے؟ شہباز گل اور اعظم سواتی کے ساتھ دورانِ گرفتاری جو کیا گیا‘ کیا وہ قانون کی حکمرانی کی کوئی درخشاں مثالیں تھیں؟
کیا نوٹنکی والی حکومت‘ کیا اس حکومت کے ہاتھ رکھے‘ سب کے اعصاب پر خان سوار ہے۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ خان سے کیسے جان چھڑوائیں۔ انہیں یہ بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ انتخابات کا کیا کریں۔ آئین کا حکم ہے کہ اسمبلیاں نہ رہیں تو انتخابات لازمی ہیں لیکن یہ سب انتخابات سے ڈرے ہوئے ہیں کیونکہ انہیں پتا ہے کہ ان کی شکست ہوگی‘ ایسی ویسی بھی نہیں‘ تاریخی۔ نواز شریف عدالتوں سے بھاگے ہوئے ہیں لیکن لندن میں آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ پچاس روپے کے اشٹام پر شہباز شریف بھائی جان کے ضمانتی ہیں کہ علاج کے بعد واپس آئیں گے۔کیا بنا اُس اشٹام کا اور اُس ضمانت کا؟کسی نے وزیراعظم کو طلب کیا ہے کہ آپ تو ضمانتی ہیں وہ کہاں گیا؟ شہبازشریف کے خلاف کرپشن کے مقدمات قائم تھے لیکن سب کسی ردی کی ٹوکری میں ڈال دیے گئے ہیں۔چھوٹے بیٹے کے خلاف کرپشن کا مقدمہ تھا لیکن پتہ نہیں اُس کا کیا بنا ۔ وزیراعظم کا داماد عدالتی مفرور ہے ۔اُسے واپس لانے کی کوئی کوشش نہیں ہو رہی۔بس ایک ہی دردِسر ہے‘ عمران خان کو کیسے قابو کیا جائے۔اَن گنت مقدمات اُس پر قائم کر دیے گئے ہیں ۔ کبھی ایک عدالت میں پیشی کبھی دوسری میں ۔آخری حربہ گرفتاری کا تھا اورخان اندرکرلیا جاتا تو سمجھئے انتخابات کا قصہ تمام ہو جاتا۔
پوچھا جائے ان افلاطونوں سے دیگر کیا تماشے کرنے ہیں ؟ ملک کا ستیاناس ‘ معیشت اُس حال میں کہ تبصرے بے سود ہو چکے ہیں۔ انتخابات سے راہِ فرار ‘ عوام کا ڈر دلوں میں بیٹھا ہوا ہے لیکن آنکھوں میں بربریت کہ فلاں اور فلاں کو سبق سکھانا ہے۔بہت ہوچکی ہے ‘ ملک و قوم پر کچھ رحم کیا جائے ۔معاملات سنبھالے جاتے پھر کس نے انگلی اٹھانی تھی ‘ لیکن خدا کا عذاب ہی لگتا ہے کہ نالائقوں کا ایسا ٹولہ بٹھا دیا گیا ہے جنہیں بس اپنی ہی پڑی ہے‘ قوم جائے بھاڑ میں۔ کب تک یہ ناٹک جاری رہ سکے گا ؟کتنا مزید امتحان قوم کا لینا ہے ؟
ایک بات ذہن نشین کر لی جائے‘ اور کچھ عمران خان نے کیا ہے یا نہیں قوم کو جگا دیا ہے‘لوگوں میں وہ شعور آ چکا ہے جو پہلے نہ تھا۔جو آج باتیں ہو رہی ہیں وہ پہلے کبھی کی جاتی تھیں؟مقدس گائیوں کے خلاف کبھی زبان کھلتی تھی؟ لیکن اب ایسے ہونے لگا ہے۔دلوں میں جذبہ نہ ہوتا تو یہ پی ٹی آئی والے زمان پارک میں ایسے ڈٹ کر کھڑے ہوسکتے تھے؟اس کیفیت کو اب بدلا نہیں جاسکتا‘ کوئی مقدس گائے اب نہیں رہ گئی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved