سابق وزیراعظم عمران خان اور حکومتی اداروں کے درمیان آنکھ مچولی جاری ہے۔انہیں کسی نہ کسی طور گرفتار کرنے کی کوشش ہنوز کامیاب نہیں ہو سکی۔ اسلام آباد کی ایک عدالت نے ان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے تھے‘ ان کا ''پلے کارڈ‘‘ بنا کر یعنی بڑے تختے پر چسپاں کر کے اسلام آباد پولیس کے سپاہی لاہور زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ کے باہر پہنچے تھے۔ پنجاب پولیس کی تائید وحمایت بھی انہیں حاصل تھی لیکن خان صاحب تک رسائی نہیں ملی۔ان کے ہزاروں نہیں تو سینکڑوں پرستاروں نے راستہ روک لیا۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں کی طرف سے خطرے کی گھنٹی بجائی گئی اور دیوانے دوڑے چلے آئے‘ انہوں نے اپنے کپتان اور پولیس کے درمیان دیوار کھڑی کر دی۔ پولیس کی بے چارگی قابل ِ دید تھی کہ سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد اُسے بھری بندوقوں کے ساتھ اجتماعات میں نہیں بھجوایا جاتا۔ حضرت طاہر القادری کے مرکز پر جس طرح یورش کی گئی‘ اس کی جس طرح مزاحمت ہوئی اور اس کا جو نتیجہ نکلا وہ ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب بن کر ہر شخص کو ڈراتا رہتا ہے۔اب پولیس پانی پھینک سکتی‘آنسو گیس سے لوگوں کو رُلا سکتی اور ڈنڈے برسا کر انہیں منتشر ہونے پر مجبور تو کر سکتی ہے‘ جانوں سے کھیلا نہیں جا سکتا۔ اس طرح لوگ تو محفوظ ہو گئے ہیں ‘ لیکن پولیس غیر محفوظ ہو چکی ہے۔پولیس کے دستے جب خان صاحب کی خدمت میں ہتھکڑی پیش کرنے کے لیے راستہ بنانے میں کامیاب ہو گئے تو پٹرول بم اڑتے ہوئے آئے‘ اور آگ لگاتے چلے گئے۔ اس بلا سے پالا پڑا تو بڑھتے ہوئے قدم پیچھے ہٹ گئے۔ کپتان ناقابل ِ تسخیربن گیا۔
پٹرول بم اس طرح چلے کہ تحریک انصاف کے کئی رہنما بھی گھبرا گئے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد نے تو صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو فون کر ڈالا کہ خان صاحب سے بات کیجیے اور انہیں پیچھے ہٹایئے‘ پٹرول بم چلانے والے پولیس کو حملہ کرنے کا جواز فراہم نہ کر دیں۔ قطع نظر اس کے کہ یہ (مبینہ) آڈیو کس نے ریکارڈ کی‘ اور سوشل میڈیا کو کیسے فراہم ہوئی‘ اس نے یہ بات عام کر دی کہ پٹرول بم پھینکنے والے زمان پارک میں موجود ہیں اور پولیس کی پیش قدمی کسی بڑی جارحیت پر منتج ہو سکتی ہے۔
عمران خان پر اتنے مقدمے درج ہو چکے ہیں کہ ان کی صحیح تعداد اندراج کرنے والوں کو بھی یاد نہیں۔خان کا دعویٰ ہے کہ سنچری مکمل ہونے والی ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے یہ رواج ہو چلا ہے کہ ایک ہی مضمون کے مقدمے مختلف صوبوں اور مختلف شہروں میں درج کرا دیے جاتے ہیں۔ایک تقریر جو پورے ملک میں نشر ہوتی ہے‘اس سے متاثر ہونے والے بھی پورے ملک میں پائے جا سکتے ہیں‘سو وہ اپنے اپنے غم و غصے کے ساتھ پولیس تھانوں کا رُخ کرتے اور اپنی اپنی ایف آئی آر درج کرا گزرتے ہیں۔ملک کئی اکائیوں میں بٹا ہوا ہے‘ہر اکائی کی ہائی کورٹ الگ ہے‘ نتیجتاً اگر کوئی مقدمہ زدہ شخص ایک بار پولیس کے ہتھے چڑھ جائے تو پھر اسے صوبہ‘ صوبہ گھمایا اور تڑپایا جا سکتا ہے۔اس صورت حال کا کوئی علاج ہمارے اہل ِ سیاست نے ابھی تک تلاش کیا ہے‘ نہ اہل ِ وکالت نے۔جو اقتدار میں آتا ہے وہ اپنے حریفوں کی درگت بنتے دیکھ کر خوش ہو ہو جاتا ہے‘ لیکن جب اُسے حزبِ اختلاف کے بینچ نصیب ہوتے ہیں تو پھر سراپا احتجاج بن جاتا ہے۔
عمران خان کو بھی اسی صورتحال کا سامنا ہے‘ جو ان کے دور میں ان کے مخالفین کو درپیش تھی۔ یہ بھی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ خان کی رفتار اور گفتار چونکہ ڈھیروں ڈھیر ہے‘ اس لیے مقدموں کے بھی انبار لگتے جا رہے ہیں۔عمران خان کو عدالتوں سے ریلیف مل رہا ہے‘ ان کی آزادی سلب نہیں ہو پا رہی‘کہیں حفاظتی ضمانت منظور ہو جاتی ہے‘ تو کہیں عبوری۔ عمران خان کا الزام ہے کہ انہیں گرفتار کرنے والے ان پر تشدد کرنا چاہتے ہیں‘ان کے ساتھ وہی سلوک کرنے کی خواہش پالے ہوئے ہیں‘ جو(ان کے بقول) شہباز گل اور اعظم سواتی کے ساتھ ہو چکا ہے۔یہیں پر بس نہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی جان کو خطرہ لاحق ہے‘خدشات جو بھی ہوں اور فریقین کے جذبات جو بھی ہوں‘کشیدگی بڑھ رہی ہے‘ بی بی مریم تحریک انصاف کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رہی ہیں‘ اور اس سے وہی سلوک ہوتے دیکھنا چاہتی ہیں جو دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔ان سب لوگوں کو جنہیں عمران خان نے زچ کر رکھا ہے‘ عدالتوں پر بھی غصہ آ رہا ہے‘ کہ وہ ریلیف کیوں فراہم کر رہی ہیں۔تاریخ میں بار بار ایسا ہوا ہے کہ سیاسی رہنمائوں کو عدالتوں نے تحفظ فراہم کیا ہے‘ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے عہد میں چودھری ظہور الٰہی اور جاوید ہاشمی پر مقدمات کی یلغار ہوئی تو عدالتوں ہی نے انہیں تحفظ فراہم کیا تھا۔ جاوید ہاشمی اُس وقت طالب علم رہنما تھے‘ان پر کم و بیش ایک سو مقدمات قائم ہوئے تھے‘چوھری ظہور الٰہی کا معاملہ تو یہ تھا کہ ایک مقدمے میں ضمانت ہوتی تو دوسرا درج کر لیا جاتا‘ دوسرے میں رہائی ہوتی تو تیسرا درج کر لیا جاتا‘ تیسرے کے دانت کھٹے کیے جاتے تو چوتھا قائم کر لیا جاتا‘ یہاں تک کہ عدالت عالیہ نے تنگ آ کر یہ حکم جاری کیا کہ جو مقدمات درج ہو چکے ہیں‘ان میں بھی ضمانت اور جو آئندہ درج ہوں گے ان میں بھی ضمانت۔چودھری ظہور الٰہی کا قد بڑھتا چلا گیا‘اور جاوید ہاشمی کے نعرے (اک بہادر آدمی‘ ہاشمی ہاشمی) بھی ملک بھر میں بلند ہوتے چلے گئے۔
عمران خان پر جو مقدمے درج ہو رہے ہیں‘اس سے ان کا قد چھوٹا نہیں ہو رہا‘ ان کے دیوانوں میں جوش بڑھتا جا رہا ہے‘اور خان صاحب کے نعرے بھی بلند ہوتے جا رہے ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے چند روز پہلے سینیٹ کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مفاہمت کی خواہش بڑی شدت سے ظاہر کی تھی۔ خان صاحب نے بھی ایک ٹویٹ میں سب سے بات کرنے پر (گول مول ہی سہی) آمادگی ظاہر کر دی تھی۔ اس وقت ہماری معیشت بے قابو ہے‘آئی ایم ایف کا پروگرام کھٹائی میں پڑا ہوا ہے‘ ڈالر کی اڑان جاری ہے‘ مہنگائی لوگوں کی کمر توڑ رہی ہے‘ سیاسی عدم استحکام معاشی بے یقینی کو مزید گہرا کر رہا ہے‘عمران خان پر مقدموں کے اندراج سے مسئلہ حل ہو گا‘ نہ ان کی گرفتاری سے۔پاکستان کا مفاد تقاضا کر رہا ہے کہ رہنمائی کے سب دعویدار مل بیٹھیں۔عمران خان اور ان کے حامیوں کو اپنی مقبولیت کا بڑا زعم ہے‘اس زعم ہی کا تقاضا ہے کہ وہ آگے بڑھیں‘ اپنی بانہیں کشادہ کریں‘ قوم کو بے یقینی کے بھنور سے نکالنے کے لیے بھرپور کردار ادا کریں‘سب مل کر نعرہ لگائیں‘ قوم‘ ملک‘ سلطنت‘ پائندہ و تابندہ باد۔
گریز پا موسموں کی خوشبو
عرفان صدیقی ادب صحافت اور سیاست کے میدان میں تو لوہا منوا ہی چکے‘ اب ان کی شاعری کا مجموعہ منظر عام پر آیا ہے‘ اور اہل ِ سخن نے دانتوں میں انگلیاں دبا لی ہیں۔شاعر عرفان صدیقی نے جس طرح اپنے آپ کو چھپائے رکھا‘ اس پر حیرت ہو رہی ہے۔اُن کی نظمیں بھی کمال کی ہیں‘ اور غزلیں بھی دلوں کے تار چھو رہی ہیں۔انہوں نے بحیثیت شاعر بھی دلوں کو مٹھی میں لے لیا ہے۔ ان کی شاعری میں وہ سب رنگ دیکھے جا سکتے ہیں‘جو ہمارے چمن سے اڑ گئے ہیں یا اڑا لیے گئے ہیں۔ گریز پا موسموں کی خوشبو بتا رہی ہے کہ روٹھی ہوئی بہار چمن کو پھر نصیب ہو گی یعنی افسردگی پر افسردگی طاری ہو کر رہے گی۔ شاعر عرفان صدیقی کا پیغام بھی وہی ہے‘ جو نثر نگار اور سیاست کار عرفان صدیقی کا ہے۔ پاکستان پر اہل ِ پاکستان کا قبضہ بحال ہو کر رہے گا کہ کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved