تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     18-03-2023

پھر وہی حربے

عمران خان اور تحریک انصاف کے حامی صرف اور صرف ایک مطالبہ کر رہے ہیں کہ عوام کو ان کا حقِ اقتدار دیں اور آئین و قانون کے مطابق صاف اور شفاف انتخابات کرائیں۔ لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان اس حوالے سے فیصلہ دے چکی ہیں۔ اب اگر کوئی فرد یا سیاسی جماعت عدالت کے احکامات کی تعمیل کیلئے آواز ا ٹھائے تو وہ دہشت گرد کیسے بن گئی؟ گزشتہ روز مسلم لیگ نواز کی سینئر نائب صدر مریم نواز صاحبہ نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں پورا زور یہ ثابت کرنے کے لیے لگایا کہ تحریک انصاف ایک دہشت گرد تنظیم ہے اور اس پر پابندی لگائی جانی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو مناظر زمان پارک میں نظر آئے‘ ایسے مناظر اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھنے میں آئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ گلگت بلتستان پولیس کو پنجاب پولیس کے سامنے کھڑا کر کے دونوں صوبوں کو لڑانے کی کوشش کی گئی۔ ایک صوبے کو دوسرے سے لڑوانا بغاوت کا اقدام ہے۔ اگر ان الزامات کی بات کریں تو سب سے پہلے یہ بات وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب صاحبہ نے کی تھی جسے گزشتہ روز مریم نواز نے دہرایا۔ اس ایشو کو لے کر بھارتی میڈیا میں کیا طوفان برپا کیا جا رہا ہے‘ وہ ایک الگ معاملہ ہے مگر میں یہاں کچھ اور حقائق سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ میرے سامنے اس وقت سترہ مارچ کے اخبارات پڑے ہیں۔ سبھی اخبارات نے آئی جی پولیس پنجاب اور نگران وزیر اطلاعات عامر میر کی جمعرات کی گئی پریس کانفرنس کی خبر شائع کی ہے۔ اس پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر اطلاعات کے بیان کے تناظر میں آئی جی پنجاب سے سوال کیا گیا کہ کیا گلگت بلتستان اور پنجاب کی پولیس آمنے سامنے آئی تھیں؟ اور کیا پنجاب میں جی بی پولیس غیر قانونی طور پرموجود ہے؟ اس کے جواب میں آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ ''وردی پہننے والا ہر شخص ریاست کا ملازم ہوتا ہے، جی بی پولیس غیر قانونی طور پر لاہور نہیں آئی، کوئی دو فورسز آمنے سامنے نہیں آئیں اور نہ ہی کسی فورس نے گولیاں چلائی ہیں‘‘۔ آئی جی پنجاب کی وضاحت کے باوجود ایک ایسے غیر حقیقی بیانیے کو اچھالا جا رہا ہے جس میں سراسر ہمارے ازلی دشمن کا مفاد ہے۔
مریم نواز صاحبہ کا اپنی پریس کانفرنس میں یہ بھی کہنا تھا کہ آج بھی عمران خان کے وارنٹ معطل ہو گئے‘ کیا یہ سہولت نواز شریف اور باقیوں کو بھی حاصل ہے؟ شاید وہ بھول گئیں کہ موجودہ وزیراعظم نے جس روز حلف اٹھایا‘ اسی روز عدالت نے انہیں فردِ جرم عائد کرنے کے لیے طلب کر رکھا تھا، بعد ازاں نئی قانون سازی سے یہ کیس ہی ختم ہو گیا۔ موجودہ وزیر خزانہ کو احتساب عدالت نے اثاثہ جات ریفرنس کیس میں مفرور اور اشتہاری قرار دے رکھا تھا۔ اسلام آباد کی ایک احتساب عدالت نے 14 دسمبر 2017ء کو ان کی جائیداد کی قرقی کے احکامات بھی جاری کیے تھے (اس وقت مسلم نواز کی حکومت تھی اور شاہد خاقان عباسی وزیراعظم تھے) مگر وطن واپسی پر نہ صرف یہ کہ انہیں گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ یہ الزامات بھی واپس ہو گئے اور قرق کی گئی جائیدادیں بھی انہیں واپس مل گئیں۔ وہی 25 جائیدادیںجن میں سے 16 سے متعلق یہ بیانِ حلفی جمع کرایا گیا تھا کہ ان سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اپریل 2019ء میں نیب ٹیم حمزہ شہباز شریف کو گرفتار کرنے جب ان کی رہائش گاہ پر پہنچی تھی‘ تو وہاں پر کیا ہوا تھا‘ یہ ایک الگ معاملہ ہے‘ البتہ حمزہ شہباز کو گھر میں بیٹھے ہی نہ صرف ضمانت مل گئی تھی بلکہ عدالت نے نیب کو یہ بھی احکامات جاری کیے کہ حمزہ شہباز کو گرفتار کرنے سے دس روز قبل عدالت کو پیشگی مطلع کیا جائے۔اس حوالے سے درجنوں مزید حوالے دیے جا سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ سہولت دیگر سیاسی شخصیات کو مل سکتی ہے تو ایک سابق وزیراعظم کو کیوں نہیں؟
اگر عدالتوں میں پیشی کے حوالے سے عمران خان کے مطالبات پر غور کیا جائے تو وہ غیر منطقی ہیں اور نہ ہی غیر قانونی۔ عمران خان کا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ ان کے سبھی کیسز کو کسی ایک جگہ یکجا کیا جائے۔ کبھی انہیں اسلام آباد کی کچہری میں پیش ہونا ہے‘ کبھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں، کبھی لاہور کچہری، کبھی لاہور ہائیکورٹ اور کبھی سپریم کورٹ، اس کے علاوہ ایف آئی اے اور الیکشن کمیشن الگ سے نوٹسز جاری کر رہے ہیں۔ دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ ان کو وڈیو لنک سے پیشی کہ سہولت دی جائے۔ ایسے وقت میں جب عدالتوں میں وکیل تک وڈیو لنک سے پیش ہو سکتے ہیں‘ عمران خان پر حملہ کرنے والا شخص بھی وڈیو لنک ہی سے عدالت میں پیش ہوتا ہے‘ تو یہ سہولت اس شخصیت کو کیوں نہیں مل سکتی جس پر حملہ ہوا؟ یہ تو خود حکومت کے لیے بھی بہت بڑی سہولت ہو گی جسے ہر پیشی سے قبل نہ صرف کچہریوں اور عدالتوں بلکہ تمام روٹ پر بھی سکیورٹی کے انتظامات کرنا پڑتے ہیں۔ وزیر آباد واقعے کے بعد عمران خان دو بار لاہور ہائیکورٹ اور ایک بار اسلام آباد میں پیش ہوئے‘ اس دوران سکیورٹی کے نام پر پورا شہر بند رکھا گیا۔ کیا یہ ریاستی وسائل کا ضیاع اور عوام کے ساتھ ناانصافی نہیں؟ اگر وڈیو لنک پر پیشی ہو سکتی ہے تو کیوں نہیں؟ گزشتہ دنوں عمران خان نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ اب تک وہ اسلام آباد کچہری میں اس لیے پیش نہیں ہوئے کہ وہ مقام زیادہ محفوظ نہیں سمجھا جاتا۔ واضح رہے کہ مارچ 2014ء میں اسلام آباد کی ایف ایٹ کچہری میں دو خود کش حملے ہو چکے ہیں جن میں ایک جج اور متعدد وکیلوں سمیت درجنوں افراد شہید ہوئے تھے۔ ایسے میں عمران خان‘ مختلف ملکی و غیر ملکی ایجنسیاں جن پر دوبارہ حملے کے خدشات ظاہر کر چکی ہیں‘ کی سکیورٹی کی ضمانت کون دے گا؟ کیا اس حکومت پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے جسے عمران خان اپنے اوپر ہوئے گزشتہ حملے میں بھی نامزد کر چکے ہیں؟
آج کل عمران خان کے ناقد ین اور اور حکومت کے ترجمانوں کی فوج ایک ہی راگ الاپ رہی ہے کہ کپتان ڈر گیا ہے‘ اسے گرفتاری دے دینی چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ وہ گرفتاری کسے دے؟جب وزیرداخلہ سرعام یہ کہتے نظر آئیں کہ ''ایسا علاج کریں گے کہ قوم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے‘‘ تو کون ہو گا جو ایسی حکومت کو گرفتاری دے؟ کیا ان حالات میں خود کو اپنا دشمن سمجھنے والوں کے رحم و کرم پر چھوڑا جا سکتا ہے؟ اسی پر بس نہیں بلکہ وہی سلسلہ اب حکومتی سطح پر شروع کر دیا گیا ہے جو آج سے 45 برس پہلے مشرقی پاکستان کے خلاف شروع کیا گیا تھا۔ اگر اس وقت کے اخبارات پر نظر ڈالی جائے تو یہی بیانات دیکھنے کو ملیں گے کہ بنگالی ملک دشمنی کر رہے ہیں‘ وہ دشمن کے ایجنٹ بن گئے ہیں‘ وہ دہشت گرد ہیں‘ ملک میں انتشار پیدا کرنے کیلئے بیرونی فنڈنگ لے رہے ہیں۔ پنجاب کے نگران وزیر اطلاعات ایک سیاسی جماعت کو ہٹلر کی نازی پارٹی سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ گزشتہ روز کی پریس کانفرنس میں وہ کے پی سے زمان پارک اپنے لیڈر کی حفاظت کیلئے آئے ہوئے لوگوں کو عسکریت پسند قرار دیتے نظر آئے۔ یہ بیان صوبائیت کو ہوا دینے اور ملک کی اکائیوں کو کمزور کرنے کے مترادف ہے جس پر فوری معافی مانگنی چاہیے۔ یادش بخیر‘جب نیب نے اکرم درانی اور مولانا فضل الرحمن کو مختلف کیسز میں نوٹس بھیجتے ہوئے طلب کیا تھا تو اس وقت مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ وہ اپنے لشکر کے ساتھ نیب کے دفتر پہنچیں گے، ان کا کہنا تھا: ''ہمت ہے تو مجھے بلا لیں‘‘۔ یہ الفاظ سوشل میڈیا پر کل سے اٹے پڑے ہیں۔ ایک اور وڈیو بھی اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں مولانا فضل الرحمن صاحب اسلام آباد میں دیے جانے والے دھرنے سے متعلق میڈیا سے گفتگو کر رہے ہیں اور ان کے پہلو میں یوسف رضا گیلانی اور موجودہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ صاحب کھڑے ہیں۔ مولانا صاحب فرما رہے ہیں کہ ''میں اپنے تمام کارکنوں کو ہدایت دینا چاہتا ہوں‘ تمام (پی ڈی ایم) پارٹیوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ تمام رکاوٹیں توڑ کر آئیں۔ جہاں جہاں پولیس یا کوئی بھی قوت راستے میں آتی ہے‘ ان کی قوت کو توڑیں‘ ان کے گھیرے کو توڑیں‘ اس سے آگے بڑھیں‘ اور اگر وہ ڈنڈا استعمال کرتے ہیں تو آپ کو بھی ڈنڈا استعمال کرنے کی اجازت ہے‘‘۔ کیایہ حق صرف پی ڈی ایم کو ہی میسر ہے اور اپنے مطالبات کے لیے ڈنڈا اٹھانے والی دیگر جماعتیں غدار اور دہشت گرد ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved