ملک کے موجودہ بحران کے بارے میں اگر اس حقیقت سے انکار نا ممکن ہے کہ یہ کثیر جہتی(Multidimensional) ہے تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کی جڑیں بہت گہری ہیں اور اس کیلئے گزشتہ برس اپریل میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومتی تبدیلی پر ذمہ داری نہیں ڈالی جا سکتی کیونکہ پارلیمانی نظام میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کی تبدیلی عام اور جمہوری طریقہ ہے اور دنیا کے دیگر ممالک جہاں پارلیمانی طرزِ حکومت رائج ہے‘ اپوزیشن کو برسر اقتدار پارٹی کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے الگ کرنے کا آپشن حاصل ہے۔ پاکستان کے آئین میں بھی یہ طریقہ شامل ہے اس لئے 9 اپریل 2022ء کو اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد‘ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے برسر اقتدار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور اس کے اتحادیوں پر مشتمل حکومت کو اگر آئین میں دیئے گئے طریقے کے مطابق اقتدار سے الگ کیا ہے تو اس میں کوئی غیر قانونی اور غیر آئینی بات نہیں تھی بلکہ اس رات قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر نے ''سائفر‘‘ کی شکل میں نام نہاد بیرونی سازش‘جس کے وجود سے اب چیئرمین پی ٹی آئی اور سابق وزیر اعظم عمران خان خود انکار کر چکے ہیں‘ کا نام لے کر جس طرح سے تحریکِ اعدم اعتماد پر ووٹنگ سے انکار کیا‘ وزیر اعظم نے اپنے خلاف تحریک پیش ہونے کے باوجود صدر کو اسمبلیاں توڑنے اور عام انتخابات کا مشورہ دیا اور صدر نے وزیر اعظم کا مشورہ قبول کرتے ہوئے اسمبلیاں توڑنے اور عام انتخابات کا اعلان کیا‘ وہ غیر قانونی بلکہ آئین پر عمل درآمد کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف تھا۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے ایک رکن جج اس اقدام پر ان تینوں سٹیٹ فنکشنزیز کو آئین کی دفعہ 6 کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دے چکے ہیں۔ مگر اس وقت فوکس اس اہم ایشو پر نہیں بلکہ ملک کے لمحہ بہ لمحہ گمبھیر ہوتے ہوئے حالات پر ہے‘ جسے حکومت کنٹرول کرنے میں بے بس نظر آتی ہے۔
اس بحران کے پیچیدہ ہونے کی واحد وجہ یہ ہے کہ اس کی جڑیں بہت گہری ہیں اور اس کے کئی پہلو ہیں جن میں سے صرف ایک پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے نہ تو اس کا صحیح طور پر ادراک کیا جا سکتا ہے اور نہ اس کا تسلی بخش اور دیرپا حل تلاش کیا جا سکتا۔ ویسے تو پاکستان آزادی کے سفر کے آغاز سے ہی بحرانی کیفیت کا شکار رہا ہے لیکن 2014 ء میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی طرف سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کو حالیہ کچھ عرصے کے بحران کا نقطۂ آغاز قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس احتجاجی تحریک‘ جس میں عمران خان نے اگست 2014ء میں لاہور سے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کیا اور 126 دن کا دھرنا دیا تھا‘ وزیر اعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا تھا اور اس مطالبے کی بنیاد 2013ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر رکھی گئی تھی‘حالانکہ انتخابات کی نگرانی کرنے والے اداروں کی رپورٹس میں ان انتخابات کو 1988ء سے ہونے والے تمام انتخابات میں سب سے صاف‘ شفاف اور غیر جانبدار قرار دیا گیا تھا۔ عمران خان کے مطالبے پر سپریم کورٹ کے ایک جج کی صدارت میں قائم ہونے والے کمیشن نے بھی اس کی تصدیق کی اور کہا کہ اِکا دُکا بے ضابطگیوں اور پروسیجرل غلطیوں کے علاوہ انتخابات میں کہیں بھی ایسی وسیع دھاندلی کا ارتکاب نہیں کیا گیا جو اس کے نتائج پر اثر انداز ہو سکتی تھی۔
16 دسمبر 2014ء کو پشاور کے آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے حملے کی وجہ سے عمران خان کو اسلام آباد میں اپنا دھرنا ختم کرنا پڑا لیکن وہ نواز شریف کی حکومت کو گرانے کے لیے اپنی کوششوں سے پیچھے نہیں ہٹے۔ 2016ء میں پانامہ پیپرز کے انکشافات میں نواز شریف کے بیٹے حسین نواز کی ملکیت میں ایک آف شور کمپنی کے وجود کا بھی ذکر آیا جس کو بنیاد بناتے ہوئے عمران خان نے نواز شریف پر کرپشن کو چھپانے اور بیرونِ ملک سرمایہ منتقل کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا اور اس مطالبے کو منوانے کے لیے اسلام آباد میں ایک دفعہ پھر دھرنا دینے اور وفاقی دارالحکومت سمیت ملک کے دیگر بڑے شہروں خصوصاً پنجاب کے شہروں کی ناکہ بندی کے پروگرام کا اعلان کر دیا۔ عمران خان کے اس پروگرام پر عمل سے اگرچہ ملک میں سیاسی غیر یقینی‘ عدم استحکام اور معاشی نقصان ہوا‘جن میں چین کے صدر شی جن پنگ کے دورہ کا التوا اور اس کے نتیجے میں پاک چین اکنامک کاریڈور کے معاہدے پر دستخط میں ایک سال کی تاخیر بھی شامل ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے سے نواز شریف کو نہ صرف عہدے سے الگ کر دیا بلکہ عمر بھر کے لیے سیاست میں حصہ لینے سے بھی نااہل قرار دیا گیا اور اس کے ساتھ لندن میں فلیٹس کی ملکیت کو جائز اور قانونی ثابت کرنے میں ناکامی پر طویل مدت کی قید سنائی۔ اس کیس میں مریم نواز کو بھی سات سال کی قید سنائی گئی اور جیل میں ڈالا گیا۔نیب کے جج ارشد ملک کے انکشافات اور مریم نواز کے اسلام آباد ہائی کورٹ سے بری ہونے کے فیصلے سے ثابت ہوا کہ نواز شریف کو اس مقدمے میں قید کرنے اور سزا سنانے کاجواز نہ تھا۔
اقامہ پر عہدے سے معزولی اور تا حیات سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی کا فیصلہ شروع سے ہی متنازع چلا آ رہا ہے۔ اب سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور قمر جاوید باجوہ کے بیانات سے یہ حقیقت عیاں ہوتی نظر آ رہی ہے کہ یہ سب کچھ ایک گرینڈ ڈیزائن کے تحت کیا جا رہا تھا جس کا مقصد نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانا اور عمران خان کو مسندِ اقتدار پر بٹھانا تھا۔ 2018ء کے انتخابات سے پہلے پولیٹیکل انجینئرنگ اور انتخابی عمل کو مختلف طریقوں سے متاثر کرنے کی کوششیں اسی پلان کا حصہ تھیں۔ اس میں حصہ لینے والے تمام اہم کردار آہستہ آہستہ بے نقاب ہو رہے ہیں اور اس میں بھی اب کوئی شک نہیں رہا کہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ کس کو پہنچا۔
2018ء کے انتخابات کے نتائج پر متعدد حلقوں کی طرف سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا تھا اور انہیں تحفظات کی وجہ سے سابقہ حکومت کو سیاسی مخالفین کی جانب سے سلیکٹڈ کا خطاب دیا گیا تھا۔مولانا فضل الرحمن قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کرنے اور وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے حق میں تھے اسی لیے جب اس کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا امکان پیدا ہوا تو اپوزیشن نے اسے اپنا قانونی اور آئینی حق سمجھتے ہوئے استعمال کیا۔ ان واقعات کی روشنی میں صاف نظر آ رہا ہے کہ موجودہ بحران محض سابقہ حکومت کے خاتمہ کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کے ڈانڈے 2014ء سے ملتے ہیں اور یہ جمہوری حکومت کو پولیٹیکل انجینئرنگ کے ذریعے ہٹانے کا نتیجہ ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved