تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     15-09-2013

جنرل کیانی کا مستقبل

سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے دمِ رخصت یہ کہا تھا ’’فزت برب الکعبہ‘‘ رب کعبہ کی قسم‘ اب میں کامران ٹھہرا۔ کمیں گاہوں سے لوگ نکلے ہیں اور جنرل کیانی کو گالی دے رہے ہیں۔ شاید ابھی اور بھی دشنام سے انہیں واسطہ پڑے۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے کہ ہر صاحبِ نعمت سے حسد کیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ جس سے حسد کیا جائے‘ نعمت میں‘ اس کے لیے اضافہ کردیا جاتا ہے۔ تنقید کا تعلق آدمی کی اچھائی برائی سے ہوتا ضرور ہے لیکن درحقیقت اس پر کہ حیاتِ اجتماعی میں اس کا کردار کتنا اہم ہے! متعصب لوگ اگر جنرل کی کردار کشی کریں تو اس میں تعجب کیا! نگاہ عدل سے دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ان کا کردار مثبت رہا یا منفی۔ جنرل میں خامیاں اور کمزوریاں ہیں۔ گاہے وہ ناکام بھی رہے مگر باخبر لوگوں کی عظیم اکثریت متفق ہے کہ وہ مثبت اندازِ فکر کے آدمی ہیں۔ خطرناک مرحلوں میں اپنا کردار انہوں نے دیانت اور خلوص سے ادا کیا۔ مشاہد حسین حال ہی میں کابل سے لوٹ کر آئے ہیں۔ انہوں نے بتایا: افغانستان کے وزیر دفاع جنرل بسم اللہ خان نے‘ ان سے کہا: جنرل ایک سنجیدہ آدمی ہے اور صاحبِ اخلاص بھی۔ دس بارہ ملاقاتیں ہوئیں اور میں نے پایا کہ وہ پاکستان اور افغانستان میں امن کا آرزو مند ہے۔ جنرل مائیکل ملن اور جنرل پیٹریاس نے امریکی کانگرس میں باضابطہ گواہی دی تھی کہ وعدہ کرنے میں وہ تامل کرتے ہیں لیکن کر لیں تو پورا کرتے ہیں۔ 2010ء میں توسیع کے لیے وزیراعظم گیلانی نے پہل کی۔ ابتدا میں صدر زرداری نے سخت مزاحمت کی۔ ایک ملاقات میں وزیراعظم نے مجھے بتایا کہ اوّل خود جنرل کیانی نے انکار کردیا تھا۔ بعد میں جنرل عبدالوحید کاکڑ اور دوسرے خیرخواہوں کے مشورے پر وہ آمادہ ہو گئے۔ امریکیوں کا اس فیصلے میں ہرگز کوئی کردار نہ تھا۔ انہیں تو صدمہ ہوا‘ جب جنرل کیانی نے سات ماہ تک نیٹو افواج کی سپلائی روکے رکھی۔ ہالبروک کے ساتھ ایک بار انہوں نے ملاقات سے انکار کردیا تھا‘ جس کے بعد ان کا رویّہ بہتر ہوگیا۔ پیٹریاس سے جنرل کیانی زیادہ بحث نہ کرتے۔ اس تَندخو آدمی کی بات نہ مانتے اور ملاقات کے آخر میں اکثر یہ کہنے پر اکتفا کرتے \"Sir\' i don\'t agree\" ۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کا سب سے روشن پہلو یہ ہے کہ بدترین حالات میں انہوں نے سیاست میں فوج کا کردار کم کرنے کی کوشش کی۔ حکومت بدعنوان‘ ناتجربہ کار اور نامقبول تھی۔ مارشل لاء کا نفاذ ممکن تھا۔ اکثریت خیر مقدم کرتی۔ اگر یہ نہیں تو جوڑ توڑ سے اس کا تختہ الٹا جا سکتا تھا۔ ٹیکنوکریٹس کی حکومت کا تصور مہینوں زیرِ بحث رہا اور فیصلہ سازوں میں سے بعض اس کی طرف مائل بھی ہوئے۔ جنرل نے مگر صبر کا دامن سختی سے تھامے رکھا۔ بجا کہ عدالت کے علاوہ فعال طبقات بھی فوجی مداخلت کی مزاحمت کرتے مگر جنرل نے جمہوریت سے وفا کی۔ میں ایک بار پھر سینیٹر مشاہد حسین کی رائے نقل کرتا ہوں ’’ستر فیصد داد کے مستحق تو وہی ہیں‘‘۔ ذوالفقار مرزا کا کہنا یہ تھا کہ جمہوریت قائم ہی انہی کے بل پر ہے۔ سوات آپریشن ایک بڑا ہی مشکل مرحلہ تھا۔ اس زمانے میں بعض اخبار نویسوں کے ساتھ‘ میں بھی ان سے ملتا رہا۔ اوّل اوّل وہ تذبذب کا شکار تھے۔ پوری طرح پُریقین بہرحال نہیں لیکن جب بحث شروع ہوئی تو نہ صرف وہ خود یکسو ہو گئے بلکہ بیس کے بیس اخبار نویس اور دانشور بھی۔ قدرت پاکستانی قوم اور اُن پر مہربان تھی۔ سوات میں سمجھوتے کے باوجود‘ جب صوفی محمد نے آئین اور جمہوریت کے خلاف زہر اُگلا تو کارروائی کے لیے فضا سازگار ہو گئی۔ پھر وزیرستان میں بھی‘ جس کے بعد خودکش حملوں میں 80 فیصد کمی آئی۔ کیا اب کی بار بھی ایسا ہی ہوگا؟ یہ طالبان پہ منحصر ہے۔ اس پر بھی کہ سول حکومت اور رائے عامہ کس قدر تائید فراہم کرتی ہے۔ جنرل بہرحال مذاکرات میں مخلص ہے۔ کل جماعتی کانفرنس میں صاف صاف اس نے کہہ دیا کہ ہماری کوئی پالیسی نہیں‘ پالیسی حکومت کی ہے‘ ہم اس پر عمل درآمد کریں گے۔ ایک ملاقات میں مجھ سے انہوں نے یہ کہا ’’طالبان سے مذاکرات اگر کامیاب رہے تو جس شخص کو سب سے زیادہ خوشی ہوگی‘ وہ میں ہوں‘‘… نہایت ہی قابلِ اعتماد عسکری ذرائع کو ہمیشہ اصرار رہا کہ فوجی قیادت زرداری حکومت سے بھی قومی سلامتی پالیسی تشکیل دینے کی درخواست کرتی رہی۔ ایوانِ صدر سے جواب آتا کہ آپ لکھ کر بھیج دیجیے‘ ہم اس پر دستخط کردیں گے۔ وزیراعظم نوازشریف نے سول حکومت کا کردار غالب رکھنے کا فیصلہ کیا ہے تو باقیوں کی طرح فوج نے بھی خیرمقدم کیا۔ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ یاد رکھا جائے کہ کمزوریوں ہی سے خلا پیدا ہوتا اور وردی والے دخل دیتے ہیں۔ امریکہ سمیت‘ جہاں پینٹاگان اور سی آئی اے کی آرا ‘گاہے زیادہ موثر ہوتی ہیں‘ دنیا بھر میں فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے مشورے سے بنیادی فیصلے کیے جاتے ہیں۔ پاکستان زیادہ خطرات میں گھرا ہے؛ چنانچہ مشاورت مسلسل ہونی چاہیے‘ جیسی کہ اب ہو رہی ہے‘ مگر عوام نے آخری ذمہ داری وزیراعظم‘ کابینہ اور پارلیمان کو سونپی ہے۔ جنرل کیانی سپہ سالار بنے تو عرض کیا تھا: دیکھنے میں وہ ڈھیلے ڈھالے نظر آتے ہیں مگر ہیں نہیں… میں جانتا تھا۔ میرے ایک کزن ان کے ہم جماعت تھے اور ان کے کئی دوستوں سے شناسائی۔ جنرل ایک بہت ہی غورو فکر کرنے والا آدمی ہے۔ بہت سادہ مگر ذہین۔ کبھی زیادہ سوچتا ہے مگر فیصلہ کر لے تو ڈٹ جاتا ہے۔ گھبرانے والا وہ نہیں۔ ممبئی حادثے کے بعد صدر زرداری یہ سمجھے کہ بھارت حملہ کر دے گا مگر جنرل نے انہیں بتایا کہ ایسا نہ ہوگا۔ سپریم کمانڈر اور چار وزرائے اعظم سمیت‘ برسوں سے کسی لیڈر کو جنگ زدہ علاقوں میں جانے کی ہمت نہ ہو سکی۔ جنرل کیانی بار بار گئے۔ صوبوں کو انہوں نے پولیس کی تربیت میں معاونت کی اور اسلحہ مہیا کیا۔ یہ ان کی ذمہ داری نہ تھی۔ نظام میں مداخلت کیے بغیر‘ کئی بار کراچی میں قیامِ ا من کے لیے مدد کی۔ بلوچستان میں فوجی بھرتی کی شرائط نرم کر کے طویل المیعاد مثبت تبدلیوں کی بنیاد رکھ دی۔ ایبٹ آباد کے سانحے میں البتہ بہتر گھنٹے کی تاخیر سے وہ بروئے کار آئے کہ صدمے کا شکار تھے۔ صدر زرداری اور وزیراعظم گیلانی نے داد سمیٹنے کی کوشش کی مگر جنرل نے واضح کردیا کہ پاکستان کی توہین ہوئی ہے۔ جنرل مائیکل ملن کو فوراً فون کر کے یہ بھی کہہ دیا کہ اس طرح کا ایک واقعہ اور ہوا تو پاک امریکہ تعلقات ہوا میں معلق ہو جائیں گے۔ تجاویز بہت سی ہیں۔ اندازہ یہ ہے کہ واشنگٹن میں سفیر بننے سے وہ انکار کردیں گے۔ قومی سلامتی کا مشیر بھی انہیں نہ بننا چاہیے‘ یہ ان کے مقام سے فروتر ہے۔ رہی ایک اور توسیع‘ تو تمام اندازے یہ ہیں کہ قوم اس کا خیر مقدم نہ کرے گی۔ جنرل صاحب یہ کہتے ہیں کہ وہ اب فراغت چاہتے ہیں۔ اکتوبر میں باسٹھ برس کی عمر کو پہنچنے والا جنرل مگر صحت مند آدمی ہے۔ اگست میں سخت ورزش سے انہوں نے اپنا وزن نو پائونڈ کم کیا۔ ایسا آدمی ملازمت سے سبکدوش ہو سکتا ہے مگر کارِ حیات سے نہیں۔ وہ پسند کریں تو اپنی یادداشتیں لکھ سکتے ہیں‘ دنیا بھر میں انہیں معاوضے پر لیکچر دینے کے لیے مدعو کیا جا سکتا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے موجودہ مسائل کو وہ کسی بھی فوجی اور سیاسی لیڈر سے زیادہ سمجھتے ہیں۔ 2014ء میں امریکی فوج کی واپسی کے بعد ممکنہ خدشات پر ابھی سے غورو فکر جاری ہے۔ سول حکومت سوچتی ہے کہ تب اسے جہاندیدہ مدبر کی ضرورت ہوگی۔ کیا یہ لازم ہے کہ ایسی ممکنہ مشاورت سرکاری اور رسمی ہی ٹھہرے‘ غیر رسمی کیوں نہیں۔ موضوع تفصیل کا متقاضی ہے اور ورق محدود۔ مختصر یہ کہ اکثریت اس آدمی کو مثبت اور مہذب پاتی ہے۔ دیانت دار اور دانا بھی۔ کسی لیڈر پہ حتمی فیصلہ مگر اس کا عہد تمام ہونے پر کیا جاتا ہے۔ سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے دمِ رخصت یہ کہا تھا ’’فزت برب الکعبہ‘‘ رب کعبہ کی قسم‘ اب میں کامران ٹھہرا۔ پس تحریر: کل مجھ سے غلطی ہو گئی جنرل عبدالقیوم نہیں بلکہ جنرل جاوید پچھلے برس سٹیل مل کے چیئرمین مقرر ہوئے تھے۔ جنرل قیوم کی اہلیت کے بارے میں تو بہت سے تحفظات پائے جاتے ہیں۔ یہ جنرل جاوید ہی تھے جن کے دور میں سٹیل مل نے ریکارڈ منافع حاصل کیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved