تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     19-03-2023

توشہ خانے سے کھلنے والے نئے کٹے...(1)

سید رضی الدین میرے کالم کے مستقل قاری ہیں اور مجھ سے بہت سارے معاملات پر اختلاف رکھنے کے باوجود میرے لیے بہت محترم ہیں کہ ان کی تنقید کبھی بھی دلیل اور احترام کے دائرے سے باہر نہیں جاتی۔ ایمانداری کی بات ہے کہ فی زمانہ مخالفین کو زندہ درگور کردینے کی خواہش کے حامل اس معاشرے میں ایسے ناقد بھی اب غنیمت ہیں اور ان کی تنقید پڑھ کر بھی فرحت ہوتی ہے کہ تحمل‘ بردباری اور برداشت سے عاری اس معاشرے میں یہ وہ لوگ ہیں جن کے دم سے اختلاف اور دشمنی کے درمیان حدِ فاصل اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے۔
سید رضی ایک پنجابی لفظ ''کاڈھو‘‘کی عملی تفسیر ہیں۔ پنجاب میں کاڈھو اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے اندر سے ایسی بات نکالے جو عام آدمی کو دکھائی نہ دیتی ہو اور معاملے کو گہرائی میں جا کر کھنگالتے ہوئے ایسی نئی چیز دریافت کرے جو باقی لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو۔ مجھے ان کی اس صلاحیت پر حیرانی اس لیے نہیں ہوتی کہ وہ اینٹی فراڈ ایکسپرٹ ہیں اور ان کی دوربین نظریں عین اس جگہ پر جا کر ٹھہرتی ہیں جہاں کوئی گڑ بڑ ہوتی ہے‘ آپ ایک پیشے سے مستقل وابستہ رہیں تو آپ کا مسلسل ارتکاز آپ کو ایسی صلاحیتیں عطا کر دیتا ہے جس سے میرے جیسے عام لوگ محروم ہوتے ہیں۔
انہوں نے مجھے ایک خاصا تفصیلی خط لکھا ہے جس میں انہوں نے توشہ خانے سے فائدہ اٹھانے والوں کی چار سو چھیالیس صفحات پر مشتمل طویل فہرست سے ایسے ایسے نیک ناموں کی فنکارانہ کارروائیاں دریافت کی ہیں کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ کیسے کیسے بزعم خود پارساؤں نے کس کس طریقے سے ناجائز کو جائز بنایا اور اپنی نام نہاد ایمانداری کا علم بلند کرنے والے کیسے کیسے متقیوں نے اس بہتی گنگا کے قواعد و ضوابط میں ہیرا پھیری کر کے اشنان کیا۔ اس خط کی روشنی میں جب میں نے توشہ خانہ کے مختلف ادوار کے قوانین دیکھے اور اس میں سے پتلی گلی کے ذریعے مال کھسکانے والوں کی چالاکیاں دیکھیں تو یقین کریں ایمانداری پر تو ا عتبار ہی ختم ہو گیا۔ کہ اب بندہ کسے ایماندار سمجھے اور کسے بے ایمانوں کے خانے میں جگہ دے۔
عمران خان کی گھڑی کے معاملے میں کیونکہ پہلے ہی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور اس سلسلے میں اگر چند سطروں میں اس معاملے پر لکھوں تو وہ یہ ہے کہ اگر عمران خان صاحب نے وہ شہرہ آفاق گھڑیاں توشہ خانہ میں ان کی رقم جمع کروانے سے پہلے بازار میں فروخت کیں اور ان کی رقم بعد میں جمع کروائی تو یہ صاف بددیانتی‘ بے اصولی اور غیر اخلاقی ہونے کے ساتھ ساتھ غیر قانونی بھی ہے اور خاص طور پر اس لیے بھی کہ اٹھارہ دسمبر 2018ء کو جو قواعد خود انہوں نے منظور کیے اس کی شق نمبر سات کے تحت وہ ادائیگی سے قبل تحائف حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ اب اس پر یہ کہنا کہ وزیراعظم کہیں بھاگے تو نہیں جا رہے‘ اگر انہوں نے پیسے بعد میں بھی جمع کروائے ہیں تو اس میں کیا حرج ہے؟ تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ یہ کوئی کاروبار نہیں کہ باہمی اعتبار اور اعتماد کی بنیاد پر مال پہلے اٹھا کر بعد میں ادائیگی کے باہمی اصولوں پر چلایا جائے۔ یہ سیدھی سیدھی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہے اور اسے کسی طور بھی درست نہیں کہا جا سکتا۔ اب شاہد خاقان عباسی نے بھی خان صاحب کی طرح ''میرا گفٹ میری مرضی‘‘ کا نعرہ لگایا ہے تو میرے ذاتی خیال میں میرا گفٹ میری مرضی کے زمرے میں صرف دو راستے ہیں پہلا یہ کہ آپ اسے خود استعمال کریں اور دوسرا یہ کہ آپ اسے اپنے کسی قریبی دوست‘ رشتہ دار یا اہلِ خانہ میں سے کسی کو تحفتاً دے دیں۔ اس کو سستے داموں خرید کر مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت کر کے نفع کمانا قانونی طور پر نہ بھی سہی‘ اخلاقی اور سماجی حوالوں سے شرمناک حرکت ہے اور اس کیلئے کوئی جواز کم از کم میرے نزدیک قابلِ قبول نہیں۔
کیونکہ عمران خان کے بارے میں اس موضوع پر بہت کچھ لکھا بھی جا چکا ہے اور گھڑی چور‘ گھڑی چور کا اتنا زیادہ شور مچایا جا چکا ہے کہ اس پر مزید کچھ لکھنا وقت اور کالم کی جگہ کا ضیاع ہے۔ درج بالا تھوڑی سی تفصیل محض اس لیے لکھی کہ کہیں گھڑی چور کا شور مچانے والے نیک اور پارسا لوگ اپنی گھڑیوں کے غتربود کے پس منظر میں مجھے ''یوتھیا‘‘ قرار دے کر اپنی دو نمبریوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہ کریں۔ خان کی گھڑیوں پر سیاسی رنگ بازی کرنیوالوں کے اپنے ہاتھ بھی اسی سیاہی سے رنگے ہوئے ہیں۔تقریباً ہر شخص نے اپنی مرضی سے قوانین کو توڑا مروڑا اور اس جوڑ توڑ سے اپنے لیے راستہ بناکر ملنے والے تحفوں کو اس غچہ بازی کے طفیل سستے داموں ہتھیایا۔ ایمانداری کی بات ہے کہ اس فہرست میں مجھے اپنے ''گرائیں‘‘ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کا نام دیکھ کر اور ان کی جانب سے تحفوں کو مالِ غنیمت کی طرح گھر لے جانے پر نہ تو افسوس ہوا اور نہ ہی حیرت ہوئی کہ ان کی جانب سے ترک صدر کی اہلیہ کی جانب سے دیا جانے والا ہار چپکے سے گھر لے جانے اور اسے بدقتِ تمام واپس کرنے جیسی حرکت کے بعد مجھے ان کی جانب سے توشہ خانے والے معاملے پر نہ تو حیرانی ہے اور نہ ہی افسوس کہ ان کے بارے میں کسی قسم کا حسنِ ظن باقی ہی نہیں تو افسوس یا ملال کس بات کا؟
یہی حال زرداری صاحب اور اپنے راجہ صاحب کاہے۔ قارئین! آپ یقین کریں اب عمر کے اس حصے میں مجھے ان کا نام واقعی یاد نہیں آ رہا تاہم ان کی عرفیت ضرور یاد ہے۔ تو ان حضرات سے بھی اس عاجز کو کسی قسم کی کوئی اچھی امید نہیں تھی اس لیے ان کے معاملات پر نہ تو ہمارے مہربان سید رضی نے ہی کوئی توجہ دی ہے اور نہ ہی مجھے کوئی دلچسپی ہے۔اس سارے حیرت خانے میں دو باتیں بڑی قابلِ غور ہیں۔ پہلی یہ کہ ہمارے دوست شاہ محمود قریشی نے بہرحال اپنے پکے ٹھکے پیر ہونے کا ثبوت دیا ہے اور تحفے میں ملنے والی ہر مہنگی چیز خریدنے کے بجائے اسے توشہ خانہ میں جمع کروا دیا اور ہر سستی اور مفت ملنے والی چیز گھر لے گئے۔ جی خوش ہوا کہ محض پانچ نسلوں سے گدی نشین ہونے کے باوجود انہوں نے نجیب الطرفین گدی نشینوں سے بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور ملنے والے تحفوں کیساتھ بھی مریدوں سے ملنے والے نذرانوں والا سلوک کیا اور پلے سے خرچ نہ کرنے کی روایت کوکسی حد تک قائم رکھا۔
دوسری حیرت انگیز بات یہ تھی کہ عرصہ بیس پچیس سال سے حکومتی ایوانوں کا مستقل حصہ رہنے والے اور کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی کی مسند کے طفیل بہت سے غیر ملکی دوروں کا لطف اٹھانے والے ہمارے پیارے مولانا فضل الرحمان کا اس طویل فہرست میں کوئی نام و نشان تک نہیں پایا گیا۔ یہ فہرست دیکھ کر میرے دل میں مولانا فضل الرحمان کے بارے میں جو منفی خیالات تھے ان میں کافی حد تک کمی ہوئی ہی تھی کہ قبلہ شاہ جی (ملتان والے) نے میری اس خوش خیالی میں کھنڈت ڈال دی اور کہنے لگے کہ تم بھی عجب گھامڑ آدمی ہو کہ اس قسم کی خوش فہمی کو دل میں جگہ دے رہے ہو۔ اس فہرست میں ان کا نام ہی نہیں‘ یعنی انہیں اس دوران کسی نے تحفہ دیا ہی نہیں۔ جب تحفہ دیا ہی نہیں تو اسے اپنے پاس رکھنے یا توشہ خانے میں جمع کروانے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انہیں کسی نے تحفہ نہیں دیا تو یہ ان کی اعلیٰ شخصیت کی بے حرمتی ہے اور اگر انہیں تحفے ملے ہیں اور ان کا اس فہرست میں کوئی ذکر نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے گزشتہ سولہ سال کے دوران ملنے والا کوئی تحفہ بھی توشہ خانے میں جمع نہیں کروایا۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved