تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     15-09-2013

طالبان سے مذاکرات؟

کل جماعتی کانفرنس میں پہلی بار پاکستان کی سیاسی قیادت کے ساتھ فوجی قیادت بھی موجود تھی۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل نے اہلِ سیاست کو پہلی بار اس موضوع پر بریف کیا اور اپنا نقطہ نظر خوب اچھی طرح ان پر واضح کردیا۔کہا گیا تھا کہ اس کانفرنس میں صرف ان جماعتوں کے نمائندے شریک ہوں گے، جو منتخب اداروں میں نمائندگی رکھتی ہیں۔ اس طرح حضرت مولانا سمیع الحق کا دروازہ بند کردیا گیا، حالانکہ وہ طالبان کی ’’نانی اماں‘‘سمجھے جاتے ہیں۔ ایک ایک ،دو دو، تین تین نشستوں والی جماعتیں بھی مدعوئین میں شامل تھیں۔صرف عوامی مسلم لیگ اور ضیاء مسلم لیگ کے سربراہان شیخ رشید احمد اور اعجاز الحق کو تشریف آوری کی زحمت نہیں دی گئی۔حالانکہ ان دونوں کے پاس قومی اسمبلی کی ایک ایک نشست بنفسِ نفیس موجود ہے۔وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید، یہ نکتہ نکال کر لائے کہ شیخ صاحب چونکہ تحریک انصاف کی بدولت کامیاب ہوئے تھے، اس لئے عمران خان کی موجودگی نے ان کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا، جہاں تک اعجاز الحق کا تعلق ہے وہ مسلم لیگ(ن) کے حمایت یافتہ ہیں، اس لئے ’’ہماری‘‘ موجودگی میں ان کی کیا ضرورت تھی؟ اس نکتہ سنجی کی داد دے دی جائے تو انگلیاں پروفیسر ساجد میر کی طرف اٹھ سکتی ہیں کہ کیا ان سے مسلم لیگ(ن) کا رشتۂ اعتماد مجروح ہو چکا ہے، جو ان کی حاضری کی ضرورت محسوس کی گئی۔ مذکورہ بالا دونوں حضرات کو اپنی غیر حاضری سخت گراں گزری، وہ ٹیلی ویژن سکرین پر دندناتے ہوئے پائے گئے۔شیخ صاحب نے دل کی بھڑاس خوب اچھی طرح نکالی،اعجاز الحق کچھ شرمائے لجائے رہے،لیکن اس بات پر دونوں کا اتفاق تھا کہ ان کی غیر موجودگی سے ملک و قوم کے مفاد کو شدید نقصان پہنچا ہے۔محتاط الفاظ میں یہ کہا جا سکتاہے کہ اگر ان کو بلا لیا جاتا تو کسی کوکوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا تھا۔جس قرارداد پر تمام شرکاء نے اتفاق کیا، اس پر ان کے بھی دستخط ہو جاتے تو اس کے الفاظ کو دو اچھے وکیل مل جاتے۔ یہ درست ہے کہ شیخ صاحب کی زبان ان کے قابو میں نہیں رہتی اور وہ اپنا فقرہ ضائع نہیں کرتے،خواہ اس کے نتیجے میں کچھ بھی ضائع ہو جائے۔یہ اور بات کہ ان کی اس ’’زباندانی‘‘ سے مسلم لیگ(ن) نے برسوں استفادہ کیا ہے ان کے ’’اقوال زریں‘‘ پر ن لیگی کارکنوں کے نعرہ ہائے تحسین کی گونج لاہور کے اس بازار میں آج بھی سنی جا سکتی ہے،جہاں شیخ صاحب اپنا جوبن دکھاتے رہے ہیں۔ کل جماعتی اجتماع میں فوجی قیادت کی موجودگی سب کے لئے باعث اطمینان تو تھی ہی، عمران خان صاحب کے مزید اطمینان کے لئے ان کے اس مطالبے کو تسلیم کرلیا گیا کہ وزیراعظم اور آرمی چیف سے ان کی علیحدہ ملاقات ہونی چاہیے۔کانفرنس کے آغاز سے پہلے ’’تینوں بڑے‘‘ ایک کمرے میں بیٹھ گئے۔عمران خان کی معاونت کے لئے وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور وزیراعظم کا ہاتھ بٹانے کے لئے چودھری نثار علی خان بھی موجود رہے۔اس ملاقات نے عمران خان صاحب پر مفید اثرات مرتب کئے اور کانفرنس کے اعلامیے کو ان کی بھرپور تائید حاصل ہوگئی۔ تمام شرکاء نے اتفاق رائے سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کا اعلان کیا اور وفاقی حکومت کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ خیبر پی کے کی حکومت کو اعتماد میں لیتے ہوئے قدم آگے بڑھائے۔پہلی بار ’’ورنہ‘‘ کا لفظ بھی استعمال نہیں کیا گیا۔ ایک حکومتی ترجمان نے اس کی وضاحت یوں کی کہ مذاکرات واحد آپشن ہیں۔گویا، جو بھی رکاوٹیں درپیش ہوں اور جو بھی نکتے پیداکئے جائیں، بات چیت کا دروازہ کھلا رکھا جائے گا، اسے بند کرنے کے لئے بندوق کی خدمات حاصل نہیں ہوں گی۔ بلوچستان کے انتہا پسندوں کی طرف سے بھی مذاکرات کے حق میں رائے دی گئی۔اختر مینگل کی موجودگی نے اس کو ایک نئی معنویت دے دی تھی۔ان کا لہجہ تلخ تھا،لیکن بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک ان کے پرانے ساتھی ہیں، ان کے پُراعتماد الفاظ نے ذائقہ بدل دیا۔ تحریک طالبان پاکستان(جو قبائلی جنگ جوئوں کی سب سے بڑی تنظیم سمجھی جاتی ہے) نے اعلامیے کا خیر مقدم کرتے ہوئے مذاکرات میں شرکت کا اعلان کردیاہے۔اب اس کی طرف سے اپنے مطالبات کی نوک پلک درست کی جارہی ہے۔ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ مذاکرات کب، کیسے اور کہاں ہوں گے؟ کیا باقاعدہ اعلان شدہ ٹیمیں ایک دوسرے کے مقابل ہوں گی یا ٹی وی کیمروں سے آنکھ بچا کر، ایک دوسرے سے رابطے ہوں گے اور فریقین کا اعتماد رکھنے والے زعما معاملات کو کسی نتیجے تک پہنچانے کے لئے سرگرم ہوں گے۔یہ بھی ممکن ہے کہ ابتدائی رابطے (جن کا آغاز ہو چکا ہے) اعلانیہ نہ ہوں،چیدہ چیدہ نکات پر اتفاق ہو جائے تو پھر میز سجا دی جائے۔طریق کار جو بھی ہو، فریقین کو یاد رکھنا چاہیے کہ معاملات نازک ہیں اور کسی بے احتیاطی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔جہاں حکومتی ذمہ داروں کو زبان سوچ سمجھ کر کھولنی چاہیے، وہاں طالبان قیادت پر بھی لازم ہے کہ وہ پھونک پھونک کرقدم رکھے۔ مذاکراتی عمل پر پاکستانی قوم کا اعتماد بحال رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ پُرتشدد کارروائیوںکو فوری طور پر بند کردیا جائے۔پاکستان کے ریاستی ادارے اپنا نظم و ضبط برقرار رکھیں اور طالبان کہلانے والے بھی ضبط نفس کا مظاہرہ کریں۔کسی بھی صورت میں، کسی بھی طور، کوئی جنگی اقدام نہیں کیا جانا چاہیے۔ڈرون حملوں کے خلاف کانفرنس نے پوری شدت سے احتجاج کیا ہے اور اس معاملے کو اقوام متحدہ میں لے جانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ امید رکھنی چاہیے کہ امریکی قیادت پاکستانی قوم کی اس اجتماعی آواز پر کان دھرے گی اور کسی ڈرون حملے کے ذریعے ایک نئی آگ نہیں بھڑکنے پائے گی، لیکن بالفرضِ محال ایسا ہو جاتا ہے تو بھی تحریک طالبان پاکستان کو کسی ردعمل کا شکار ہونے سے بچنا ہوگا۔ ایسے کسی حملے کو جواز بنا کر پاکستان کے اندر کوئی (نام نہاد جوابی) کارروائی کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ مذاکرات کی کنجی امریکہ کے ہاتھ میں ہے وہ جب چاہے بساط الٹ سکتا ہے۔امریکہ کے خلاف دن رات غم و غصے کا اظہار کرنے والوں کو کسی بھی امریکی اقدام کے ردعمل کے ناروا اظہار سے اپنے آپ کو بچانا ہوگا۔ پاکستانی میڈیا میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے بحث جاری ہے، ان کے حق میں دلائل موجود ہیں اور ان کے خلاف دلائل ڈھونڈنے والے بھی کم نہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے چالیس ہزار افراد اس جنگ کی نذر ہو چکے ہیں، ہمارے فوجی اور سول سپوتوں کے خون سے کس نے اپنے ہاتھ رنگے ہیں، یہ ہم سب پر واضح ہے۔ اگر جذبات کی شدت کسی دانشور پر غالب آ جاتی ہے تو یہ کوئی غیر فطری بات نہیں… لیکن ہمیں یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ زندہ قومیں ماضی میں رہنے کی بجائے مستقبل پرنظر رکھتی ہیں۔جو نقصان ہوچکا، اس کے خاتمہ سے زیادہ اہمیت اس نقصان کا اندازہ لگانے کی ہے، جو آنے والے دنوں میں ہو سکتا ہے۔ ہزاروں افراد کی شہادت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مزید ہزاروں افراد کی شہادت کو جزو ایمان بنا لیا جائے۔اگر ایسا ہوتا تو دنیا میں کہیں بھی جنگ کے بعد امن کے لئے مذاکرات نہ ہوتے۔ بیرونی جارحیت ہو یا اندرونی خلفشار، جہاں بھی معاملہ بات چیت کے ذریعے طے ہو سکتا ہو، وہاں ضرور ایسا کیا جانا چاہیے۔65ء کی جنگ کے بعد معاہدہ تاشقند،71ء کی جنگ کے بعد شملہ معاہدہ اور کارگل کی جنگ کے بعد آگرہ یاترا ،اگر ممکن ہے تو داخلی ’’انتہا پسندوں‘‘ کے ساتھ بات چیت کیوں نہیں کی جا سکتی؟بلوچستان کے جنگجوئوں کے ساتھ اگر بات چیت کی جا سکتی ہے توفاٹا کے ’’جنگجوئوں‘‘ کو کیوں تہہ تیغ کرنا ہی لازم ہے؟ہمارے اہلِ دانش کو حالات پر ٹھنڈے دل سے غور کرکے کوئی نتیجہ نکالنا چاہیے۔آگ جلاتے چلے جانے سے ہنڈیا جل تو سکتی ہے، پک نہیں سکتی۔ (یہ کالم بیک وقت روزنامہ ’’دنیا‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved