آنسو گیس‘ شیلنگ‘ ڈنڈے‘ لاٹھیاں‘ واٹر کینن‘ پتھراؤ‘ تشدد‘ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا جلاؤ گھیراؤ‘ ٹائروں کو آگ لگا نا‘ یہ سب کچھ ہم برسوں سے دیکھتے چلے آئے ہیں۔ اپوزیشن جب حکومت اور حکومت جب اپوزیشن میں آتی ہے تو انتقامی سیاست کا ایک ایسا دور شروع ہوتا ہے جس میں یہ تمام مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اب تو ایسا لگتا کہ ہماری بطور قوم تشکیل ہی صرف ہنگامے اور احتجاج دیکھنے کے لیے ہوئی ہے۔ پہلے مارچ میں بسنت جیسا رنگا رنگ تہوار ہوتا تھا‘ اب صرف احتجاج ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے عوام کی زندگی مشکل ہو چکی ہے۔ آئے روز حکومت کی طرف سے مخالف سیاسی جماعت یا کسی فردِ خاص کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اکثر و بیشتر عام آدمی ہی اس سیاسی پکڑ دھکڑ کا نشانہ بنتا ہے۔ پھر پکڑنے والو کی مرضی وہ جو چاہے کریں۔ اُس ایک شخص یا جماعت کے بارے میں پکڑنے والے ہی یہ طے کر تے ہیں کہ اُسے اب نشانِ عبرت بنانا ہے یا چھوڑنا ہے۔ اگر یہ طے کر لیا جائے کہ نشانِ عبرت بنانا ہے تو پھر اس مقصد کے حصول کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کو غدار اور کرپٹ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے ستارے گردش میں ہوں تو وہ پھانسی پر بھی چڑھا دیا جاتا ہے اور جو خوش قسمت ہوتا ہے وہ ڈیل کرکے باہر چلا جاتا ہے۔ پر یہ زیر حراست شخص پر منحصر ہے کہ وہ ڈیل کرکے راہِ فرار اختیار کرتا ہے یا ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے اور پہلے جیل کی صعوبتیں برداشت کرتا ہے اور پھر پھانسی چڑھ جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف کی صورت میں یہ دونوں مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ یہ تو افکارِ بہادری پر منحصر ہے۔ پر میں کسی کی پھانسی کی خواہاں نہیں ہوں‘ ڈیل کرنے والے اپنی زندگی کو لے کر سمجھ دار ہوتا ہے اور پھانسی چڑھنے والا اپنے افکار پر کھڑا رہتا ہے۔ پر جو اس سب صورتحال کے درمیان میں پھنس جاتے ہیں‘ وہ زیادہ مصائب میں گھر جاتے ہیں۔ اس ملک میں مخالفین پر بھینس چوری سے لے کر بغاوت کے مقدمے درج ہوتے رہے ہیں۔ پھر ان کی زندگی کا ایک بڑا حصہ اپنے خلاف یہ مقدمات ختم کروانے میں ہی گزر گیا۔ اگر عام انسان ہے تو اکیلے جوتیاں چٹخانے میں عمر گزر جاتی ہے‘ اگر کوئی سیاسی لیڈر ہے تو پھر عوام کا سہارا مل جاتا ہے۔
عوام کی طاقت اپنے پسندیدہ لیڈر کے آگے ڈھال بن جاتی ہے۔ اب یہ لیڈر پرمنحصر ہے کہ وہ یورپ میں پُرتعیش زندگی بسر کرنا چاہتا ہے یا وہ عوام کے ساتھ مل کر جہدوجہد کرنے کا خواہاں ہے۔ تاہم اس نظام میں جو جال بُنے جاتے ہیں‘ ان سے نکلنا آسان نہیں ہوتا۔ کبھی کوئی ایک فیصلہ تو کبھی کوئی ایک جملہ یا تحریر انسان کے گلے کا طوق بن جاتی ہے۔ اسے یہ کہہ کر چپ کروا دیا جاتا ہے کہ تم باغی ہو اور بغاوت کے خواہاں ہو۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ آخر کب تک عوام کو خاموش کروا دینے والے قوانین ہمارے ہاں موجودرہیں گے۔ کب تک ان کو مخالفین کے خلاف استعمال کرکے ان کا استحصال کیا جاتا رہے گا۔ آزاد ملک بنانے کا یہی مقصد تھا کہ یہاں کے باسیوں کو لکھنے‘ بولنے اور پڑھنے کی آزادی حاصل ہو لیکن یہاں تو سوچنے کی آزادی پر پابندی لگائی جارہی ہے۔ ہم کروڑوں لوگوں کی زبان اور سوچ پر تالے نہیں لگا سکتے۔ ہر شخص اپنی سوچ اور پسند و ناپسند کے اظہار میں آزاد ہے۔ ہمارا سیاسی نظام بھی تقسیم کا شکار ہے۔ سب کا اپنا اپنا نظریہ ہے۔ سیاستدانوں کو ایک دوسرے اور ایک دوسرے کے ووٹ بینک کا احترام کرنا چاہیے۔
ہمارے سیاسی نظام میں مگر ایسا کچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ سیاسی کارکنان اور سیاسی لیڈران ایک دوسرے سے باہم دست و گربیان ہیں۔ ہر روز ایک دوسرے پر لفظی حملے ہورہے ہیں‘ کردارکشی ہورہی ہے۔ کوئی کسی کو چور کہہ رہا ہے تو کوئی کسی کو فتنہ۔ اقتدار کی خاطر اس سیاسی رسہ کشی اور بدتہذیبی کا نئی نسل پر کیا اثر پڑ رہا ہوگا۔ دیکھا دیکھی نئی نسل بھی پھر ایک دوسرے کو ایسے القابات دی گی۔ مجھے لگتا ہے کہ جس دن اس ملک میں سیاست دان متحد ہوگئے‘ اس دن یہاں کے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ پر ایسا ہونے کا امکان نظر نہیں آرہا۔ پہلے پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) باہم لڑتی جھگڑتی رہیں‘ جس سے غیر جمہوری قوتیں فائدہ اٹھاتی رہیں اور اب یہ دونوں جماعتیں دیگر گیارہ جماعتوں کے ساتھ مل کر تحریک انصاف سے لڑ رہی ہیں۔جب تک قائدین ایک دوسرے کے ووٹ بینک کا احترام نہیں کریں گے‘ یہ لڑائی جھگڑے ختم نہیں ہوں گے۔ جب بھی کوئی جماعت احتجاج کرتی ہے‘ سب سے زیادہ اُس جماعت کے عام کارکنان ہی تشدد کا نشانہ بنائے جاتے ہیں جبکہ جماعت کے سرکردہ رہنما گھروں میں چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ جوابی حملوں سے پولیس والے بھی زخمی ہوتے ہیں۔ شیلنگ پولیس کی طرف سے ہوتی ہے لیکن جی دار مظاہرین شیل اٹھا کر واپس پولیس کی طرف پھینک دیتے ہیں۔ یوں دونوں اطراف کے لوگ اس آنسو گیس سے متاثر ہوتے ہیں۔ واٹر کینن میں نجانے کیا محلول ملا ہوتا ہے کہ جس پر یہ پانی گرتا ہے‘ وہ عجیب سی جلن سے تڑپ اٹھتا ہے۔ لاٹھی چارچ‘ ربڑ کی گولیاں مزید اشتعال کا باعث بنتی ہیں۔ بات پتھراؤ تک چلی جاتی ہے اور اگر حالات زیادہ خراب ہوں تو گولیاں تک چل جاتی ہیں جس میں سب سے زیادہ نقصان عوام اور ریاست کا ہی ہوتا ہے۔
مجھے بہت افسوس ہوتا ہے‘ خون چاہے پولیس کا ہو یا عوام کا‘ ہیں تو سب پاکستانی ہی۔ درد ہوتا ہے جب ہم وطنوں کو خون میں لت پت دیکھتی ہوں۔ اب تو آئے روز ایسے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ شہروں کے شہر بند ہو جاتے ہیں۔ جی ٹی روڈ اور موٹر ویز بند کر دی جاتی ہیں۔ گاڑیوں اور دیگر املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ ان مظاہروں کی وجہ سے دیہاڑی دار طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ جب احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوں گی تو دیہاڑی دار کو کوئی کیوں پوچھے گا۔ احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے سڑکیں بند ہونے سے لوگ گھنٹوں ٹریفک جام میں پھنسے رہتے ہیں۔ پر کوئی شنوائی نہیں۔ اس قدر افراتفری کے حالات میں لوگ کوئی کام نہیں کر پاتے۔ یہ کیسا طرزِ عمل ہے کہ جس کا جب دل چاہا‘ ملک بند کروا دیا اور سارا نظامِ زندگی مفلوج کردیا۔ رہی سہی کسر پولیس پوری کردیتی ہے۔ پولیس کا تشدد احتجاجی کارکنان کو مزید مشتعل کرتا ہے۔ پولیس فورس کو بھی ایسے ہنگامی حالات سے پرامن طریقے سے نمٹنے کی تربیت دینا ہوگی۔ ہر فرد اور سیاسی جماعت کو آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے احتجاج کا حق حاصل ہے۔ چاہے اسکا تعلق پی پی پی سے ہو مسلم لیگ (ن) سے یا تحریک انصاف سے۔ سیاسی شخصیات اور کارکنان آئینی حدود میں رہتے ہوئے آزادیٔ اظہار کا مکمل حق محفوظ رکھتے ہیں۔ اس وقت جو پی ٹی آئی کے کارکنان کے ساتھ ہورہا ہے‘ وہ بہت افسوسناک ہے۔ حتیٰ کہ تحریک انصاف کی خواتین کارکنان کا بھی کوئی لحاظ نہیں کیا جا رہا۔ مردوں کی لڑائیوں میں کم از کم عورتوں اور بچوں کو تو معاف کردیں۔ ماڈل ٹاون سے زمان پارک تک بہنیں بیٹیاں سانجھی ہیں‘ ان کا احترام کریں۔
ملک جس نہج پر پہنچ چکا ہے ‘ لازم ہے کہ سیاست دان ایک دوسرے کو نشانہ بنانا بند کریں۔ اس ملک کی خاطر ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالیں۔ ملک اس وقت معاشی طور پر تباہی کے دہانے پر آگیا ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت معاشی مقابلے جاری ہیں اور ملکِ عزیز میں سیاسی کھینچا تانی عروج پر ہے‘ سیاسی مخالفین کے گھروں میں گھس کر باورچی خانے چیک کیے جارہے ہیں۔ ہمیں ایک مکمل جمہوری ملک بننے میں مزید کتنا وقت درکار ہے‘ ہم کب ووٹ کا احترام کرنے والی قوم بنیں گے۔ سیاسی مخالفین اور کارکنان پر تشدد کا سلسلہ اب بند ہو جانا چاہیے کیونکہ ایک لاٹھی‘ ایک شیل اور واٹر کینن کی ایک دھارکسی کی جان بھی لے سکتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved