کالم کے آغاز میں ایک بات کی وضاحت کردوں کہ وزیراعظم نواز شریف ایک محب ِ وطن سیاست دان ہیںاور وہ پاکستان کو ایک عظیم ملک بنانا چاہتے ہیں؛ تاہم جیسے ہم مختلف سیاست دانوںکے افعال کی پرکھ کا حق رکھتے ہیں، بطور وزیر ِ اعظم نوازشریف کے مختلف فیصلے اور افعال بھی تنقید کی زد میں آ سکتے ہیں۔ اس وقت تھر کول کے حوالے سے ان کا فیصلہ خاصا پریشان کن ہے۔ اس ضمن کچھ باتیں آپ سے شیئر کرتی ہوں اور اگر کوئی صاحب ان کی تصدیق کرنا چاہیں تو ان کا ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیںہے کہ نواز شریف پاکستان میں توانائی کی کمی کے سنگین مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کی ترجیحات غلط دکھائی دیتی ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم ، جن کو جدید دور کا شاہ جہاں کہا جاسکتا ہے، بارہ ارب ڈالر کی لاگت سے نیا اسلام آباد تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے پاکستان ایک ایسے کم ظرف شخص کے طور پر طرزِ عمل کا مظاہر ہ کررہا ہے جس کے پاس دولت تو آ گئی ہو لیکن اسے خرچ کرنے کا سلیقہ نہ ہو اور وہ اُسے اندھا دھند اجاڑ دے۔ اب اگر یہ رقم ادھار لی گئی ہو تو پھر ایسا لگتا ہے کہ اُس شخص نے وہ رقم واپس نہ کرنے کا ارادہ کر رکھا ہو، تاہم اگرقرضہ آئی ایم ایف سے حاصل کیا گیا ہو تو پھر واپس نہ کرنے کی سہولت میسر نہیں ہوتی۔ حال ہی میں آئی ایم ایف سے 6.7 بلین ڈالر قرضہ لینے کے بعد نواز شریف ایسے برتائو کررہے ہیں جیسے اُن کی لاٹری نکل آئی ہو اور وہ ہر اُس چیز کو خرید لینا چاہتے ہیں جہاں تک ان کے تخیل کی رسائی ہے۔ قرض کی واپس کے لیے ہمیں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ جنہوں نے دیا ہے وہ واپس لینا اچھی طرح جانتے ہیں اور اس بات کا ہمیں بھی علم ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمیں بارہ ارب ڈالر کی لاگت سے ایک نیا دارالحکومت تعمیر کرنے کی ضرورت ہے؟ سچی بات یہ ہے کہ ملک کو توضرورت نہیںہے لیکن اگر اس منصوبے پر ہر قدم پر ’’کمائی ‘‘ کا راستہ کھل جائے تو اور بات ہے۔ اب یہ بات کوئی راز تو ہے ہی نہیں کہ ایسے عقربی منصوبوںمیں ’’حصہ‘‘ بہت دور تک جاتا ہے اور پھر lion\'s share کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے۔ کیا سپریم کورٹ کو اس معاملے کو نہیں دیکھنا چاہیے کیونکہ مالی معاملات کی شفافیت کے حوالے سے موجودہ حکومت کا دامن بھی مکمل طور پر صاف دکھائی نہیں دیتا۔ اس نے اپنے پسندیدہ افراد کو اعلیٰ ملازمتوں سے نوازتے ہوئے میرٹ کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری اور ان پر لگائے گئے بدعنوانی کے الزامات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ان معاملات کے غیر شفاف ہونے پر توجہ دی جائے جو اس ملک میں ہونے جا رہے ہیں۔ ان میںسے ایک تھر کول پراجیکٹ ہے۔ ملک کی ترقی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل یہ عظیم الشان منصوبہ اس وقت تک صرف اس لیے شروع نہیںکیا جاسکا کیونکہ موجودہ اور سابقہ حکومتیں کوئلے سے اپنے لیے چاندی چاہتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ منصوبہ 1991ء سے جمود کا شکار ہے۔ دراصل سندھ حکومت اور اسلام آباد کے درمیان اس بات پر تنائو رہا ہے کہ اس منصوبے کا حقیقی ’’مالک ‘‘ کون ہوگا۔ سترہ جون 2009 ء کو سندھ کی طرف سے یہ اعلان سامنے آیا کہ یہ معاملہ حتمی طور پر طے پا چکا ہے اور اب سندھ حکومت ہی اس منصوبے پر اپنی ملکیت رکھتی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی سربراہی میں ’’تھرکول انرجی بورڈ‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ زرداری صاحب نے اسے جام شورو یونیورسٹی کے حوالے کیا لیکن یونیورسٹی کے پاس اس منصوبے کے لیے درکار مہارت کا فقدان تھا۔ آسٹریلیا، جاپان، چین اور انڈیا سے تعلق رکھنے والے سرمایہ کاربہت دیر سے اس منصوبے پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ تھر کول کی کانیں پچانوے مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہیں اور ایک اندازے کے مطابق اس میں دو بلین ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔ سندھ اینگرو مائننگ کمپنی کو بلاک نمبر دو کا کام دیا گیا ہے اور بھارت کا ’’سنٹرل مائن پلاننگ اینڈ ڈیزائن انسٹی ٹیوٹ ‘‘ اس کی معاونت کررہا ہے۔ سندھ حکومت ایسے دس بلاک قائم کرنا چاہتی ہے۔ ان سے 2030ء تک بیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکے گی۔ اب نواز شریف کی حکومت بھی اس منصوبے کو اپنی ملکیت میں لینے کی خواہش مند ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر مرکزی حکومت ایسا کوئی قدم اٹھاتی ہے تو وزیر ِ اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ سخت غصے میں آ جائیں گے۔ حالیہ دنوں ہونے والی ایک بریفنگ، جس میں ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے وزیر ِ اعظم کو اس منصوبے پر بریفنگ دینی تھی، کے دوران وہاں موجود ’’چڑیا ‘‘ کی نسل کی ایک مکھی ( مخبر ) نے خبر دی کہ وزیر ِ اعظم صاحب کی منشا یہ دکھائی دیتی ہے کہ ڈاکٹر ثمر کی ٹیم اس منصوبے کو چھوڑ دے تاکہ اسے ناکام ظاہر کرتے ہوئے مرکزی حکومت اس کو اپنی ملکیت میںلے سکے۔ اس ’’تعاون ‘‘ کے لیے ٹیم کے افراد کی معقول خدمت کرنے کابھی عندیہ دیا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ توانائی ایک اور دوست ملک سے درآمد کی جائے گی۔ دوسری طرف ڈاکٹر ثمر کی ٹیم کا دعویٰ رہا ہے کہ یہ ایک کامیاب منصوبہ ہے اور ایک موقع پر نواز شریف نے بھی ڈاکٹر صاحب کی تعریف کی تھی۔ تاہم بھارتی فرم نے ڈاکٹر ثمر کے اس منصوبے کو ناکام قرار دیا ہے۔۔۔ ڈاکٹر ثمر کوئلے کو گیس میں تبدیل کرنے کے منصوبے پر کام کررہے ہیں۔ بھارتی فرم کا خیال ہے کہ پاکستانی سائنسدان کے پاس اس کام کے لیے مہارت اور تجربے کی کمی ہے، اس لیے پاکستان کو غیر ملکی ماہرین کی خدمات حاصل کرنا پڑیںگی۔ تاہم اس ضمن میں ملک میں سرگرم تیل مافیا بھی ملوث ہو چکا ہے اور یہ مافیا موجودہ، بلکہ کسی بھی، حکومت سے زیادہ طاقتور ہے۔ بھارتی فرم بھی ظاہر ہے کہ پاکستانی سائنسدان کی کامیابی کو ہضم نہیںکر سکتی۔ ہو سکتا ہے کہ اب سندھ حکومت اس منصوبے کو ہاتھ سے نہ جانے دے لیکن وہ اس کو محض عوامی ضروریات کے لیے کوئلہ نکالنے تک ہی محدود رکھے گی۔ اس سے بجلی پیدا کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو گا۔ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ آئندہ کالموں میں مزید تفصیلات پیش کروں گی اور یہ بھی بتائوں گی کہ ڈاکٹر ثمر اس منصوبے میںکس طرح شامل ہوئے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved