دوسرے پارے کا آغاز بھی اس بیان سے ہے کہ اب مسلمانوں کا قبلہ تبدیل کیا جارہا ہے اور ہٹ دھرم لوگ اور منافقین اس پر اعتراض کریں گے کہ یہ کیوں ہوا؟ دراصل رسول اللہﷺ کے مدنی دور کی ابتدا میں سولہ‘ سترہ ماہ تک بیت المقدس کی جانب رخ کرکے نمازیں پڑھی گئیں ‘ پھر ایک دن ظہر کی نمازکے دوران رسول کریمﷺ کی خواہش پر اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کے بجائے بیت اللہ کو قبلۂ نماز بنانے کا حکم نازل فرمایا اور اس تحویلِ قبلہ کی حکمت بھی اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرما دی ''اور (اے رسول!) جس قبلہ پر آپ پہلے تھے‘ ہم نے اس کو قبلہ اس لیے بنایا تھاتاکہ ہم ظاہر کردیں کہ کون (غیر مشروط طور پر) رسول کی پیروی کرتا ہے اور اس کو اُس سے ممتاز کردیں‘ جو اپنی ایڑیوں پر (کفر کی جانب) پلٹ جاتا ہے‘‘۔یہ بھی فرمایا ''بے شک ہم نے بارہا(وحی کے انتظار میں) آپ کو آسمان کی طرف رخ پلٹتے ہوئے دیکھا ہے ‘ سو ہم آپ کو ضرور بالضرور اسی قبلہ کی جانب پھیر دیں گے ‘ جو آپ کو پسند ہے۔ پس‘ آپ اپنا رخ مسجدِ حرام کی جانب پھیر لیں‘‘۔ آگے چل کر پھر فرمایا کہ مسلمان جہاں کہیں بھی ہو‘ اُسے نماز کے وقت اپنا رخ مسجد حرام کی جانب پھیر دینا چاہیے اور اس پر اہلِ کتاب سے کوئی سودے بازی یا مفاہمت نہیں ہوسکتی۔یہ بھی بتا یا کہ تورات وانجیل میں رسول اللہﷺ کی جو روشن نشانیاں بتائی گئی ہیں ‘ ان کی روشنی میں اہلِ کتاب رسول اللہﷺ کو اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں ‘ لیکن ان کے انکار کا سبب صرف کتمانِ حق ہے۔اسی سورت میں رسول کریمﷺ کی بعثت اور منصبِ نبوت کے فرائض کو ایک بار پھر بیان کیا گیا‘یعنی تلاوتِ آیاتِ الٰہی تزکیۂ باطن اور تعلیمِ کتاب وحکمت۔
آیات 153 تا 156 میں ہر مصیبت کے وقت صبر اور نماز کو اللہ تعالیٰ کی نصرت کا وسیلہ بنانے کی تعلیم دی گئی ہے اور راہِ حق میں پیش آنے والی آزمائشوں کا ذکر ہے ‘ جو (دشمن کے) خوف‘ بھوک ‘ جان ومال اور اولاد کے تلف ہونے کی صورت میں بھی ہوسکتی ہیں۔ ان مشکلات میں اہلِ صبر کو بشارتیں دی گئی ہیں اور اللہ کی راہ میں درجۂ شہادت پانے والوں کیلئے ابدی زندگی کی بشارت دی گئی ہے۔آیات 159 تا 163 میں بتایا گیا کہ جو لوگ دین کی حقانیت کے روشن دلائل اور پیغامِ ہدایت کو چھپاتے ہیں‘ اُن پر اللہ تعالیٰ‘ اس کے فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت اور دائمی عذاب کی وعید ہے‘ مگر جو توبہ کرلے اوراپنی اصلاح کرلے ‘ اُن کیلئے توبہ کی قبولیت کا دروازہ کھلا ہے۔آیات 164 تا 167 میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی قدرت کی نشانیوں کا ذکر ہے‘ یعنی زمین وآسمان کی پیدائش ‘گردشِ لیل ونہار کا نظام ‘ سمندروں میں انسانی فائدے کیلئے کشتیوں اور جہازوں کا رواں دواں رہنا ‘ بارش کے قدرتی نظام کے ذریعے خشک اور بنجر زمین کا دوبارہ زرخیز اور آباد ہونا‘ ہواؤں کا چلنااور آسمان اور زمین کے درمیان بادلوں کا معلق رہنا وغیرہ۔ یہ بھی بتایا کہ مشرکوں کوجتنی اپنے باطل معبودوں سے محبت ہے ‘ اہلِ ایمان کو اُس سے بہت زیادہ اللہ سے محبت ہے۔یہ بھی بیان ہوا کہ اس دنیا میں لوگ اپنے جن قائدین کی پیروی میں گمراہی کو اختیار کیے ہوئے ہیں ‘ قیامت کے دن یہ لیڈر اللہ کے عذاب کو دیکھ کر اپنے پیروکاروں سے برأت کریں گے۔ آیات 172 تا 173 میں حکم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ پاک نعمتوں کو کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو‘ پھر چار قطعی حرام چیزوں کا بیان ہوا‘ جو یہ ہیں: مردار (اس سے وہ حلال جانور مراد ہے‘جو طبعی موت مر گیا ہو) ذبح کے وقت بہنے والا خون ‘ خنزیز کا گوشت اوروہ حلال جانورجس پر ذبح کرتے وقت غیراللہ کا نام لیا گیا ہو‘صرف حالتِ اضطرار میں محض بقائے حیات کیلئے بقدرِ ضرورت ان کے استعمال کو مباح قرار دیا گیا۔ آیت نمبر177 میں بتایا کہ اصل نیکی صرف عبادت کے وقت مشرق ومغرب کی جانب رُخ کرنے کا نام نہیں‘ بلکہ کامل نیکی ایک جامع پیکیج کا نام ہے ‘ یعنی اللہ تعالیٰ ‘ یومِ قیامت ‘ ملائک ‘ تمام الہامی کتب اور سارے انبیاء کرام پر ایمان ‘ اس کے ساتھ انفاق فی سبیل اللہ‘نظامِ صلوٰۃ و زکوٰۃ کا قیام‘ ایفائے عہد اور ہرمصیبت کے وقت صبرواستقامت‘ پھر فرمایا کہ درحقیقت جو لوگ ان تمام صفات کے حامل ہیں‘ وہی دعویِٰ ایمان میں سچے ہیں۔ آیات 178 اور 179 میں اسلام کے قانونِ قصاص کا بیان ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ''قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے‘‘ چنانچہ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ جس معاشرے میں قانونِ قصاص عملاً نافذ نہیں ‘ وہاں آئے دن بے قصور انسانوں کی جان ‘ مال اور آبرو کی حُرمت پامال ہو رہی ہے۔ آیت نمبر 194میں چار مہینوں کی حرمت کا بیان ہے۔ آیات 195 سے 203 تک حج اور عمرے اور حج کے بعض مسائل کا بیان ہے۔ آیت 207اور 208 میں بتایا کہ حقیقت ِ ایمان‘ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنی جان کا سودا ہے اور اسلام بعض چیزوں کو قبول کرنے اور بعض کو رد کرنے کا نام نہیں‘ بلکہ اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کریمﷺ کے تمام احکام (اَوامر و نواہی) کو من و عن قبول کیاجائے ‘یہ نہیں ہوسکتا کہ بعض باتیں آپ کو پسند ہوں‘ تواُنہیں قبول کرلیں اورجو باتیں آپ کو پسند نہ ہوں‘ تو اُنہیں رَد کردیں۔ آیت نمبر213 میں بتایا گیا کہ تمام لوگ اصل کے اعتبار سے ایک تھے‘ پھر اللہ تعالیٰ نے نظامِ رسالت قائم فرمایا ‘ ہر دور کے لوگوں کیلئے کتابِ ہدایت نازل کی‘ اُس کے بعد انسانیت دو گروہوں میں بٹ گئی ایک اہلِ حق ‘ یعنی انبیاء کرام کے پیرو کار اور دوسرے اہلِ باطل‘ یعنی خواہشاتِ نفس اور شیطان کے پیروکار۔ آیت نمبر 214 میں یہ بتایا گیا کہ جنت کا حقدار بننے کیلئے محض دعویِٰ ایمان کافی نہیں‘ بلکہ اُس کیلئے راہِ حق میں مشکلات کا استقامت کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے۔ جیسا کہ انبیائے کرام اور ان کے سچے پیرو کاروں کی روشن مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ آیت نمبر 215 میں انفاق فی سبیل اللہ کے مصارف کا بیان ہے اور اگر آیت نمبر 219 کو اس سے ملا کر سمجھا جائے تو اس امر کا بیان ہے کہ جو مال تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو ‘ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ اسی آیت میں شراب اور جوئے کی حُرمت کا ابتدائی بیان ہے کہ ان کے نفع کے مقابلے میں ان کا گناہ بہت بڑا ہے۔ آیت نمبر 216 میں جہاد کی فرضیت کا بیان ہے۔ آیت نمبر 221 میں مشرک عورتوں سے نکاح کی ممانعت کا بیان ہے اور آیت نمبر 222 میں اس امر کا بیان ہے کہ ایامِ مخصوص (یعنی حالتِ حیض ونفاس)میں عورت سے مباشرت منع ہے۔ آیت نمبر 224 اور 225 میں اس امر کا بیان ہے کہ اگر کسی نے ایسی قسم کھا لی ہے‘ جس پر قائم رہنا ‘ شریعت کی رو سے ناپسندیدہ ہے تو چاہیے کہ اسے توڑ دے اور کفارہ ادا کرے؛ چنانچہ فرمایا ''اور تم نیکی ‘ تقویٰ اور لوگوں کی خیر خواہی سے بچنے کیلئے اللہ کے نام کی قسمیں کھانے کو بہانہ نہ بناؤ‘‘۔
آیت نمبر 226 اور 227 میں ''ایلا‘‘ کا بیان ہے۔ ''ایلا‘‘ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو یہ کہے کہ ''اللہ کی قسم میں چار ماہ تک یا ہمیشہ کیلئے تمہارے ساتھ ازدواجی تعلق قائم نہیں کروں گا‘‘۔ اگر چار ماہ کے اندر قسم کا کفارہ ادا کرکے قسم توڑ دے تو نکاح قائم رہے گا ‘ورنہ ایک طلاقِ بائن واقع ہو جائے گی۔ آیت نمبر 228میں یہ بتایا کہ مطلّقہ عورت کی عدت ایامِ مخصوص کے تین دورانیوں کی تکمیل ہے۔آیت نمبر 229 میں یہ حکم بیان ہوا کہ دو صریح طلاقیں (خواہ الگ الگ دی جائیں یا ایک ساتھ) دینے کے بعد بھی شوہر کو یک طرفہ طور پر رجوع کا حق حاصل ہے اور اگر تیسری طلاق دے دی ‘ تو بیوی اس پر حرام ہو جائے گی (یعنی اب براہِ راست یا عقدِ ثانی کے ذریعے رجوع کی گنجائش نہیں ہے) سوائے ‘اس کے کہ وہ عورت عدت گزرنے کے بعد اپنی مرضی سے کسی اور شخص سے نکاح کرے اور وہ شخص اپنی مرضی سے اسے طلاق دے ‘ تو صرف اس صورت میں وہ سابق شوہر سے نکاح کر سکتی ہے۔ اس میں خلع کا بھی بیان ہے۔ آیت نمبر231 اور 232 میں یہ بیان ہوا کہ عورت کو طلاقِ رجعی دینے کے بعد اگر خوش دلی سے اور حسنِ سلوک کے ساتھ اپنے نکاح میں رکھنے کا ارادہ ہو تو عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرلو اور اگر اسے حسنِ سلوک کے ساتھ نکاح میں رکھنے کا ارادہ نہ ہو تو محض ضرر پہنچانے اور اذیت دینے کیلئے اس سے رجوع نہ کرو۔آیت نمبر 233 میں اس امرکا بیان ہے کہ ''رِضاعت‘‘ کی کامل مدت دو سال ہے؛ اگر دو سال سے کم مدت میں ماں کا دودھ چھڑانے سے بچے کی زندگی کو کوئی خطرہ نہ ہو یا دوسری غذاؤں سے اس کی ضرورت پوری ہوسکتی ہو ‘ تو اس مدت کی تکمیل اس صورت میں مستحب ہے ؛ اگر خدانخواستہ شیر خوار بچے کی ماں کو طلاق ہوجائے ‘ تو دودھ پلانا پھر بھی ماں کی ذمہ داری ہے اور دستور کے مطابق؛ اس کے ضروری اخراجات بچے کے باپ کے ذمے ہوں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved