تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     15-09-2013

امن کی تلاش میں!

ٹی وی چینلز کا ایک فائدہ ہوا ہے۔ ہم صحافی دوست اب کھل کر ایک دوسرے کے نظریات پر حملہ کر سکتے ہیں اور ہماری دوستیاں بھی خراب نہیں ہوتیں۔ یہ وہ میچورٹی ہے جو ہمارے اندر دھیر ے دھیرے ا ٓرہی ہے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں طالبان سے مذاکرات پر دھواں دھار بحث ہوئی۔ اینکر ایک بہادر اور ایماندار صحافی ہے۔ اس نے کہا: سب کو علم ہے مذاکرات ناکام ہوں گے اور پھر جنگ کے ذریعے ہی اس مسئلے کا حل تلاش کیا جائے گا جیسے سوا ت میں ہوا تھا لیکن ایک حجت تمام ہونی چاہیے لہٰذا بات چیت کر لی جائے۔ میں نے کہا‘ یہ کیسے مذاکرات ہیں جن کی ناکامی کا پہلے سے علم ہے۔ پھر جو کام آپ نے تین ماہ بعد کرنا ہے تو کیوں کنفیوز کر رہے ہیں؟ کل کو اگر کسی نے لڑنے سے انکار کر دیا جیسے اس سپاہی نے ڈیرہ اسماعیل خان جیل حملے کے موقع پر کیا تھا کہ وہ کیوں کرپٹ سیاستدانوں اور نااہل اسٹیبلشمنٹ کے لیے اپنی جان دائو پر لگائے تو پھر کیا ہو گا؟ تاریخ میں امن کب اور کیسے قائم ہوا؟ ہو سکتا ہے میرے پاس اپنا کوئی حل ہو اور مجھ سے اختلافات کرنے والے مختلف حل سوچتے ہوں۔ تاہم یہ بات طے ہے جنگیں ہی امن قائم کرتی ہیں اور بیسویں صدی میں اس کا ثبوت اس وقت ملا جب اگرچہ لاکھوں لوگ مارے گئے تاہم امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرا کر دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ کر دیا۔ سری لنکا میں بھی امن اس وقت قائم ہوا جب وہاں کی فورسز اور فضائیہ نے کھل کر تاملو ں پر حملہ کیا۔ بھارتی پنجاب میں بھی امن اس وقت ہوا جب ریاست سکھوں پر پوری شدت سے حملہ آور ہوئی۔ ہم نے کیا کیا ہے ؟ دس برس گزر گئے اور آج تک فیصلہ نہیں ہوا کہ ہم نے یہ جنگ لڑنی کیسے ہے؟ پاکستانی میڈیا پر رائٹ ونگ کا ہمیشہ سے قبضہ رہا ہے لہٰذا انہوں نے وہی کام کیا کہ جو جیتا وہی سکندر۔ اگر آج بھی آپ 1980 ء کی دہائی کے اخبارات اٹھا لیں تو پتہ چل جائے گا کہ آج جو امریکہ بہادر کے دشمن بنے پھرتے ہیں انہوں نے امریکہ کا کام اس خطے میں کیسے آسان کیا تھا ۔ ہمیں بتایا گیا کہ وہ اہل کتاب ہیں اور ان سے شادیاں کرنا تک جائز ہے۔ جہاد تو ویسے ہی مذہبی فریضہ ہے۔ کبھی جی چاہتا ہے ان عظیم لکھاریوں کے امریکہ بہادر کے حق میں لکھے گئے وہ وعظ اور تقریریں جو روزانہ جنرل ضیاء کی مرضی سے اخبارات کی زینت بنتی تھیں‘ انہیں ایک کتابی شکل دے کر چھاپا جائے تاکہ قوم کو پتہ چلے کہ آج کے امریکی دشمن کیسے اسی امریکہ بہادر کے ڈھول بجا رہے تھے۔ وہ ڈالروں کا دور تھا۔ میری نئی آنے والی کتاب ’’ایک سیاست، کئی کہانیاں، پارٹ2‘‘ کے لیے آئی ایس آئی کے بریگیڈئر امتیاز نے مجھے خود بتایا تھا کہ اس دور میں ڈالروں کی واقعی بوریاں آتی تھیں جو جنرل ضیاء کے گھر پر موجود ہوتی تھیں کہ کب کس کو ضرورت پڑ جائے۔ جس دن جنرل ضیاء کے طیارے کا حادثہ ہوا اس دن بھی یہ بوریاں جنرل ضیاء کے گھر موجود تھیں۔ بریگیڈیر امتیاز نے اپنے مشہورِ زمانہ فاتح جلال آباد سربراہ سے ان ڈالروں کی قسمت کا پوچھا کہ اٹھا کر لے آتے ہیں تو ڈانٹ دیا کہ جنرل ضیاء کے گھر موجود ان ڈالروں کی بات دوبارہ مت کرنا۔ اس پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک نسل افغانستان میں ماری گئی۔ پختون تباہ ہوئے، ان کا کلچر مٹی میں مل گیا۔ افغان بچے ہمارے ہاں بھیک مانگنے لگے اور ہم افغانیوں کی بہادری کے گن گاتے رہے۔ ہمارے جنرلوں کے اپنے بچے امریکہ میں پڑھتے رہے اور واپس لوٹ کر کاروبار کرتے رہے جبکہ دوسروں کے بچوں کو جنگ کے کاروبار پر لگا دیا گیا۔ جنرل ضیاء نے اپنے ایک بیٹے کو بینکر اور دوسرے کو ڈاکٹر بنایا لیکن غریبوں کے بچے جہاد کے لیے چنے۔ جنرل ضیاء کے ایک دست راست کے بچے امریکہ سے پڑھنے کے بعد کاروباری بن گئے اور گائوں کے رمضان کا بیٹا بندوق لے کر افغانستان کی حفاظت کے لیے منتخب ٹھہرا۔ وہی افغانی جنہوں نے ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘کی تحریک میں افغانستان جانے والے مسلمانوں کا جو حشر کیا تھا وہ یہاں لکھا نہیں جا سکتا کہ ہماری غیرت ایمانی جاگ اٹھتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے پہلے ان پختونوں کو جنرل ضیاء کی جنگ میں دھکیلا، امریکہ کا ساتھی بنوایا اور مجاہدین کا لقب دلوایا اور ہمارے لکھاریوں نے ان مجاہدین کو مافوق الفطرت بنایا۔ پختون بھی اپنا اچھا برا سوچے بغیر اس کام پر لگ گئے۔ ریاست بیٹھ کر ڈالر اکٹھے کرتی رہی۔ جنرل اپنے بچوں کو امریکہ اور برطانیہ میں پڑھانے کے اخراجات ادا کرتے رہے اور ہم عبداللہ کی طرح بیگانے کی شادی میں رقص کرتے رہے۔ آج پتہ چلا ہے کہ ہم خود برباد ہوگئے ہیں۔ جو امریکہ سے نہیں لڑ سکتے تھے انہوں نے پاکستان کے خلاف جنگ شروع کر دی کیونکہ انہیں علم تھا کہ پاکستان ایک کمزور ٹارگٹ ہے اور یہ آسانی سے جھک جائے گا اور وہی کچھ ہوا۔ آج وہی ہمارے ماضی کے ہیرو اور آج کے رول ماڈل افغانی باشندے سبزی منڈی اسلام آباد میں پاکستانی شہریوں سے گن پوائنٹ پر بھتہ وصول کرتے ہیں ۔ اس جہاد کا انجام یہی ہونا تھا جس کے لیے ہم نے پوری نسل مروائی۔ دوسری طرف مسلم دنیا نے ہمیں کیسے استعمال کیا ؟ 2005ء میں فلسطینی صحافی سعودی عرب میں ملا۔ فرمایا: میری طرف سے پاکستانیوں کو بتانا آپ لوگوں نے اسرائیل سے صلح نہیں کرنی۔ میں نے حیران ہوکر کہا لیکن آپ خود تو اوسلو معاہدے پر دستخط کر چکے ہیںاور تقریباً ایک دوسرے کو تسلیم کر چکے ہیں۔ پھر ہم پر یہ پابندی کیوں؟ فرمایا: ہم آپ کی دھمکی اسرائیل پر استعمال کرتے کہ پاکستان کے پاس ایٹم بم ہے۔ میں نے کہا سبحان اللہ۔ ان عرب ملکوں کی جیلوں میں ہزاروں پاکستانی قید ہیں۔ الزام ہے ان کے پاس رہنے کے لیے اجازت نہیں ہے۔ ہمارے قیدی حیران ہوتے ہوں گے پاکستان نے تو عربوں سے کبھی کوئی دستاویز نہیں مانگی کہ جس کا جی چاہے ہمارے ملک میں جو مرضی کرتا پھرے۔ پاکستانی طالبان یقینا چاہتے ہوں گے کہ مذاکرات کامیاب ہوں لیکن جو غیرملکی عناصر ان پر قابض ہو چکے ہیں انہیں مذاکرات پسند نہیں آتے۔ ایک طرف ڈھنڈورا پیٹا جاتا رہا کہ یہ طالبان بھارت، امریکہ اور افغانستان سے پیسہ لیتے ہیں اور اب کیا ہوا ؟ سو بھارت نے آپ کو مجبور کر دیا کہ ان کے لوگوں سے مذاکرات کریں۔ میرے ایک صحافی دوست نے اپنے کالم میں بشیر بلور اور کے بیٹے کے طالبان کے ہاتھوں قتل کے دکھ کی بات کی ہے اور سمجھتے ہیں مذاکرات سے ہی تشدد کم ہوگا۔ اپنے دوست کے لیے عرض ہے کہ اسی اے این پی کی اعلیٰ سیاسی قیادت نے ایک ارب روپے کا کمشن خیبر پختون خوا پولیس کے لیے چار ارب روپے کی اس ڈیل میں سے کھایا ہے جس کے تحت پولیس کے لیے بلٹ پروف جیکیٹس اور جدید اسلحہ خریدا جانا تھا تاکہ وہ دہشت گردوں سے لڑیں ۔ یہ کمشن دوبئی میں ڈالروں میں ادا کیا گیا تھا اور نیب ابھی تک تفتیش کر رہا ہے۔ پانچ سال بہت عرصہ ہوتا ہے۔ پختون سپاہی بہادر ہے۔ اسے ماڈرن ٹیکنالوجی اور جدید اسلحہ مل جاتا تو وہ اکیلے ہی اس جنگ کا رخ بدل کر رکھ دیتا۔ جبکہ اے این پی جنگ کا رخ بدلنے کی بجائے مال کمانے میں لگی رہی۔ میرے دوست خود ’’ایزی لوڈ‘‘ کے کئی قصے ہمیں سنا چکے ہیں تو کیا اس کے بعد اے این پی دعویٰ کر سکتی ہے کہ یہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں قربانیاں دے رہی تھی یا پھر مال کما رہی تھی؟ جس کے بھائی اور عملے نے ایک ارب روپے کا کمشن کھا لیا ہو اسے بشیر بلور یا افتخار کے بیٹے کے جینے مرنے کی فکر نہیں کرنی چاہیے ! طالبان بہت خوش قسمت نکلے ہیں۔ ہماری فورسز سے لڑنے کے لیے ان کے پاس جدید ہتھیار ہیں۔ ٹی وی چینلز اور اخباری کالموں میں ان کا دفاع کرنے کے لیے میرے جیسے صحافی ہیں اور اے پی سی کے اجلاس میں ان کا مقدمہ لڑنے کے لیے سیاستدان اکثریت میں تھے۔ اب اس ہجوم میں چالیس ہزار بے گناہوں کا مقدمہ کون لڑتا جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔ کالج دور میں عظیم ادیب ٹالسٹائی کا ناول ’’وار اینڈ پیس‘‘ پڑھا تھا۔ عرصہ گزر گیا۔ سوچ رہا ہوں دوبارہ پڑھوں کہ جب نپولین نے روس پر حملہ کیا تھا تو روسی شہنشاہ نے وہ جنگ کیسے جیتی تھی یا فلم \"Enemy at the gates\" دوبارہ دیکھنے کو جی چاہ رہا ہے کہ کیسے پورے یورپ کو نچانے والی جرمن فوج کے سامنے سٹالن گریڈ کے محاذ پر اکیلا روسی فوجی ڈٹ گیا تھا۔ اگر یہ شہر فتح ہو جاتا تو روس ختم ہوگیا تھا۔ اس فوجی نے تن تنہا ہی پوری جنگ کا نقشہ بدل دیا تھا ۔ ایسی خوفناک جنگیں دشمنوں سے مذاکرات سے نہیں جیتی جاتیں۔ پہلے دشمنوں کو جھکانا پڑتا ہے۔ پھر بھی آپ کوشش کر کے دیکھ لیں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں کہ ہم سب امن چاہتے ہیں اگرچہ تاریخ ہمارے خلاف ہے کیوںکہ تاریخ کا سبق یہ بتاتا ہے کہ ان حالات میں امن طاقت ور کے ہاتھ میں موجود بندوق کی گولی سے ہی نکلتا ہے نہ کہ منت ترلے کرنے اور امن کی بھیک مانگنے سے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved