میڈیا نے انسان کو کتنا بگاڑا اور کتنا سنوارا ہے‘ اس بحث سے قطع نظر یہ حقیقت تسلیم کرنا ہی پڑے گی کہ آج کا انسان میڈیا ہی کی بدولت اپنے آپ سے واقف ہونے کی راہ پر گامزن ہوا ہے۔ انسان کی ایک بنیادی خاصیت یہ رہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بھول کر پورے ماحول میں گم رہتا ہے۔ اس موضوع پر واکر پرسی کی کتاب ''لوسٹ ان دی کاسموس‘‘ لاجواب ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے اس تلخ حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہم ہر چیز کے بارے میں فکر مند ہوتے ہیں‘ بس اپنے وجود ہی کو نظر انداز کر بیٹھتے ہیں اور ساری خرابیاں اسی رجحان سے پیدا ہوتی ہیں۔ واکر پرسی کا استدلال یہ ہے کہ ہم اپنے حالات سے کبھی خوش نہیں ہوتے اور کچھ اور بننا یا پانا چاہتے ہیں۔ سکرین پلے رائٹرز انسان کی اس نفسی کمزوری کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسی فلمیں اور ڈرامے لکھتے ہیں جن کے ذریعے ناظرین کو کسی اور ہی (خیالی) دنیا میں جانے اور اپنے لیے ایک الگ‘ انوکھا کردار مختص کرنے کا موقع ملتا ہے۔
ایک تلخ اور افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ سبھی جی رہے ہیں مگر جینے کا شدید احساس کم ہی لوگوں کو ہے۔ ہم اپنے وجود کو بہت ہلکا لیتے ہیں۔ لگے بندھے معمولات کے ساتھ جیے جانے کو زندگی سمجھ کر سوچا جاتا ہے کہ جینے کا حق ادا ہوگیا۔ یہ تاثر‘ احساس یا سوچ کسی بھی پہلو سے درست نہیں۔ پورے شعور کے ساتھ زندہ رہنا ہی زندگی ہے۔ انسان کو اپنے وجود کا بھرپور احساس ہونا چاہیے۔ اپنے وجود کو نظر انداز کرنے کی صورت میں دنیا سے مطابقت پیدا کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ ہر انسان کو جینے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے اور کرنا ہی چاہیے۔ زندگی کا معاشی پہلو اس قدر اہم ہے کہ اسے نظر انداز کرنے کی صورت میں صرف خرابیاں رہ جاتی ہیں۔ زندہ رہنے کیلئے جو کچھ کرنا لازم ہے‘ وہ اگر بے شعوری کی حالت میں کیا جائے تو معاملات کو درست کرنے میں خاص مدد نہیں ملتی۔ معاشی سرگرمیاں اگر شعور کے ساتھ ہوں‘ متوازن ہوں تو ایسے میں انسان بامقصد اور بامعنی زندگی بسر کرنے کے قابل ہو پاتا ہے۔
پاکستان جیسے پسماندہ معاشروں کو معاشی رجحانات کے حوالے سے نئی سوچ اپنانی ہے‘ ثابت کرنا ہے کہ زندگی کو سنجیدگی سے لینے کی لگن پیدا ہو رہی ہے۔ دنیا بھر میں بہت کچھ بدل رہا ہے۔ یہ سب کچھ دوسرے خطوں کو بھی بدل رہا ہے۔ آج کی دنیا میڈیا اور سوشل میڈیا کی بدولت اس قدر جڑی ہوئی ہے کہ اب کوئی بھی انسان یا ملک جزیرہ نہیں یعنی الگ تھلگ رہتے ہوئے نہیں جی سکتا۔ تبدیلیوں سے ہم آہنگ رہنا ہی پڑتا ہے۔ ایسا نہ کیا جائے تو انسان پیچھے رہ جاتا ہے۔
دنیا بھر میں کام کے طریقے بدلتے جارہے ہیں۔ نائن ٹو فائیو یا لگی بندھی جابز کا زمانہ رخصت ہو رہا ہے۔ کسی دکان‘ دفتر یا فیکٹری میں بیس تیس سال کام کرنے کی روایت تیزی سے دم توڑتی جارہی ہے۔ جو شخص کسی جگہ دس پندرہ سال گزارے اس کے بارے میں یہ تاثر عام ہو جاتا ہے کہ اسے کوئی پوچھتا نہیں۔ اب اگر کوئی اپنے آپ کو واقعی قابل ثابت کرنا چاہتا ہے تو لازم ہے کہ سال ڈیڑھ سال میں ادارہ بدلے اور زیادہ سے زیادہ اداروں کو اپنی خدمات سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کرے۔ بینکنگ‘ میڈیا‘ آئی ٹی اور چند دوسرے شعبوں میں انہیں رشک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جو زیادہ اداروں میں کام کریں۔ کیا ہمارے ہاں کام کے بدلتے ہوئے ماحول کے حوالے سے سوچا جارہا ہے؟ افسوس کہ ایسا نہیں ہو رہا۔ عمومی ذہنیت اب بھی یہ ہے کہ جاب حاصل کی جائے اور اسے دانتوں سے پکڑ کر رکھا جائے۔ اگر جاب اچھی ہو تو اسے دانتوں سے پکڑ کر کام کرتے رہنے میں کچھ ہرج نہیں لیکن اگر کچھ زیادہ نہ مل رہا ہو تو ڈرتے ڈرتے کام کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ جاب ہاتھ سے جاتے رہنے کا خوف انسان کو تجربے کرنے سے روکتا ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ جاب سلامت رکھنے کے لیے کئی معاملات میں اصولوں پر سمجھوتا کر لیتے ہیں۔ زیادہ وقت بھی دیتے ہیں‘ کم اجرت بھی قبول کرتے ہیں اور باتیں بھی سنتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ کام کے حوالے سے سوچ بدلی جائے‘ دنیا بھر میں پائے جانے والے نئے رجحانات کو سمجھ کر قبول کیا جائے‘ برتا جائے۔ تیزی سے بدلتی ہوئی جاب مارکیٹ کو ذہن نشین رکھتے ہوئے اب نئی نسل کے لیے غیرمعمولی نوعیت کی راہ نمائی ناگزیر ہو چکی ہے۔ ہماری نئی نسل ملازمت کے تصور سے تھوڑی سی بِدکی ہوئی ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر میں کام کرنے کے مختلف نئے طریقوں کے بارے میں حاصل ہونے والی معلومات اسے کچھ نیا اور زیادہ کرنے کی تحریک دیتی ہیں۔
ہمارے ہاں اب ملازمت میں زیادہ کشش نہیں رہی۔ آجر بھی اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ کسی کو برسوں اپنے ساتھ رکھیں۔ وہ نیا ٹیلنٹ چاہتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے اداروں سے تیار ہو کر نکلنے والوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ مزید تعلیم و تربیت کے ذریعے اپنے آپ کو اَپ گریڈ کرنے میں سستی دکھانے والوں کو پسند نہیں کیا جاتا۔ ایک نیا اور خاصا قابلِ قدر رجحان سیلف ایمپلائمنٹ کا ہے یعنی ملازمت کے کھونٹے سے بندھے بغیر اپنی مرضی کے مطابق کام کرنا۔ روایتی طور پر ہمارے ہاں الیکٹریشین‘ پلمبر‘ معمار (مستری)‘ موٹر سائیکل مکینک اور کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے کے شعبے سے وابستہ افراد ایسا ہی کرتے آئے ہیں۔ اب یہ رجحان دفاتر اور ہائی فائی مہارتوں تک پہنچ گیا ہے۔ ایسا دنیا بھر میں ہوا ہے۔ مغربی معاشرے میں کروڑوں افراد سیلف ایمپلائمنٹ کے ذریعے اپنی مرضی کا کام اپنی مرضی کے ماحول میں کرتے ہیں۔
شخصی ارتقا کے ماہرین ہمیشہ اس نکتے پر زور دیتے رہے ہیں کہ شخصیت کو پروان چڑھانے کے لیے انسان کو اپنی پسند اور مرضی کے مطابق کام کرنا چاہیے۔ نئی نسل کو عملی زندگی کی ابتدا کرتے وقت بہت سے کام نہایت پرکشش دکھائی دے رہے ہوتے ہیں۔ بالعموم ایسے کام زیادہ دل کش لگتے ہیں جن میں یافت یعنی آمدن زیادہ ہو۔ سوال آمدن سے کہیں زیادہ اطمینانِ قلب کا ہے۔ انسان اگر اپنے مزاج اور رجحان سے ہٹ کر محض زیادہ پیسہ کمانے کے لیے کوئی کام کرے تو اپنی بھرپور صلاحیت اور لگن کو بروئے کار نہیں لا سکتا۔ نئی نسل کو یہ بات سمجھانے کی اشد ضرورت ہے کہ اسی شعبے میں آگے بڑھنے کا سوچے جس میں حقیقی دلچسپی ہو۔ انسان اگر اپنی مرضی کا کام کر رہا ہو تو زیادہ وقت خوش رہتا ہے۔ یوں وہ اپنی صلاحیت و سکت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کے قابل بھی ہو پاتا ہے۔
آج دنیا بھر میں جاب مارکیٹ خاصی متلون مزاج ہے۔ نوکری جتنی تیزی سے ملتی ہے‘ اتنی ہی تیزی سے چھوٹ بھی جاتی ہے۔ مزاج کا جو تلون کام کرنے والوں میں پایا جاتا ہے وہی کام لینے والوں یعنی آجروں میں بھی پایا جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیلف ایمپلائمنٹ کا رجحان دنیا بھر میں تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ پسماندہ معاشروں کے لوگ بھی اب نوکری کو ترجیح نہیں دیتے بلکہ اپنا پسندیدہ کام اپنی مرضی کے ماحول میں کرنے کو یقینی بناتے ہیں۔ کام کرنے کا یہ طریقہ کم خرچ اور بالا نشین والا معاملہ ہے۔ آجر بہت سے غیر ضروری اخراجات سے جان چھڑانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک میں بھی اب کام کرنے کے نئے طریقوں کے بارے میں زیادہ سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ جاب مارکیٹ نشیب و فراز کے مراحل سے گزرتی رہتی ہے۔ لاکھوں افراد محض اپنے ہاتھوں بے روزگار ہیں۔ بڑے شہروں میں بھی بہت سے لوگ محض اس لیے کچھ نہیں کر پاتے کہ اپنے آپ کو بدلتی ہوئی جاب مارکیٹ اور نئی معاشی اخلاقیات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔
ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ ہم اس دور میں جی رہے ہیں جس میں اپنی مرضی کا شعبہ آسانی سے منتخب کرکے پوری دل جمعی اور آزادی کے ساتھ کام کر سکتے ہیں۔ آج کے انسان کے پاس معاشی جدوجہد کے حوالے سے بہت سے آپشن ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے کی بھرپور گنجائش موجود ہے۔ ایسے حوصلہ افزا ماحول میں کوئی بدنصیب اور نادان ہی ہوگا جو اپنی مرضی یا پسند سے ہٹ کر کچھ کرے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved