اگر ہم ایک نارمل ملک کی طرح ہوتے تو ہمارے حکمرانوں ‘ سیاسی اشرافیہ اور میڈیا کے پیش نظر اس وقت شاید دو خبریں سب سے اہم ہوتیں۔ اول ‘ مسلسل کوششوں کے باوجود پاکستان کی آئی ایم ایف سے ڈیل نہیں ہو پا رہی جس سے ملک پر ڈیفالٹ کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ دوئم ‘ ہفتہ وار مہنگائی کی شرح 45 فیصد کے انڈیکس کو عبور کرچکی ہے جس سے غریب جو پہلے دو وقت کا کھانا کھالیتا تھا اب ایک وقت کی روٹی کھانے پر مجبور ہے۔ غریب لوگ اس قدر مجبور ہوچکے ہیں کہ وہ اپنے دودھ پیتے بچوں کو بھی روٹی کھلانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہ ان کو دودھ خرید کر پلانا افورڈ نہیں کرسکتے‘ لیکن کیونکہ ہم فہم و فراست کے معاملے میں باقی دنیا سے کافی مختلف ہیں اس لئے ہماری سوچ کے زاویے بھی کہیں اور جا پڑتے ہیں۔ ہم آزادی حاصل کرنے کے 75 برس بعد بھی یہ طے نہیں کرسکے کہ ہم نے آگے کیسے بڑھنا ہے ‘ اپنے مسائل کیسے حل کرنے ہیں۔
ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ مصیبت کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلیتے ہیں ‘ یا ادھر اُدھر دھیان بٹا کر غیر ضروری معاملات میں اُلجھ جاتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کا مسئلہ نمبر ون‘ سیاست کے نام پر اَنا کی جنگ بن چکا ہے ‘ جس سے ہماری معاشرت‘ معیشت اور قانون کی حکمرانی بری طرح متاثر ہورہی ہے ۔ اس وقت ہمارا نیوز سائیکل صرف عمران خان ‘ ان کے مقدمات اور ممکنہ گرفتار ی کے گرد گھوم رہا ہے۔ جب عدالتی احکامات کی روشنی میں عمران خان کو زمان پارک لاہور سے گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو سابق وزیراعظم نے پنجاب ‘ کے پی اور گلگت بلتستان کے کارکنوں کی مدد سے ایسی مزاحمت کی کہ ریاستی مشینری کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ یہ مناظر دنیا بھر کی سکرینز پر فلیش ہوئے اور ہماری ریاست کو بنانا ری پبلک کے نام سے پکارا جانے لگا۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق زمان پارک سے عمران خان کی گرفتاری کیلئے پولیس آپریشن کے دوران دو کروڑ سے زائد مالیت کی سرکاری املاک کو نقصان پہنچا۔ پی ٹی آئی اراکین کی جانب سے جلاؤ گھیراؤ کے واقعات کے نتیجے میں تین واٹر کینن ‘ تھانوں کی آٹھ گاڑیاں ‘ پی آر یو کی دو گاڑیاں اور ٹریفک وارڈنز کی آٹھ موٹر سائیکلیں‘ مال روڈ پر لگے جنگلے ‘ فینسی لائٹس اور درختوں کو جلایا گیا۔جلائے جانے والے واٹر کیننز کو ساڑھے 58 لاکھ کا نقصان ہوا‘جوگاڑیاں جلائی گئیں وہ ایک کروڑ 10 لاکھ مالیت کی تھیں ‘ ٹریفک پولیس کی جو موٹر سائیکلیں جلائی گئیں وہ 23 لاکھ روپے کی تھیں ‘ وائرلیس سیٹس اور کمیونی کیشن سسٹم کو 35 لاکھ کا نقصان پہنچا۔ سیف سٹی اتھارٹی کے 11 لاکھ کے کیمرے تباہ کردئیے گئے۔ کیا یہ سب کچھ کسی مہذب ملک میں ہوسکتا ہے؟
لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے عمران خان کو 9کیسز میں حفاظتی ضمانت مل چکی ہے اور عدالت عالیہ نے پولیس‘ ایف آئی اے اور نیب کو عمران خان کی گرفتاری سے تاحکم ثانی روک دیا‘ تاہم میری دانست میں عمران خان نے عدالتی وارنٹ گرفتاری کی مزاحمت کر کے یہی پیغام دیا کہ اگر آپ طاقتور ہیں تو قانون سے ماورا ہیں اور اگر کمزور ہیں تو پھر قانون نافذ کرنے والے ادارے آپ کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیں گے۔ دوسری جانب حکومتی رویہ دیکھیں تو اس پر بھی مایوسی ہوئی ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ کو حکومت کرتے ایک برس بیت گیا‘ نہ آپ ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کا کوئی قابلِ عمل پلان دے سکے‘ نہ آپ اپنے سیاسی مخالفین کے سیاسی بیانیے کا توڑ کر سکے اور نہ ہی آپ کو سمجھ آرہی ہے کہ الیکشن بروقت کروانے ہیں یا نہیں۔ مریم نواز فرماتی ہیں کہ جب ہماری حکومت آئے گی تو ملک کو مسائل سے نکالیں گے ‘ تو بات یہ ہے کہ آپ کے چچا وزیراعظم ہیں ‘ آپ کی بہن کے سسر ملک کے وزیرخزانہ ہیں ‘ رانا ثنا اللہ وزیرداخلہ ہیں ‘ خواجہ آصف وزیر دفاع ہیں‘ پنجاب میں نگران حکومت کے ہوتے ہوئے بھی ایڈمنسٹریشن آپ کی پسندیدہ اور مرضی کی لگائی جانے کے الزامات ہیں تو پھر آپ کیسے کہہ سکتی ہیں کہ یہ حکومت آپ کی نہیں؟ مسئلہ صر ف یہ ہے کہ اس وقت آپ کی ضد عمران خان کی گرفتاری اور ان کو کسی طرح نااہل کروانا ہے۔ پوری حکومت کا فوکس اسی پر ہے ۔ 86 افراد کی کابینہ نے ملک کو مسائل سے کیسے نکالنا ہے‘ اس پر کسی کی توجہ نہیں۔گزشتہ روز عمران خان جب پیشی پر اسلام آباد روانہ ہوئے ‘ اس سے قبل ایک بہتر ماحول بننے کی امید پیدا ہو رہی تھی کیونکہ گزشتہ دو روز میں وزیراعظم شہباز شریف اور عمران خان‘ دونوں نے بات چیت کا عندیہ دیا تھا‘ اس سے امید کی کرن پیدا ہوئی کہ شاید اب بات آگے بڑھے گی لیکن چیئرمین پی ٹی آئی ابھی اسلام آباد کے راستے ہی میں تھے کہ پنجاب پولیس نے ان کے گھر پر ہلہ بول دیا جہاں ان کی اہلیہ بھی موجود تھیں ۔اس طرح بہتری کا جو ماحول پیدا ہوسکتا تھا ‘ اس قسم کے اقدامات سے اس کا امکان بھی ختم ہو گیا۔ چاہے لاہور ہائیکورٹ نے پولیس کو یہ اجازت دی تھی کہ وہ زمان پارک میں عمران خان کے گھر کی تلاشی لے سکتی ہے اور شواہد اکٹھے کرسکتی ہے لیکن اس مقصد کے لیے پولیس کو پی ٹی آئی سے کوارڈینیٹ کرنے کی ہدایت بھی کی گئی تھی۔ اس ضمن میں پولیس نے دوسرا راستہ اختیارکیا اور اپنے ساتھ کئے گئے سلوک کا بدلہ عمران خان کی رہائش گاہ کے گیٹ توڑ کر لینے کی کوشش کی ۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس سرچ وارنٹ تھا‘ لیڈیز پولیس تھی لیکن پھر بھی مزاحمت کی گئی اور انہیں رہائش گاہ میں داخل ہونے سے روکا گیا جس پر ان کی جانب سے یہ قدم اٹھا یا گیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اب ہر کسی کا اپنا اپنا سچ ہے ‘ یہ پتہ چلانا مشکل تر ہوچکا ہے کہ کون ٹھیک ہے اور کون غلط۔
دوسری جانب مریم نواز مسلسل پی ٹی آئی کو دہشت گرد قرار دے رہی ہیں اور ان پر پابندی کی باتیں کئے جارہی ہیں ‘ اس سے ماحول مزید پراگندہ ہورہا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اس تمام صورتحال میں پاکستان مزید عدم استحکام کا شکار ہورہا ہے۔ پی ڈی ایم ہو یا پی ٹی آئی سب جانتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ ملک کو آگے بڑھانے کے لیے سب کو اکٹھے بیٹھنا ہوگا‘ کچھ بنیادی باتوں پر اتفاق کرنا ہوگا لیکن کوئی فریق بھی اس حوالے سے عملی قدم اٹھانے کو تیار نہیں۔ جب قومی مفاد بھی ذاتی مفاد اور اَنا کے تابع ہوجائیں تو پھر مقدر میں تباہی ہی رہ جاتی ہے ‘ جس کا ہمیں سامنا ہے اور یہ تھمتی نظر نہیں آرہی‘ اور اس کی قصور وار تمام سیاسی جماعتیں اور ادارے ہوں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved