تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     22-03-2023

کام ادھورے، آپ ادھورے

ذہن میں شدید نوعیت کی الجھن پیدا کرنے والے معاملات بہت سے ہیں۔ ہم زندگی بھر طرح طرح کی ذہنی الجھنوں سے نبرد آزما رہتے ہیں۔ یہ مستقل جنگ ہے اور اِس میں ہر محاذ پر کسی نہ کسی حد تک جیتنا ہی پڑتا ہے۔ کسی بھی جنگ میں نہ جیتنے کا آپشن بھی ہوتا ہے مگر اِس آپشن کے نتائج بھی ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ ذہنی الجھنوں سے نجات پانا ہمارے لیے اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ ہر طرح کی ذہنی الجھنوں کو نظر انداز کرنے کا آپشن بھی ہم میں سے ہر ایک کے پاس ہے مگر اِس کا جو بھی نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے وہ بھی ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ ایسے میں دانائی کا تقاضا یہ ہے کہ کوئی بھی ذہنی الجھنوں کو نظر انداز نہ کرے اور اُن سے بطریقِ احسن نپٹنے کی پوری تیاری کرے۔ کسی بھی کام کو ڈھنگ سے کرنے کے لیے ذہن کا پُرسکون اور یکسو ہونا لازم ہے۔
ہم زندگی بھر ادھورے پن کا شکار رہتے ہیں۔ جی ہاں! یہ مسئلہ صرف میرا یا آپ کا نہیں بلکہ معاشرے کے کم و بیش ہر فرد کا ہے۔ ہر طبقے میں، ہر سطح پر لوگ بہت سے کام ادھورے چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ ادھورے کام ذہن میں گرہیں ڈالتے رہتے ہیں۔ ہر ادھورا کام زبردستی کے واجبات کے مانند ہوتا ہے۔ کسی جواز کے بغیر کیا جانے والا بھگتان ہمارے لیے سوہانِ روح ہوتا ہے۔ ادھورے کاموں کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہر ادھورا کام ہمارے لیے زبردستی کا بھگتان ہوتا ہے۔ ہم جو کام بھی ادھورا چھوڑ دیتے ہیں وہ زندگی بھر کسی نہ کسی شکل میں ہمارا پیچھا کرتا رہتا ہے۔ پچھتاوے کے احساس سے ذہن الجھا رہتا ہے۔ ہر انسان عمر کے ہر مرحلے میں چند ایک غلطیاں کرتا ہے۔ یہ غلطیاں معاشی بھی ہوتی ہیں اور معاشرتی بھی۔ معاشرتی غلطیوں میں اخلاقی غلطیوں کا بھی اچھا خاصا تناسب ہوسکتا ہے۔ بہر کیف‘ عمومی معاشرتی غلطیاں انسان کو کسی نہ کسی حد تک احساسِ جرم سے دوچار رکھتی ہیں اور یوں ذہن الجھتا جاتا ہے۔ معاشی سطح پر کی جانے والی غلطیاں کم ظلم نہیں ڈھاتیں۔ اِن غلطیوں کے ہاتھوں کبھی کبھی ہم اِتنے الجھ جاتے ہیں کہ پھر اُٹھنے اور اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑے ہونے میں ایک زمانہ لگ جاتا ہے۔ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ ہمارے لیے معاشی غلطیاں زیادہ پریشان کن ہوتی ہیں یا معاشرتی غلطیاں کیونکہ ہم دونوں ہی کے ہاتھوں شدید نوعیت کی ذہنی الجھن کا شکار رہتے ہیں۔
کسی بھی انسان کے ذہن کو الجھانے والے معاملات دراصل شش و پنج کی کیفیت سے پیدا ہوتے ہیں۔ جب انسان کسی معاملے میں کوئی واضح اور متوازن فیصلہ نہیں کر پاتا تب اُس کا ذہن الجھنے کی راہ پر گامزن ہونے لگتا ہے۔ بے دِلی اور بے دھیانی سے کیا جانے والا کوئی بھی فیصلہ ہمارے لیے کسی کام کا نہیں ہوتا۔ فیصلے کی گھڑی وقفے وقفے سے آتی رہتی ہے۔ ہمیں یومیہ بنیاد پر بھی چند فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔ اِن فیصلوں میں ہم بالعموم زیادہ الجھن محسوس نہیں کرتے کیونکہ معمولات کا حصہ بن جانے والے فیصلے عمومی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اُن کا ہماری زندگی پر کوئی غیر معمولی اثر بھی مرتب نہیں ہوتا۔ ہاں‘ کیریئر کے حوالے سے یا کاروبار کے سلسلے میں جو فیصلے ہمیں کرنا ہوتے ہیں اُن کے نتیجے میں ہمارے لیے سہولت یا زحمت پیدا ہوکر رہتی ہے۔ کیریئر کو بڑھاوا دینے کے لیے ہمیں مارکیٹ پر نظر رکھنا پڑتی ہے۔ جاب مارکیٹ کے ساتھ ساتھ بہت سے دوسرے عوامل کو بھی ذہن نشین رکھنا پڑتا ہے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے ماحول میں ہمیں بہت سے فیصلے تیزی سے کرنا پڑتے ہیں۔ ایسے میں کبھی کبھی کسی بڑی غلطی کا احتمال بھی رہتا ہے۔ یہ حیرت انگیز بات نہیں کیونکہ انسان تمام معاملات پر یکساں تناسب سے متوجہ نہیں رہ سکتا۔ کہیں نہ کہیں کوئی چھوٹی موٹی غلطی ہو ہی جاتی ہے۔ چھوٹی موٹی یا عمومی نوعیت کی غلطی زیادہ پریشانی کا باعث نہیں بنتی۔ صورتِ حال اُس وقت زیادہ پریشان کن شکل اختیار کرتی ہے جب ہم کسی غلطی کے ہاتھوں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ عمومی معاملات میں بھی بے دھیانی ہمارے لیے سنگین نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کا ایک معاملہ مشترک ہے‘ کسی نہ کسی سطح پر، کسی نہ کسی درجے میں کام ادھورے چھوڑ دینا۔ ایسا بے دِلی اور بے ذہنی کے باعث ہوتا ہے۔ جب ہم زیادہ سوچے بغیر کوئی قدم اٹھاتے ہیں تو کچھ ہی دیر میں احساس ہوتا ہے کہ ہم تو غلط قدم اٹھا بیٹھے ہیں۔ کوئی بھی کام اپنی مؤثر اور نتیجہ خیز تکمیل کے لیے ہم سے سنجیدگی، لگن اور انہماک چاہتا ہے۔ کام چھوٹا ہو یا بڑا، اپنے آپ میں تو بڑا ہی ہوتا ہے۔ اگر ہم متوجہ نہ ہوں تو چھوٹا کام بھی بڑے خراب نتائج پیدا کرکے دم لیتا ہے۔ اور بڑے کاموں کے لیے تو غیر معمولی انہماک درکار ہوتا ہی ہے۔
ہم عمر کے مختلف مراحل میں چند بڑے فیصلے کرتے ہیں۔ یہ فیصلے ہم سے پوری توجہ چاہتے ہیں۔ بھرپور لگن، توجہ اور سنجیدگی کے ساتھ نہ کیے جانے والے فیصلے ہمارے لیے انتہائی پریشان کن، بلکہ تباہ کن واجبات ثابت ہوسکتے ہیں۔ مثلاً زندگی کے معاشی پہلو سے متعلق کیے گئے تمام فیصلے ہم سے سنجیدگی، لگن اور دیانت چاہتے ہیں۔ ایسے تمام فیصلے بہت سوچ سمجھ کر کیے جانے چاہئیں۔ ادھورے کام شخصیت کو ادھورا کردیتے ہیں۔ ہم جس کام کو ادھورا چھوڑ دیتے ہیں وہ ہماری نفسی یا فکری ساخت سے چمٹ جاتا ہے۔ ہر ادھورا کام اس بات کا مظہر ہوتا ہے کہ ہم نے سوچ سمجھ کر فیصلہ نہیں کیا، حالات کا جائزہ نہیں لیا، پوری محنت نہیں کی۔ اس کے نتیجے میں وقت بھی ضایع ہوا اور وسائل بھی۔ وقت اور وسائل کے ساتھ ساتھ محنت کا ضیاع بھی ہمیں پچھتاوے سے دوچار رکھتا ہے۔ اگر ادھورے کام زیادہ ہوں تو ذہن پچھتاوے کے باعث اُنہی کے بارے میں سوچ سوچ کر کُڑھتا رہتا ہے۔ یہ کیفیت انسان کو دم بہ دم پریشان رکھتی ہے۔ ایسے میں موجودہ کاموں پر متوجہ رہنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
منصوبہ سازی زندگی کو کامیابی کی راہ پر ڈالنے والا عامل ہے۔ جو لوگ سوچنے سمجھنے کے عادی اور قائل ہوتے ہیں وہ اہم ترین فیصلے عجلت میں نہیں کرتے۔ وہ ایسے کسی بھی فیصلے کے لیے تمام متعلقہ حالات و معاملات پر نظر رکھتے ہیں، اُن کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ اتنی توجہ اور محنت کے بعد کیا جانے والا کوئی بھی فیصلہ بارآور ثابت ہوتا ہے۔ اگر حالات پلٹ جائیں اور معاملات کو قابو میں رکھنا انسان کے لیے ممکن نہ ہو تب بھی اس بات کا اطمینان ضرور رہتا ہے کہ اپنی طرف سے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، اب حالات ہی پلٹ گئے تو کوئی کیا کرے۔ ہمارے لیے کسی بھی معاملے میں عجلت پسندی کی گنجائش ہوتی ہے نہ بے دھیانی کی۔ یومیہ معمولات میں بھی ہمیں دانائی سے کام لینا ہوتا ہے۔ اور اہم فیصلے؟ وہ تو ہم سے بالخصوص انہماک اور سنجیدگی چاہتے ہیں۔ ایسے تمام فیصلے بہت سوچ سمجھ کر کیے جانے چاہئیں کیونکہ کام ادھورا چھوڑنے کی صورت میں طویل المیعاد پچھتاوا ہماری راہ دیکھ رہا ہوتا ہے۔ زندگی جیسی نعمت پچھتاووں کی نذر نہیں ہونی چاہیے۔ یہ تو بہت احتیاط سے برتی جانے والی نعمت ہے۔
سوچے سمجھے بغیر کام کرنے کی عادت انسان کو عملی زندگی میں شدید الجھنوں سے دوچار کرتی ہے۔ پروفیشنل اِزم کا تقاضا ہے کہ ہر کام بہت سوچ سمجھ کر ہاتھ میں لیا جائے۔ کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ ہم اُس ذمہ داری سے کماحقہٗ عہدہ برآ ہو بھی سکیں گے یا نہیں۔ اگر کوئی الجھن ہو تو ذمہ داری قبول کرنے سے پہلے دور کی جانی چاہیے۔ کسی بھی کام کی مؤثر تکمیل کے لیے جو کچھ درکار ہوتا ہے وہ آپ کے پاس اُس کام کے شروع کیے جانے سے پہلے ہونا چاہیے۔ عجلت میں فیصلے کرنے کی عادت نئی نسل میں غیر معمولی تناسب سے پائی جاتی ہے۔ بیشتر نوجوان کیریئر کے انتخاب کے معاملے میں عجلت پسندی اور بے ذہنی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اُنہیں کئی شعبے بہت پُرکشش دکھائی دے رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں درست فیصلہ بہت مشکل ہوتا ہے۔ یوں بیشتر نوجوان کسی بھی شعبے میں قدم رکھ دیتے ہیں اور کچھ مدت کے بعد احساس ہوتا ہے کہ وہ شعبہ تو اُن کے مزاج سے ہم آہنگ ہی نہیں۔ پھر شعبہ بدل جاتا ہے۔ یہ ہوتا ہے حقیقی ادھورا پن۔ اِس عادت کا تدارک لازم ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved