ہر انسان جب تک روئے ارض پر موجود ہے تب تک اُس کا‘ کسی نہ کسی درجے میں‘ حلقۂ احباب بھی ہے۔ حلقۂ احباب قدرت کا عطیہ نہیں ہوتا۔ یہ شعوری کوشش کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آتا ہے بلکہ معرضِ وجود میں لانا پڑتا ہے۔ ڈیل کارنیگی کی دو کتابیں بہت مقبول ہیں جن میں سے ایک کا عنوان ''ہاؤ ٹو وِن فرینڈز اینڈ انفلوئنس پیپل‘‘ ہے۔ اس کتاب کے ذریعے ڈیل کارنیگی نے یہ نکتہ بالتصریح بیان کیا ہے کہ دوست ملتے نہیں بلکہ جیتنے پڑتے ہیں۔ کسی کو اپنا بنانا ہو تو اُسے اپنانا پڑتا ہے، دل جیتنا پڑتا ہے۔ جب آپ کسی کا دل جیت پائیں گے تبھی اُسے جیت پائیں گے، اپنا بنا پائیں گے۔ ہم میں سے ہر ایک کا کم از کم ایک حلقۂ احباب ہوتا ہے۔ جو لوگ ملنے ملانے پر زیادہ یقین رکھتے ہیں‘ اُن کے کئی حلقہ ہائے احباب ہوتے ہیں۔ آپ کے دوست کیسے ہوں اِس کا مدار بہت حد تک اس بات پر ہے کہ آپ کس مزاج کے حامل ہیں۔ ہر انسان ہم مزاج دوست تلاش کرتا ہے۔ یہ شعر تو آپ نے سنا ہی ہوگا ؎
کُند ہر جنس باہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر، باز با باز
سب کو اپنے ہی جیسے لوگ اچھے لگتے ہیں۔ یہ بالکل فطری امر ہے جس پر کسی کو حیران نہیں ہونا چاہیے۔ قمار بازوں کو قمار باز ہی اچھے لگتے ہیں جبکہ پڑھے لکھے افراد چاہتے ہیں کہ اُن کے حلقۂ احباب میں پڑھے لکھے لوگ ہوں۔ جو لوگ ہر وقت حالات کا رونا روتے رہتے ہیں اُنہیں وہی لوگ اچھے لگتے ہیں جو اُن کی طرح حالات کا رونا روتے رہتے ہوں۔ اپنے ماحول پر ایک اُچٹتی سی نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ کم و بیش ہر انسان اپنے ہی جیسے لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ ہم مزاج لوگ ہی ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھتے ہیں اور خوشی خوشی وقت گزارتے ہیں۔ ایسے میں یہ بات بہت عجیب سی ہے کہ کوئی سوچے سمجھے بغیر کسی کو بھی دوست بنالے۔ دوستی اگر مزاج کی ہم آہنگی کی بنیاد پر نہ ہو تو انسان اپنا وقت ہی ضائع کر رہا ہوتا ہے۔ کبھی آپ نے اس حقیقت پر غور کیا ہے کہ حلقۂ احباب معیاری ہو تو انسان شگفتہ طبیعت کے ساتھ جیتا ہے۔ خوش مزاجی کی بدولت اُس کی بیشتر سرگرمیاں بحسن و خوبی انجام کو پہنچتی ہیں۔ جب طبیعت رواں ہو تو انسان اپنا ہر کام دلجمعی سے کرتا ہے۔ طبیعت کو رواں رکھنے میں حلقۂ احباب کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
کسی بھی انسان کو حلقۂ احباب کی تشکیل سوچ سمجھ کر کرنا ہوتی ہے۔ بے شعوری کی حالت میں کسی کو بھی دوست نہیں بنایا جاسکتا۔ دوستی اُنہی سے کی جانی چاہیے جن سے دل ملتا ہو، مزاج اور میلانِ طبع کی ہم آہنگی ہو۔ مزاج کی ہم آہنگی کے بغیر کی جانے والی دوستی کسی بھی درجے میں دوستی نہیں ہوسکتی۔ یہ تو زبردستی کا تعلق ہوا۔ انسان کا کوئی بھی کام بے غرض نہیں ہوتا۔ ضروری نہیں کہ غرض حصولِ زر سے متعلق ہو۔ ہم بہت سے تعلقات مالی منفعت سے کہیں بڑھ کر شخصیت کی تہذیب و تطہیر کے لیے اُستوار کرتے ہیں۔ اگر آپ کسی بڑی علمی شخصیت کے پاس بیٹھتے ہیں تو ظاہر ہے کہ اُس سے کچھ مالی فائدہ بٹورنے کے لیے ایسا نہیں کرتے بلکہ آپ کی کوشش ہوتی ہے کہ دانش کی دولت ہاتھ آئے تاکہ آپ کی سوچ بدلے اور زندگی کا معیار بلند ہو۔ بہر کیف‘ کوئی بھی تعلق کسی غرض کے بغیر نہیں ہوتا اور غرض لازمی طور پر مال و زر کی ہوس کا نام نہیں۔ کسی کو نیک نامی ملی ہو تو آپ اُس سے تعلق اُستوار رکھنے پر متوجہ رہتے ہیں تاکہ آپ کے لیے بھی نیک نامی کا اہتمام ہو۔ بُرے کردار کے حامل کسی بھی شخص سے تعلق آپ کو بھی بدنامی سے دوچار کرکے دم لیتا ہے اس لیے ایسوں کی دوستی سے بچنا چاہیے۔ پوری شعوری کوشش کی جانی چاہیے کہ آپ کے حلقۂ احباب میں کوئی بد کردار یا بدنام شخص شامل نہ ہو۔ جب ہم پوری شعوری کوشش کے ساتھ کسی کو اپناتے ہیں تو دراصل اُسے گرین سگنل دے رہے ہوتے ہیں کہ وہ ہماری زندگی کا حصہ بن جائے۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ دوستوں کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا جائے۔ رشتے بنے بنائے ملتے ہیں مگر دوستی کرنا پڑتی ہے، دوست بنانے پڑتے ہیں۔ ڈیل کارنیگی نے بتادیا ہے کہ دوستی خود بخود بن جائے والا تعلق نہیں۔ یہ شعوری کوشش کا نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ دوستی کے معاملے میں برتی جانے والی ڈھیل انسان کو گڑھے میں بھی گراسکتی ہے۔ اپنے ماحول کا سرسری جائزہ لے کر بھی ہم سمجھ سکتے ہیں کہ بے شعوری کی حالت میں کی جانے والی دوستی وہی کیفیت پیدا کرتی ہے جس کے لیے میرزا اسداللہ خاں غالبؔ نے کہا تھا ؎
فائدہ کیا؟ سوچ! آخر تو بھی دانا ہے اسدؔ
دوستی ناداں کی ہے، جی کا زیاں ہو جائے گا
نادان کی دوستی جی کا جنجال ہوا کرتی ہے۔ ہر انسان کے لیے ناگزیر ہے کہ حلقۂ احباب کی ترتیب و تشکیل میں غیر معمولی احتیاط سے کام لے، ذہن کو بروئے کار لائے۔ مزاج کی ہم آہنگی دوستی کے لیے اولین شرط ہے۔ علاوہ ازیں ذہانت، سنجیدگی اور مقصدیت کو بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے۔ کسی کو بھی دوست بناتے وقت یا کسی بھی حلقے کا حصہ بنتے وقت دیکھنا چاہیے کہ اُس کا حصہ بننا کیوں ضروری ہے۔ کچھ نہ کچھ حاصل ہونا چاہیے۔ کچھ نہ کچھ یعنی علم، دانش، بصیرت، معاملہ فہمی، کردار کی بلندی، مزاج کی شگفتگی، زندگی کو بامقصد بنانے کا میلان وغیرہ وغیرہ۔ کسی بھی انسان کے لیے اِس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے کہ اُس کا حلقۂ احباب انتہائی معیاری ہو؟ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب انسان اِس معاملے کو ہلکا نہ لے، سنجیدگی اپنائے، ذہانت اور شعور بروئے کار لائے۔ معیاری حلقۂ احباب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسان کی طبیعت کو بلندی کی راہ محض دکھاتا ہی نہیں بلکہ وہاں تک پہنچاتا بھی ہے۔ آج کی ہنگامہ خیز و ہنگامہ پرور زندگی ہم سے بیشتر معاملات میں خراج وصول کر رہی ہے۔ بڑے شہروں میں زندہ رہنے کی قیمت اِتنی زیادہ ہے کہ اِسے تاوان سے مشابہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ انسان بھری بھیڑ میں بھی خود کو تنہا محسوس کرنے لگا ہے۔ جب معاملات کی غالب اکثریت محض مفاد سے وابستہ ہو تو انسان ہر وقت یہ محسوس کرتا رہتا ہے کہ زندگی اُس سے صرف وصولی کر رہی ہے۔ ایسے میں مخلص دوستوں کا ملنا؟ اِسے تو نعمتِ غیر مترقبہ سمجھیے۔ خود غرضی سے عبارت ماحول میں اگر کوئی مخلص دوست مل جائے تو معاملات کی نوعیت ہی بدل جاتی ہے، دل کسی اور ہی انداز سے دھڑکنے لگتا ہے۔ جس سے دل ملتا ہے اُس کی آمد پر طبیعت کِھل اُٹھتی ہے ؎
تم ہماری طرف جو آنکلو ... ہر قدم پر چراغ جلتا ہے!
آج کی زندگی ہم سے ہر معاملے میں غیر معمولی سنجیدگی اور منصوبہ سازی کی طالب رہتی ہے۔ پھر بھلا دوستی اور حلقۂ احباب کے حوالے سے لاپروائی کیوں برتی جائے؟ کسی بھی انسان کے لیے سب سے قیمتی ذاتی اثاثہ وقت ہے۔ وقت کی ناقدری انسان کو تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ دوستوں کے انتخاب میں برتی جانے والی کوتاہی اپنے آپ سے غداری کے مترادف ہے۔ سلام دعا کسی سے بھی رکھی جاسکتی ہے مگر دوستی کا معاملہ ہم سے سنجیدگی اور مقصدیت چاہتا ہے۔ دوستی کو تو چھوڑیے، مقصدیت کے بغیر تو دشمنی بھی نہیں کی جاسکتی۔ آج زندگی بہت الجھی ہوئی ہے۔ غیر معیاری حلقۂ احباب کا حصہ بنے رہنے کا مطلب زندگی کو مزید الجھانا ہے۔ جہاں فضول گفتگو ہوتی ہے وہاں بیٹھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ جن سے مل کر طبیعت میں شگفتگی پیدا نہ ہوتی ہو اُن سے محض رسمی سا تعلق کافی ہے۔ زیادہ وقت اُن کے ساتھ گزارنا چاہیے جن سے مل کر دِل باغ باغ ہو جاتا ہو، خیالات میں تازگی پیدا ہوتی ہو۔ دانش مندی کا تقاضا ہے کہ انسان کسی نہ کسی مقصد کے تحت دوستی رکھے اور مقصد بہر حال بلند ہونا چاہیے۔ زندگی کے دوسرے بہت سے معاملات کی طرح اپنے تعلقات کا بھی جائزہ لیتے رہیے۔ جن سے دوستی برقرار رکھنے میں جی کا زیاں ہوتا ہو اُن سے قطعِ تعلق بہتر۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو بہر حال رسمی تعلق سے زیادہ کوئی ربط نہ رکھیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved