تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     22-03-2023

انتقام نہیں مصالحت کا رویہ اپنائیے

بادشاہ کا لشکر اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھا۔ راستے میں ایک بہت بڑے باغ پر بادشاہ کی نظر پڑی جس میں قسم قسم کے پھلوں کی بہار آئی ہوئی تھی۔ بادشاہ کی نظر باغ کے اس گوشے پر پڑی جہاں سرخ سرخ اناروں سے بھری ڈالیاں لٹک رہی تھیں۔ بادشاہ کا دل انار کھانے کو کیا۔ اس نے اپنے لشکر کے ایک افسر کو بلایا اور اسے اس باغ سے چند انار لانے کوکہا۔ ساتھ نے بادشاہ نے اُس افسر کو یہ بھی تاکید کی کہ باغ کے مالک سے اس کی اجازت لینے کے علاوہ ان اناروں کی قیمت بھی ضرور ادا کرنا۔ بادشاہ کی بات سن کر پاس کھڑا ایک وزیر بولا: بادشاہ سلامت! چند اناروں سے باغ کو کیا فرق پڑ سکتا ہے؟ ہم ویسے ہی توڑ کر لے آتے ہیں۔ اس پر بادشاہ نے قدرے ناراضی سے کہا: اگر بادشاہ اس باغ سے چند انار بغیر قیمت ادا کیے کھائے گا تو اس کے لشکری پورا باغ ہی اجاڑ کر رکھ دیں گے۔
یہ حکایت مجھے نگران حکومتوں کے اقدامات دیکھ کر یاد آئی ہے۔ آئین میں نگران حکومت کی ذمہ داریاں صراحت کے ساتھ واضح کی گئی ہیں۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کا باب چودہ (XIV)''فنکشنز آف کیئر ٹیکر گورنمنٹ‘‘ کو کھلے الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ اس کے آرٹیکل 230 کے مطابق (a)نگران حکومت تمام ضروری معاملات کو چلائے گی، (b)آئین و قانون کے مطابق الیکشن کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کرے گی، (c) اپنے آپ کو روٹین کے، غیر متنازع اور ضروری معاملات تک محدود رکھے گی۔ (d) ہر شخص اور ہر سیاسی جماعت کے لیے غیر جانبدار رہے گی‘‘۔ شق دو میں وہ معاملات ہیں جن سے نگران حکومت اجتناب کرے گی؛ نگران حکومت (a)انتہائی ضروری معاملات کے علاوہ کوئی پالیسی فیصلے نہیں کرے گی، آگے جا کر ذیلی شق (e) کہتی ہے کہ نگران حکومت اہم عہدوں پر تعیناتیوں اور ترقیوں سے گریز کرے گی، (f )پبلک آفیشلز (سرکاری عہدیداروں) کا ٹرانسفر نہیں کرے گی‘ ماسوائے انتہائی ضروری‘ اس کے لیے بھی وہ (الیکشن) کمیشن کی منظوری کی محتاج ہو گی۔ (g) الیکشن پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کرے گی، نہ ہی کوئی ایسا اقدام کرے گی جس سے صاف و شفاف الیکشن کی راہ میں کوئی رخنہ پڑے۔
درج بالا ذمہ داریاں پڑھیے اور ساتھ ہی چند دن پہلے ایک نگران وزیر کی پریس کانفرنس کو یاد کیجیے۔ موصوف نے پی ٹی آئی کے حوالے سے صاف الفاظ میں کہا کہ وہ کوئی سیاسی جماعت نہیں‘ ایک مسلح جتھا ہے۔ یہ تو وہ الزامات ہیں جو سیاسی مخالفین یعنی وفاقی حکومت لگا رہی ہے۔ ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ ان الزامات میں حقیقت ہے‘ تب بھی نگران حکومت یا کسی وزیر کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی سیاسی جماعت سے کھلے عام اپنے بغض کا اظہار کرے۔ یہ نہ صرف اپنے حلف سے روگردانی ہے بلکہ آئینی ذمہ داریوں سے انکار بھی ہے۔ جب تک عدالت کسی سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دے کر بین نہیں کرتی‘ تب تک نگران حکومت کے سامنے الیکشن میں حصہ لینے والی سبھی سیاسی جماعتوں کی حیثیت یکساں ہے۔ اس سے بھی اہم معاملہ یہ ہے کہ اسلام آباد اور پنجاب میں جس طرح پی ٹی آئی کے اراکین اور حمایتیوں کے خلاف آپریشنز ہو رہے ہیں‘ کیا نگران حکومت کو یہ مینڈیٹ حاصل ہے کہ وہ کسی سیاسی جماعت کے اراکین کے خلاف آپریشن کرے، ان کے گھروں پر چھاپے مارے، انہیں ہراساں کرے؟ گزشتہ دو‘ تین روز سے پنجاب میں پی ٹی آئی کے حامیوں کے خلاف جو آپریشن چل رہا ہے‘ اس میں کئی ایسے افراد کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے جو الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں اور پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر ہیں۔کیا یہ الیکشن کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے؟ کے پی میں حویلیاں میں پی ٹی آئی کے تحصیل ناظم کو راکٹ فائر کر کے ہلاک کر دیا گیا۔ دس سے پندرہ افراد نے ان پر حملہ کیا۔ سوال یہ ہے کہ سکیورٹی ادارے کہاں ہے؟ نگران حکومت کیا کر رہی ہے؟ مقامی پولیس نے کہا ہے کہ یہ ذاتی دشمنی کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا راکٹ لے کر پھرنا اور مخالفین کو نشانہ بناناکوئی عام بات ہے؟ آج کے اخبار میں پولیس کے ذرائع کے حوالے سے یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی سیاسی سرگرمیوں کی مالی معاونت کرنے والی شخصیات کی لسٹ مرتب کر لی گئی ہے اور 88 افراد کے خلاف جلد کریک ڈائون کیا جائے گا۔ کیا کسی سیاسی جماعت کی مالی معاونت کرنا کوئی جرم ہے؟ کیا ایسے موقع پر‘ جب لگ بھگ ڈیڑھ ماہ بعد پولنگ ہونے جا رہی ہے‘ کسی سیاسی جماعت کے سپورٹرز اور فنڈرز کے خلاف کارروائی کا کوئی جواز ہے؟فواد چودھری کے بقول‘ پچھلے دو روز میں پی ٹی آئی کے پانچ سو سے زائد کارکنان گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ کیا یہ اقدام نگران حکومت کی غیر جانبداری پر بہت بڑا سوال نہیں؟ ایک دفعہ پھر الیکشن ایکٹ 2017ء کا مطالعہ کیجیے اور ساتھ ہی ان خبروں کو ذہن میں لائیے۔ نگران حکومتیں اپنے حلف اور اپنے مینڈیٹ سے واضح انحراف کرتی نظر آ رہی ہیں۔جب وفاقی حکومت الیکشن سے فرار اختیار کرنے کے لیے مختلف بہانے بناتے ہوئے تحریک انصاف کو کالعدم قرار دینے کی بے وقت کی راگنی شروع کر دے اور نگران حکومت ''ہاتھ توڑ دینے‘‘ کی دھمکیاں دینے لگ جائے تو پھر کہاں کا الیکشن اور کہاں کے نگران۔ پھر تو پورا لشکر ہی عمران خان اور اس کے ہر ساتھی کے خلاف پل پڑے گا۔
تحریک انصاف یا عمران خان کے خلاف کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے یہ تخمینہ لگا لینا چاہیے کہ اس عمل کا ردعمل کتنا شدید ہو سکتا ہے۔ ویسے تو گزشتہ ایک ہفتے کے اقدامات اور ان کا ردعمل اس حوالے سے واضح ہے، مگر اس کے باوجود اگر کسی کی خواہش پر خد انخواستہ عمران خان کے خلاف کوئی غیر آئینی، غیر قانونی یا غیر انسانی اقدام کیا جاتا ہے تو یہ پورے ملک میں آگ بھڑکا سکتا ہے۔ میری اربابِ اختیار کے ساتھ ساتھ میڈیا کے دوستوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ پنجاب بشمول اسلام آباد، کراچی، کے پی بالخصوص سابق فاٹا اور بلوچستان میں گھوم پھر کر سروے کر کے دیکھ لیں کہ زمینی صورتحال کیا ہے۔ ہو سکتا ہے اور گمان بھی ہے کہ وقتی طور پر بہت سے لوگ اپنے تاثرات بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔ لیکن اگر عمران خان کے خلاف کسی انتقامی کارروائی کا تاثر مضبوط ہو گیا تو اس آگ میں بہت کچھ جل کر بھسم ہوجائے گا۔ اگر حقائق کا اندازہ کرنا ہے تو ایک بار زمان پارک جا کر دیکھ لیجیے ۔ وہ کون سی ماں ہو گی جو آنسو گیس کی شدید شیلنگ، لاٹھی چارج اور پولیس آپریشن کے باوجود نہ صرف خود بلکہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی
ساتھ لا رہی ہو گی۔ آپ اسے ''کلٹ‘‘ کا نام دیجیے یا دیوانگی کا‘ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان اس وقت لاکھوں‘ کروڑوں لوگوں کی آخری امید ہے۔ اس معاملے کو انتقام کی آگ میں جل کر نہیں بلکہ ملک و قوم کے مفاد میں ٹھنڈے دل و دماغ سے دیکھنا چاہیے۔ ایک پاکستانی اور سچے سپاہی کی حیثیت سے گزارش کر رہا ہوں کہ اس کھیل سے باز رہیے‘ اس کو فوری روک دیجئے۔ بیرونِ ملک اہم مقامات پر ہونے والے احتجاج پورے عالمی میڈیا کی توجہ کھینچ رہے ہیں، اس سے حکومت ہی نہیں‘ ملک کی بھی بدنامی ہو رہی ہے۔ کون پاکستانی ہو گا جو اپنے ملک کی بدنامی چاہے گا؟ مگر لوگوں کو اس حد تک مجبور کر دیا گیا ہے کہ وہ اب بیرونِ ملک بھی اپنی آوازاٹھانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اس لیے ہوش کے ناخن لیجئے اور رک جایئے۔ یہ تسلیم کیا ہی نہیں جا سکتا کہ یہ بغیر کسی ارادے یا سوچے سمجھے منصوبے کے بغیر کیا جا رہا ہے‘ سب جانتے ہیں کہ پنجاب اور کے پی کی صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا انتقام لیا جا رہا ہے کیونکہ کچھ عناصر نہیں چاہتے تھے کہ ان دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہوں اور اس اقدام پر چودھری پرویز الٰہی کا خاندان بھی زیرِ عتاب آیا ہوا ہے۔ چودھری صاحب کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس سے متعلق وہ ابھی تک کچھ مصلحتوں کے تحت خاموش ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس بتانے کو اتنا کچھ ہے کہ شاید سننے کے بعد ہضم نہ کیا جا سکے۔ گزشتہ چھ ماہ سے ملک میں قانون ایک مذاق اور آئین ایک کھیل بن چکا ہے، واضح قانونی و آئینی ذمہ داریوں سے روگردانی کی جا رہی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ ریاست کے سبھی وسائل عمران خان کے خلاف جھونکے جا رہے ہیں مگر اس کے باوجود کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہو رہا۔ اس آگ کو مزید تیل دینے کے بجائے زمینی حقائق کا ادراک کیجیے اور انتقام کی جگہ مصالحت کا رویہ اپنائیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved