تحریر : زاہد اعوان تاریخ اشاعت     18-03-2023

رمضان المبارک کی تیاری

سید قیصرعباس شاہ ہمارے دوست ہیں اور سینئر صحافی ہونے کے ناتے کولیگ بھی۔ چند روز قبل انہوں نے ایک کیس کے سلسلے میں عدالت جانا تھا۔ صحافیوں کی کثیر تعداد ان کے ساتھ تھی‘ وہ معمول سے ہٹ کر خصوصی طور پر پینٹ کوٹ زیب تن کرکے کچہری پہنچے۔ اُس دن وہ ہم جیسے رپورٹروں اور دیگر صحافیوں سے منفرد نظر آ رہے تھے۔ شام کو حسبِ معمول چائے کی میز پر ان سے سوال ہوا کہ شاہ صاحب! آپ کوئی روایتی سیاست دان تو ہیں نہیں‘ اس لیے گھر والوں نے شک نہیں کیا کہ آج اتنے تیار ہو کر کہاں جا رہے ہیں؟ وہ فوراً مسکرائے اور اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولے کہ صبح صبح گھر میں یہ تیاری بالکل زیرِ بحث آئی تھی۔ اگر شاہ جی روایتی سیاستدان ہوتے تو پھر ان کے گھر والے تو کیا‘ کسی دوسرے نے بھی تعجب کا اظہار نہیں کرنا تھا کیونکہ سیاستدانوں کے بارے میں سب کو علم ہے کہ ان کے ڈھونگ کبھی ختم نہیں ہوتے۔ ویسے بھی پاکستان کی موجودہ سیاست پارٹی یا نظریات کے اختلافات سے بہت آگے جا چکی ہے۔ اب یہ ذاتی مخاصمت میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کو نہ تو وطن عزیز میں جاری بحرانوں کو حل کرنے سے کوئی غرض ہے اور نہ ہی انہیں غریب عوام کے مسائل سے کچھ لینا دینا ہے بلکہ ان کا مقصد صرف حصولِ اقتدار ہے جبکہ غریب آدمی کا اصل مسئلہ آلو، پیاز، آٹے اور گھی کے نرخ ہیں جو روز بروز اس کی پہنچ سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
موجودہ حالات کی تلخی سے قطع نظر‘ ہمیں اس بات پر اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکرادا کرنا چاہئے کہ ایک بار پھر رمضان المبارک کی برکتیں سمیٹنے، اپنے ایمان کو پاکیزہ کرنے اور صحت کو تازہ کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے۔ شریعت اسلامیہ میں روزے کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ انسان طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کیلئے کھانے، پینے سمیت ان افعال و اعمال سے بھی پرہیز کرے جن کی عمومی حالات میں اجازت ہوتی ہے جبکہ ممنوعہ افعال و اعمال تو روزے میں زیادہ سختی سے منع کیے گئے ہیں۔ رمضان المبارک کے روزے دو ہجری میں فرض کیے گئے تھے۔ امام نوویؒ اس حوالے سے لکھتے ہیں: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نو (برس) رمضان المبارک کے روزے رکھے، اس لیے کہ ہجرت کے دوسرے سال شعبان میں رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گیارہ ہجری‘ ربیع الاول کے مہینے میں وصال فرما گئے۔(المجموع)
ایک طرف رمضان المبارک کی برکتیں ہمارے نزدیک آتی جا رہی ہیں تو دوسری طرف ہماری قسمت کے ٹھیکیدار (سیاست دان) ملک میں آئندہ عام انتخابات کو لے کر عجیب وغریب قسم کے سیاسی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ انہیں ایک دوسرے پر الزام تراشی اور اپنی انتخابی مہم کے علاوہ کچھ سوچنے کی فرصت ہی نہیں۔ حالات کے پیشِ نظر حزبِ اقتدار و اختلاف سے تعلق رکھنے والے تمام سیاست دان اس وقت تین کیٹیگریز میں اپنے اپنے اہالیانِ حلقہ کی فہرستیں بنائیں، سب سے پہلی فہرست میں اپنے حلقے میں رہائش پذیر غریب و مستحق افراد‘ جو کوئی روزگار یا کاروبار نہ ہونے کی وجہ سے یا انتہائی محدود آمدنی کی وجہ سے کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں‘ کو شامل کریں تاکہ ان کے گھروں میں رمضان المبارک اور عید الفطر کے لیے راشن پہنچایا جا سکے۔ دوسری فہرست ایسے سفید پوش لوگوں کی بنائی جائے جو بظاہر تو کھاتے پیتے نظر آتے ہیں لیکن مہنگائی کی موجودہ لہر سے سخت پریشان ہیں، ایسے لوگ اپنی انا کی خاطر نہ تو کسی سے مانگ سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی ان کی مدد کرتا ہے لہٰذا سفید پوش طبقے کی مدد کرنا بھی ضروری ہے لیکن اس کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ ان کی عزتِ نفس کا خیال رکھا جائے اور امداد اس طرح کی جائے کہ انہیں خود بھی محسوس نہ ہو کہ کوئی انہیں غریب و بھکاری سمجھ کر ان کی معاونت کر رہا ہے۔ تیسری فہرست علاقے کے مخیر اور کاروباری افراد کی تیار کی جائے کیونکہ ہمارے سیاست دانوں نے اپنی جیب یا اپنے اکائونٹ سے تو کچھ دینا نہیں ہوتا‘ کم ازکم حلقے کے مالی طور پر مستحکم افراد کے ساتھ ہی ایک میٹنگ کرکے وہ غریب و سفید پوش لوگوں کے لیے راشن وغیرہ کا بندوبست کر سکتے ہیں اور اسے بروقت مستحقین تک پہنچا سکتے ہیں تاکہ وہ بھی رمضان المبارک کی تیاری بہتر انداز میں اور آسانی کے ساتھ کر سکیں۔ ہمارے سیاست دانوں کو اگر ایک دوسرے پر الزام تراشی اور ذاتی تشہیر سے فرصت ملے تو شاید عوام کی خدمت کا یہ بہترین موقع ہے۔ اگر وہ صدق دل سے رمضان المبارک سے قبل اپنے حلقے کے غریب عوام کے مہنگائی سے لگے زخموں پر مرہم رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ ان کے لیے کامیاب انتخابی مہم بھی ثابت ہو سکتی ہے‘ اور ووٹ کی شکل میں انہیں اس کام کا فائدہ مل سکتاہے جبکہ اس کا اجر ان شاء اللہ انہیں اگلے جہان میں بھی ملے گا۔
قرآن پاک کی سورۃ البقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر روزے فرض کیے گئے تھے تا کہ تم متقی و پرہیزگار بن جائو‘‘ (آیت: 183)۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے شعبان کے آخری دن ایک خطبہ ارشاد فرمایا ''اے لوگو! تم پر ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے، (یہ) مبارک مہینہ ہے، اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کے روزے رکھنا فرض قرار دیا ہے اور اس کی راتوں میں قیام کو نفل قرار دیا ہے، سو جو اس مہینے میں کوئی نفلی عبادت کرے گا تو اُسے دوسرے مہینوں کے فرضوں کے برابر اجر ملے گا اور جو اس مہینے میں فرض عبادت کرے گا، تو اسے دوسرے مہینوں کے ستر فرائض کے برابر ثواب ملے گا۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ دوسروں سے ہمدردی اور ان کے دکھوں کے مداوے کا مہینہ ہے، یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس میں مومن کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے، جو شخص اس مہینے میں کسی روزے دار کا روزہ اِفطار کرائے گا، تو یہ اس کے لیے گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ بنے گا، اس کے سبب اس کی گردن جہنم کی آگ سے آزاد ہوگی‘‘۔ نیز آپﷺ نے فرمایا: ''یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا پہلا عشرہ رحمت ہے، دوسرا عشرہ مغفرت ہے اور اس کا آخری عشرہ (جہنم کی) آگ سے آزادی کا پروانہ ہے، جو شخص اس مہینے میں اپنے ماتحت (ملازمین) کے کام میں تخفیف کرے تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا اور اسے جہنم سے رہائی عطا فرمائے گا‘‘ (شعب الایمان)۔ روزہ درحقیقت انسان میں صبر، برداشت اور دوسروں کی بھوک کا احساس پیدا کرتا ہے اور اس سے انسان میں تقویٰ، صبر و شکر اور نفس پر غلبہ پانے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ یہ واحد عبادت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ''روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کا اجر دوں گا‘‘ (صحیح بخاری)۔
آج کل ملک میں جو سیاسی ہلچل جاری ہے‘ اس کی وجوہات میں مہنگائی سب سے اہم ہے جس نے عام آدمی کو شدید متاثر کیا ہے اور سفید پوش طبقے کیلئے تو اب اپنے گھر کا چولھا جلانا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ ان حالات میں حکومت اور سیاستدانوں کے علاوہ ہم سب پر انفرادی حیثیت میں بھی لازم ہے کہ رمضان المبارک میں اپنے اردگرد ایسے افراد کاخاص خیال رکھیں جو مہنگائی اور بیروزگاری کے باعث سخت پریشان ہیں، ہمیں رمضان المبارک سے قبل اپنے سٹور راشن سے بھرنے کے بجائے ان غریب رشتہ دار‘ ہمسایوں اور اہلِ علاقہ کو یاد کرنا چاہیے جو سحری و افطاری میں دستر خوان سجانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ہمیں چاہئے کہ رمضان اور عید کے لیے ضرورت سے زائد شاپنگ کرنے کے بجائے مستحقین کو کپڑوں اور راشن کا تحفہ دیں۔ یقینا اس سے اللہ پاک ہمارے روزے قبول فرمائے گا اور عید کی خوشیاں دوبالا کرے گا۔ چلیں‘ آج سے ہی استقبالِ رمضان کا آغاز کریں اورکسی ایک غریب کے گھر سحری و افطاری کے سامان کا تحفہ پہنچا کر اطمینانِ قلب حاصل کریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved